مارگریٹا سیمونیئن: روسی صحافی جنھیں امریکہ کے صدارتی انتخابات میں مبینہ مداخلت پر پابندی کا سامنا ہے
- مصنف, کیٹیرینا خنکلووا
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
- ایک منٹ قبل
مارگریٹا سیمونیئن، جو روس کے سرکاری خبر رساں ادارے آر ٹی کی ایڈیٹ ان چیف ہیں، ان روسی صحافیوں میں شامل ہیں جن پر امریکہ نے مبینہ طور پر 2024 کے امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کے الزامات کی وجہ سے پابندیاں عائد کر دی ہیں۔44 سالہ مارگریٹا کو روس کی سب سے اہم پروپیگینڈا شخصیت بتایا جاتا ہے، جو پوتن کے نظریات کی ان سے بھی زیادہ بڑی حامی سمجھی جاتی ہیں۔امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے پابندیوں کے اعلان کے بعد جب فہرست میں ان کا نام سامنے آیا تو مارگریٹا نے ایکس پلیٹ فارم پر یوں ردعمل دیا کہ ’اچھا وہ جاگ گئے ہیں۔‘ اپنے ادارے کے دیگر افراد کے ناموں کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے لکھا ’بہت اچھے میری ٹیم۔‘مغربی دنیا کی جانب ان کے نظریات شاید مارچ میں بی بی سی کو دیے جانے والے انٹرویو سے واضح ہوتے ہیں جب صدر پوتن پانچویں بار صدارت کا عہدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا پوتن کا کوئی سنجیدہ مخالف امیدوار بھی ہے تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ ’کسی سنجیدہ امیدوار کی ضرورت ہے؟ کیوں؟ ہم آپ جیسے نہیں ہیں۔ اور ہم آپ کو زیادہ پسند بھی نہیں کرتے۔‘آرمینین خاندان میں پیدا ہونے والی مارگریٹا کو ایکسچینج پروگرام میں امریکہ جا کر تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا تو وہ 1995 میں نیو ہیمشائر پہنچیں۔ بعد میں روس لوٹ کر انھوں نے ٹی وی میں صحافت کا آغاز کیا۔2004 میں جب چیچن عسکریت پسندوں نے روس میں بیسلان سکول پر حملہ کیا تو مارگریٹا نے اس واقعے پر رپورٹنگ سے نام کمایا۔ تین دن تک جاری رہنے والے اس واقعے کا اختتام 186 بچوں کی ہلاکت کے ساتھ ہوا تھا۔مارگریٹا کو اس واقعے کے بعد 25 سال کی عمر میں ’رشیا ٹوڈے‘ نام کے بین الاقوامی نیٹ ورک کی تشکیل کے لیے چنا گیا جس کا نام بعد میں آر ٹی رکھ دیا گیا تھا۔دو دہائیوں سے وہ مغرب کی بڑی ناقد اور پوتن کی حامی رہی ہیں اور ایک ایسے نیٹ ورک کی سربراہی کر رہی ہیں جسے امریکہ ’کریملن کے پروپیگینڈا کا مرکزی کردار‘ قرار دیتا ہے جنھوں نے صدارتی انتخابات میں بھی مبینہ مداخلت کی۔،تصویر کا ذریعہSputnik/Sergei Bobylev/Kremlin via REUTERSوقت کے ساتھ ساتھ مارگریٹا اور ان کے چینل کا بیانیہ شدت اختیار کرتا گیا۔ سنہ 2000 سے 2010 تک، جب روس اور مغرب کے تعلقات میں دراڑیں پڑ رہی تھیں، اس نیٹ ورک پر الزامات لگے کہ وہ کریملن کا پروپیگینڈا پھیلا رہا ہے۔2014 میں کریمیا اور یوکرین کے مشرقی علاوں پر قبضے کے بعد اس چینل نے یوکرین اور مغرب پر کھل کر تنقید شروع کر دی اور یوکرین کی حکومت کے لیے ’ریجیم‘ کا لفظ استعمال کرنا شروع کر دیا تھا جبکہ مغرب پر الزام لگایا گیا کہ وہ ’روس کو تباہ‘ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
مارگریٹا صرف ایک چینل کی سربراہ ہی نہیں ہیں بلکہ روس کے سیاسی ٹی وی شوز میں باقاعدگی سے شرکت کرتی ہیں۔ 2022 میں برطانیہ نے ان کے چینل پر پابندی عائد کر دی تھی اور روس میں یوکرین پر حملے کے بعد جب بہت سے صحافیوں نے جنگ کی مخالفت میں استعفی دیا تو مارگریٹا نے الزام لگایا کہ ’جنگ کی مخالفت کرنے والے روسی نہیں ہیں۔‘یوکرین کی جنگ کے دوران جاسوسی کی ایک بڑی کہانی میں بھی انھوں نے مرکزی کردار ادا کیا اور جرمنی کی ایئر فورس کے ایک افسر کی گفتگو لیک کی جس میں انھیں طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کی یوکرین کو فراہمی اور ان کے استعمال پر بات کرتے سنا گیا۔ان کی عوامی رائے اب سرکاری بیانیے سے بلکل الگ نہیں ہے اور اکثر وہ روس کے دشمنوں کے خلاف تشدد کے استعمال کے حق میں بات کرتی ہیں۔انھوں نے اس سرکاری بیانیے کو بھی فروغ دیا ہے کہ روس کو یوکرین کے مقبوضہ علاقوں میں ریفرینڈم کروانا چاہیے تاکہ ’لوگ فیصلہ کر سکیں کہ وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔‘دوسری جانب انھوں نے روس کی حزب مخالف کے سربراہان کو ’پھانسی دینے‘ کے ساتھ ساتھ ’یورپ کے اندر فوج بھیجنے‘ کی بھی بات کی ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.