ماؤ زے تنگ کی ملک سے چڑیا ختم کرنے کی مہم جس کی چین نے بھاری قیمت ادا کی
‘چین 1958 اور 1962 کے درمیان جہنم بن چکا تھا۔`
ڈچ مؤرخ فرینک ڈیکوٹر نے اپنی کتاب ‘ماؤ کے چین کے عظیم قحط` کا آغاز اس طاقتور جملے سے کیا ہے۔
ڈیکوٹر نے چین کے اس دور کو بیان کیا ہے جسے ‘دی گریٹ لیپ فارورڈ` کہا جاتا ہے جب بائیں بازو کے چین کی بنیاد رکھنے والے ماؤ زے تنگ نے پورے چین کو ترقی کی دوڑ میں دھکیل کر مغربی ممالک کے قریب پہنچا دیا۔
انھوں نے یہ کام بڑے پیمانے پر کاشتکاری اور تیز رفتار صنعت کاری کے ذریعے کیا۔
مورخین اس بارے میں متفق نہیں ہیں کہ آگے بڑھنے کے اس سلسلے کے بعد آنے والے تاریخی قحط میں کتنے لوگ مارے گئے۔ ڈیکوٹر سے پہلے کے اندازے کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 1.5 کروڑ سے 1.25 کروڑ کے درمیان ہے۔
لیکن ڈچ تاریخ دان فرینک ڈیکوٹر کا خیال ہے کہ 1958 سے 1962 کے درمیان تقریباً 45 ملین لوگ غیر ضروری طور پر مارے گئے۔
بی بی سی منڈو سے بات کرتے ہوئے کم ٹوڈ کا کہنا ہے کہ اس دور کی سب سے خوفناک چیز ‘چار طاعون کے خلاف مہم` تھی۔
‘ماؤ کی گریٹ لیپ فارورڈ کا ایک حصہ جانوروں کے خلاف مہم تھی۔ ماؤ نے انھیں چین کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر دیکھا۔ چار قسم کے جانوروں کو نقصان دہ قرار دیا گیا۔ یہ چوہے، مچھر، مکھیاں یا کیڑے اور چڑیاں تھیں۔ ماؤ چاہتے تھے کہ چینی عوام ان سے چھٹکارا حاصل کریں۔‘
ماؤ زے تنگ
آبادی کی صحت اور صفائی کے نام پر پہلے تین جانور مارے گئے۔ لیکن چوتھے نے مختلف قسم کا جرم کیا تھا۔
نیچرل ہسٹری کے ماہر اور اسپیرو کتاب کے مصنف کم ٹوڈ کا کہنا ہے کہ چڑیوں کو اس فہرست میں اس لیے شامل کیا گیا کہ وہ بہت زیادہ اناج کھاتی ہیں۔ ماؤ چاہتے تھے کہ اناج کا ہر دانہ صرف آبادی کے لیے ہو۔
لیکن چین نے چڑیا کو مارنے کی بھاری قیمت ادا کی۔ جلد ہی چین کو اس پرندے کو دوسرے ممالک سے لانا پڑا۔
چڑیا کو مارنے کے بھیانک طریقے
ان چند برسوں میں چین میں جو کچھ ہوا اس کے بارے میں بتاتے ہوئے ماہر ماحولیات صحافی اور مصنف جان پلیٹ کہتے ہیں کہ ‘تاریخ فطرت کی تباہی کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے، لیکن 1958 میں چین میں جو کچھ ہوا اس سے شاید ہی کسی تباہی کا موازنہ کیا جا سکے۔‘
چین کے بانی رہنما ماؤ نے فیصلہ کیا کہ ان کا ملک چڑیوں کے بغیر رہ سکتا ہے۔ بہت سی دوسری پالیسیوں کی طرح اس فیصلے کا اثر اس قدر وسیع ہوا کہ تباہی کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔
امریکہ کے پورٹ لینڈ سے بی بی سی منڈو سے بات کرتے ہوئے پلاٹ نے بتایا کہ چڑیا کو مارنے کے لیے ہر طریقہ استعمال کیا گیا۔
