مائیکل وان نسل پرستی کے الزام سے بری
عظیم رفیق نے الزام لگایا تھا کہ مائیکل وان نے انھیں اور تین دوسرے ایشین نژاد کھلاڑیوں سے کہا تھا کہ ’تم لوگ بہت زیادہ تعداد میں ہو گئے ہو۔ ہمیں اس کا کچھ کرنا پڑے گا۔
انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان مائیل وان کو ’امکانات کے توازن‘ کی بنیاد پر اس الزام سے بری کر دیا گیا ہے کہ انھوں نے یارکشائر کرکٹ ٹیم کے پرانے ساتھی، عظیم رفیق کے خلاف نسل پرستانہ زبان استعمال کی تھی۔
مائیکل وان پر الزام تھا کہ جب سنہ 2009 میں وہ یارکشائر ٹیم کے کپتان تھے اور اس ٹیم میں تین ایشیائی نژاد کھلاڑی کھیل رہے تھے تو مائیکل وان نے کہا تھا کہ ’تم لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی ہے، ہمیں اس معاملے پر بات کرنا ہوگی۔‘
عظیم رفیق کے الزامات کی تفتیش کرنے والے ’کرکٹ ڈسپلن کمیشن‘ کا کہنا ہے کہ 48 سالہ مائیکل وان کے خلاف انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ نے جو مقدمہ قائم کیا تھا، وہ ثابت نہیں ہوا ہے۔
کمیشن کے پینل نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’اگر دونوں جانب کی باتوں کو دیکھا جائے‘ تو پینل کو ’قائل نہیں کیا جا سکا ہے کہ مبینہ طور مائیکل وان نے اس وقت اور ان خاص حالات میں یہ الفاظ کہے ہوں گے۔‘
تاہم، کمیشن کا کہنا تھا کہ ان کی تفتیش کے نتائج عظیم رفیق کے اس استدلال کی اہمیت کو کم نہیں کرتے‘ کہ انگلینڈ کا کرکٹ حلقہ ’بطور ادارہ نسل پرست‘ ہے۔
اپنے اختتامی کلمات میں انضباطی کمیشن نے یہ بھی کہا کہ ’یہ کوئی ایسا معاملہ`نہیں ہے جس پر پینل اپنی حتمی رائے دیتا کہ آیا (اس معاملے میں) کسی نے کوئی جھوٹ بولا ہے یا بدنیتی سے کام لیا ہے۔‘
بلکہ اس کے برعکس پینل کا کام ’یہ دیکھنا تھا کہ آیا انگلش کرکٹ بورڈ نے کمیشن کے پاس جو معاملہ بھیجا ہے، وہ تمام شواہد کی روشنی میں، اتنا درست اور قابل بھروسہ ہے یا نہیں کہ اس میں غلطی کے احتمال کو رد کیا جا سکتا ہے۔ (لیکن) ایسا نہیں ہوا ہے، یعنی شواہد میں غلطی کا احتمال موجود ہے۔
یاد رہے کہ عظیم رفیق نے الزام عائد کیا تھا کہ مائیکل وان نے 22 جون 2009 کو ٹرینٹ برج میں ناٹنگھم شائر کے خلاف میچ سے قبل ان، عادل رشید، رانا نوید الحسن اور اجمل شہزاد کے بارے میں یہ کہا تھا کہ ’تم لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی ہے، ہمیں اس معاملے پر بات کرنا ہوگی۔‘
کمیشن کے فیصلے کے باضابطہ اجراء سے قبل انگلینڈ کے سابق کپتان اور بی بی سی کے کرکٹ پروگراموں کے معروف مبصر، مائیل وان نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ ’ رفیق عظیم نے گزشتہ تین برس میں جو تکلیف دہ تجربات بیان کیے ہیں ان کے بارے میں کچھ سننا مشکل بھی ہے اور پریشان کن بھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سی ڈی سی کی تحقیقات کے نتائج کو اس بنیادی بات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا جا سکتا کہ کرکٹ کے کھیل میں یا عام طور پر (برطانوی) معاشرے میں نسل پرستی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوسکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں کبھی بھی ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتا تھا جو کرکٹ کے کھیل کو صاف کرنے کی حقیقی کوششوں کے خلاف ہو۔ مجھے واقعی امید ہے کہ لوگ یہ بات سھمجیں گے کہ ذاتی سطح پر، میں کسی ایسی چیز کو قبول کیوں نہیں کر سکتا یا معافی نہیں مانگ سکتا، جو میں نے کی ہی نہیں ہے۔‘
مائیکل وان کا کہنا تھا کہ ان پر لگائے جانے والے الزات نے گزشتہ عرصے میں بعض اوقات انھیں اس مقام پر لا کھڑا کر دیا تھا جہاں کرکٹ سے ان کی محبت ہی ختم ہو جاتی۔ لیکن ’میں یہاں اس بات کا ذکر نہیں کروں گا کہ اس معاملے نے مجھے اور میری فیملی کو کتنا نقصان پہنچایا ہے، لیکن مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ معاملہ تمام متعلقہ لوگوں کے لیے بھی ناقابل یقین حد تک تناؤ کا باعث رہا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ان کے لیے اور کرکٹ کے لیے اب ایک جامع بحالی کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔‘
Comments are closed.