آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ لینڈ سلائیڈنگ کا سبب کیا ہے، اس کی مختلف اقسام کون سی ہیں اور آپ اس صورتحال میں اپنی اور دوسروں کی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہReuters
لینڈ سلائیڈ ہوتی کیا ہے؟
لینڈ سلائیڈ ایک ڈھلوانی علاقے میں مٹی، پتھر یا ملبے کی نیچے کی طرف حرکت ہے۔ یہ عمل اچانک یا بتدریج ہو سکتا ہے۔برٹش جیولوجیکل سروے کی ویب سائٹ کے مطابق، ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کسی ڈھلوان پر کشش ثقل سمیت نیچے کی جانب کھینچنے والی قوت وہاں موجود مٹی یا پتھروں کی وہاں جمے رہنے کی قوت سے زیادہ ہو جائے۔
لینڈ سلائیڈنگ کی وجوہات کیا ہوتی ہیں؟
زمین سرکنے کے زیادہ تر واقعات میں ایک سے زیادہ محرکات ہوتے ہیں۔امریکی ارضیاتی سروے (یو ایس جی ایس) کے مطابق، ’ ڈھلوانی علاقوں میں بارش، برف پگھلنے، پانی کی سطح میں تبدیلی، دریا کے کٹاؤ، زیرِ زمین پانی کی سطح میں تبدیلی، زلزلے، آتش فشانی سرگرمیوں اور انسانی سرگرمیوں سے خلل جیسی وجوہات یا ان میں سے کئی عوامل کے مجموعے سے زمین کھسکنے کی شروعات ہو سکتی ہے۔‘ لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات صرف زمین پر ہی نہیں بلکہ زیر آب بھی پیش آتے ہیں جنھیں سب میرین لینڈ سلائیڈز بھی کہا جاتا ہے۔ یہ زلزلے اور طوفانی لہروں کی وجہ سے پیش آ سکتے ہیں اور بعض اوقات سونامی کا باعث بنتے ہیں جو ساحلی علاقوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔عالمی ادارۂ صحت کے مطابق مندرجہ ذیل علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کے امکانات سب سے زیادہ ہوتے ہیں
- پہاڑوں کی ڈھلوانیں اور وادیوں کے دامن
- جنگل کی آگ سے جلنے والی زمین
- جنگلات کی کٹائی یا تعمیرات جیسی انسانی سرگرمیوں سے متاثرہ علاقے
- دریاؤں یا ندیوں کے کنارے کے علاقے
،تصویر کا ذریعہGetty Images
لینڈ سلائیڈنگ کی مختلف اقسام کیا ہیں؟
لینڈ سلائیڈنگ میں پہاڑی پتھروں یا مٹی کے تودوں کے اچانک گرنے سے لے کر صدیوں تک سست روی سے جاری یہی عمل تک سب شامل ہے۔امریکی ارضیاتی سروے کے مطابق بہت سی لینڈ سلائیڈز ان دونوں عوامل کا مرکب بھی ہوتی ہیں۔’لینڈ سلائیڈ‘ کی اصطلاح پانچ قسم کی ڈھلوانی حرکات کا احاطہ کرتی ہے جنھیں ’فالز، ٹوپلز، سلائیڈز، سپریڈز اور فلوز‘ کہا جاتا ہے۔یہاں ہر ایک کا مختصر خلاصہ ہے:فالز: ڈھلوان سے چٹان یا مٹی کے تودوں کا نیچے کی جانب گرناٹوپلز: ڈھلوان پر ملبے کا ایک محور کے گرد آگے بڑھ جانا۔سلائیڈز: ایک متعین سطح کے ساتھ ملبے کی نیچے کی طرف حرکت جس میں گردشی سلائیڈز بھی شامل ہیں۔سپریڈز: کم ڈھلوانی علاقے میں زمین کی حرکت جو اکثر لیکیوفیکیشن کی وجہ سے ہوتی ہے۔فلوز: مٹی اور پتھریلے مواد کی سیال جیسی حرکت، جیسے کیچڑ کا بہاؤ یا ملبے کا بہاؤ۔
لینڈ سلائیڈنگ سے کیسے بچا جائے؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
امریکہ کی واشنگٹن یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں لینڈ سلائیڈنگ کی صورت میں بچاؤ کے طریقوں پر تحقیق کے دوران محققین نے لینڈ سلائیڈنگ کے ایسے 38 واقعات کے ریکارڈ اکٹھے کیے اور ان کا تجزیہ کیا جن میں رہائشی عمارتیں متاثر ہوئی تھیں۔ زیادہ تر ڈیٹا امریکہ سے آیا، لیکن اس میں دنیا بھر سے لینڈ سلائیڈز کے ایسے واقعات بھی شامل تھے جن کے تفصیلی ریکارڈ موجود تھے۔ان محققین میں سے ایک اور سول اور ماحولیاتی انجینئرنگ کے پروفیسر جوزف وارٹ مین کہتے ہیں، ’دراصل کچھ بہت آسان اور کم خرچ اقدامات ہیں جو لینڈ سلائیڈ سے بچنے کے امکانات کو نمایاں طور پر بڑھا سکتے ہیں۔”ان کا کہنا ہے کہ صرف اوپری منزل پر جانے سے انسان کے زندہ رہنے کے امکانات بارہ گنا زیادہ ہو سکتے ہیں۔بقا کے دیگر نکات میں دروازے اور کھڑکیاں کھولنے کے ساتھ ساتھ اگر آپ دفن ہو جائیں تو حرکت کرتے رہنا اور شور مچانا شامل ہیں۔
لینڈ سلائیڈز کتنی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں؟
امریکی ارضیاتی سروے کے مطابق ’کچھ لینڈ سلائیڈز میں زمین کی حرکت انسانی حرکت سے زیادہ تیز ہو سکتی ہے اور یہ عمل بغیر کسی اطلاع کے دنوں، ہفتوں یا اس سے زیادہ وقت تک جاری رہ سکتا ہے۔‘ڈبلیو ایچ او کے مطابق لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں تیزی سے بہنے والے پانی اور اس میں موجود ملبے سے بڑی تعداد میں اموات اور لوگ زخمی ہو سکتے ہیں۔لینڈ سلائیڈنگ میں موت کی سب سے عام وجہ دم گھٹ جانا یا اچانک ملبے تلے پھنس جانے سے ہونے والا صدمہ ہے لیکن زمین سرکنے کے نتیجے میں سامنے آنے والے اثرات بھی نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ’لینڈ سلائیڈنگ صحت کے نظام اور ضروری خدمات جیسے پانی، بجلی یا مواصلاتی لائنوں کو بھی بہت زیادہ متاثر کر سکتی ہے۔‘بجلی کی ٹوٹی ہوئی تاروں سے کرنٹ لگ سکتا ہے جبکہ پانی اور سیوریج کے پائپوں کو نقصان پہنچنے سے صاف اور گندے پانی کے ملنے سے بیماریاں بھی پھیل سکتی ہیں۔ڈبلیو ایچ او کا مزید کہنا ہے کہ ’زمین کے تودے گرنے سے متاثر ہونے والے افراد کی ذہنی صحت پر خاندان، جائیداد، مویشیوں یا فصلوں کے نقصان کی وجہ سے مختصر اور طویل مدتی اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔‘
کیا زمین کی حرکت کا تعلق موسمیاتی تبدیلیوں سے ہے؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.