‘انھیں گولی ماری گئی، لوگوں نے گھونسلے توڑ دیے اور انڈے نکالے گئے۔ انھیں مارنے کا سب سے بھیانک طریقہ یہ تھا کہ ان کا پیچھا کیا جائے اور اس وقت تک شور مچایا جائے جب تک وہ بے ہوش نہ ہو جائیں۔‘
چڑیا کو اپنے گھونسلے میں آرام کرنا پڑتا ہے۔ اڑنے اور خوراک کی تلاش اس پرندے کے لیے بہت تھکا دینے والی ہوتی ہے۔
پلاٹ کے مطابق اس دور میں چڑیا کو اتنے بڑے پیمانے پر مارا گیا کہ ایسی کہانیاں ہیں کہ لوگ مردہ پرندوں کو بیلچوں سے اٹھا کر پھینک دیتے تھے۔ دو سال کے اندر، یہ نسل، جو چین میں سب سے زیادہ پائی جاتی تھی، معدومیت کے دہانے پر پہنچ گئی۔
ٹوڈ بتاتے ہیں کہ چڑیوں کے خلاف استعمال ہونے والے طریقے اتنے درست نہیں تھے کہ انھیں اسی نوع تک محدود رکھا جا سکے۔
‘لوگوں کے ہجوم نے گھونسلے توڑ دیے اور جو بھی چڑیا دیکھی اسے مار ڈالا۔ بیجنگ جیسے شہروں میں لوگ اتنا شور مچاتے تھے کہ پرندے تھک جاتے تھے اور اڑتے ہوئے مر جاتے تھے۔ اس سے نہ صرف چڑیاں بلکہ پرندوں کی دوسری نسلیں بھی متاثر ہوئیں۔‘
کئی سال پہلے چینی صحافی اور ماحولیاتی کارکن ڈائی کنگ نے لکھا تھا کہ ‘ماؤ کو جانوروں کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا۔ نہ تو وہ اپنے منصوبے پر بات کرنا چاہتے تھے اور نہ ہی کسی ماہر سے مشورہ لیا گیا۔ انھوں نے بس فیصلہ کیا کہ ان چاروں انواع کو ختم کرنا ہے۔‘
لیکن ہوا یہ کہ چوہے، مچھر اور مکھیاں تو ختم کر دی گئیں لیکن چڑیا بچ گئی۔
ٹڈی دل کا حملہ
ٹوڈ بتاتے ہیں کہ اس چڑیا مار مہم کے بعد ٹڈی دل کا حملہ ہوا۔ لوگوں نے سمجھا کہ ایسا چڑیا کے خلاف مہم کی وجہ سے ہوا ہے۔ آخر کار چڑیا کو اس فہرست سے نکال دیا گیا اور اس کی جگہ کھٹملوں نے لے لی۔
پلاٹ بتاتے ہیں کہ کسی حد تک قدرتی توازن برقرار رکھنے کے لیے، چین کو روس سے لاکھوں چڑیاں لانی پڑیں۔
مشرقی ایشیا کے ماہر اور بی بی سی کے صحافی ٹم لوارڈ کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ چڑیاں ٹڈیوں کو کھانا پسند کرتی ہیں۔
‘ٹڈیوں کو کھانے کے لیے کوئی چڑیاں باقی نہیں تھیں، اس کی وجہ سے ٹڈیوں کا طاعون، فصلوں کی خرابی، اور اس کے نتیجے میں آنے والے قحط نے لاکھوں لوگوں کی جان لے لی۔‘
لیکن ٹوڈ تسلیم کرتے ہیں کہ چڑیوں کی ہلاکت، ٹڈی دل کے حملوں اور قحط کے درمیان براہ راست تعلق قائم کرنا آسان نہیں ہے۔
‘چڑیاں زیادہ تر اناج کھاتی ہیں اور کیڑے مکوڑے اپنے بچوں کو کھلاتی ہیں۔ یہ کام سال کے مخصوص اوقات میں کرتی ہیں۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ چڑیاں زیادہ تعداد میں نہیں ہیں اور وہ ایسا نہیں کر رہی ہیں، تو اس کا براہ راست اثر کیڑوں کی آبادی پر پڑے گا۔‘
ایک بات یہ ہے کہ اس مہم کے تحت صرف چڑیاں ہی نہیں ماری گئیں بلکہ پرندوں کی بہت سی دوسری نسلوں کو بھی نشانہ بنایا گیا، جن میں سے کئی ایسے ہیں جو چڑیوں سے زیادہ کیڑے کھاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
دوسری جانب پلاٹ کا کہنا ہے کہ ‘یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ چڑیا کے خلاف مہم قحط کی ذمہ دار تھی لیکن اس کی اور بھی بہت سی وجوہات تھیں۔‘
پلاٹ کا خیال ہے کہ قحط کی بنیادی وجہ 1960 کی خشک سالی تھی۔ اس کے علاوہ چین کی آمرانہ حکومت نے فطرت کو بدلنے کی کوشش میں جو غلطیاں کیں ان کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔
ان غلطیوں میں زرعی پیداوار کے طریقوں کو تبدیل کرنا بھی شامل ہے جس کی وجہ سے فصلیں تباہ ہو گئیں۔
بہت سے لکھاریوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ حکومت نے صنعتوں کو فروغ دینے کے لیے سٹیل کی پیداوار میں اضافہ کیا، جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو اپنے گاؤں چھوڑ کر فیکٹریوں میں جا کر کام کرنا پڑا۔ اس کی وجہ سے زرعی پیداوار میں کمی آئی اور قحط کے دوران ضروریات پوری نہ ہو سکیں۔
صحافی پلاٹ کہتے ہیں کہ ’آج ہم دنیا بھر میں ایک بار پھر لوگوں کو ایسے فیصلے کرتے ہوئے دیکھتے ہیں جو سائنس پر مبنی نہیں ہیں، ہم خشک سالی اور گرمی کی لہریں دیکھ رہے ہیں۔ ایسے بہت سے معاملات ہیں جن میں قدرتی توازن بگڑ چکا ہے۔‘
ساتھ ہی ٹوڈ کا کہنا ہے کہ تاریخ میں یہ پہلا موقع نہیں تھا جب ان پرندوں کو نشانہ بنایا گیا ہو۔
‘امریکہ میں بھی چڑیا کے خلاف جنگ کی گئی لیکن یہ چین کی طرح نہیں تھی۔‘ یہ 19ویں صدی کے وسط میں ہوا تھا جب بہت سے امریکیوں کا خیال تھا کہ کیڑوں کو کھانے کے لیے چڑیوں کو لانا ایک اچھا خیال ہے۔
چڑیوں کی درآمد
ٹوڈ بتاتے ہیں کہ امریکہ میں بہت سے لوگوں نے چڑیاں درآمد کیں۔ ‘یہ پورے امریکہ میں بروکلین، اوریگون، سنسناٹی میں ہوا۔ اور چند دہائیوں کے اندر، چڑیوں کی آبادی میں زبردست اضافہ ہوا۔‘
چڑیاں بہت سی دوسری نسلوں کی طرف جارحانہ ہو سکتی ہیں۔ بہت سے لوگ تھے، جن میں پرندوں کا مطالعہ کرنے والے بھی شامل تھے، جنھوں نے دیکھا کہ بہت سے علاقوں سے دیسی پرندے غائب ہو رہے ہیں کیونکہ وہاں چڑیوں کا غلبہ ہے۔
ایسے میں وہ لوگ جو چڑیا کی آبادی کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے اور وہ لوگ جو چڑیا کو محفوظ رکھنا چاہتے تھے آمنے سامنے آ گئے۔ تاہم اس تصادم کا اثر اس طرح نہیں ہوا جیسا کہ چین میں ہوا تھا۔
ٹوڈ کہتے ہیں کہ ‘میرے خیال میں کوئی بھی فریق دوسرے پر اپنی دلیل کو تھونپ نہیں سکا۔ لیکن چڑیا یقینی طور پر جیت گئی کیونکہ میں یہ انٹرویو بی بی سی کو امریکہ کے وسط میں منیی ایپولس سے دے رہا ہوں اور مجھے چڑیا کی چہچہاہٹ کی آواز آ رہی ہے۔ کھڑکی کے باہر چڑیا نے امریکہ کو اپنا گھر بنا لیا ہے۔‘
Comments are closed.