ٹیمپی: ایک نئی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ امریکا میں موجود لیتھیئم کی 72 کانوں میں کان کنی کے سبب ملک کو شدید پانی کی قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے طلبا کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ کان کنی کرنے والی اکثریتی کمپنیاں کولوراڈو دریا جیسے خشک ہوتے پانی کے ذرائع سے پانی کھینچ کر لیتھیئم نکالنے کا منصوبہ رکھتی ہیں۔
زیادہ تر کانوں (جو کہ مغربی خطے میں واقع ہیں) میں کان کنی کے لیے اربوں گیلن پانی کی ضرورت ایک ایسے وقت میں ہوگی جب یہ علاقہ 1200 سال کی تاریخ میں بدترین خشک سالی سے گزر رہا ہے۔
امریکی ریاست نیواڈا میں موجود سِلور پیک نامی کان میں 2020 سے اب تک چار ارب گیلن سے زیادہ مقدار میں پانی بہایا جا چکا ہے۔ سائنس دانوں کے اندازے کے مطابق زیر زمین پانی کے ذخائر مجموعی طور پر ختم ہونے کے قریب ہیں۔شمالی کیرولائنہ کے مشرقی ساحل پر موجود ایک اور کان کے متعلق معلوم ہوا کہ یہاں علاقے میں موجود رہائشیوں کے زیر استعمال کنویں اس کان کے سبب خشک ہو سکتے ہیں۔
تاہم، کان کنی کے لیے پانی کے استعمال میں کمپنیاں آزاد ہیں کیوں کان کنی کے وفاقی قانون (جو خانہ جنگی کے کچھ عرصہ بعد بنایا گیا تھا ) میں کسی قسم کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی تھی۔
واضح رہے امریکی سرزمین میں اندازاً 80 لاکھ میٹرک ٹن لیتھیئم کے ذخائر موجود ہیں جس کا مطلب ہے کہ امریکی صنعت 232 ارب ڈالر کی مالیت رکھتی ہے۔البتہ، امریکا لیتھیئم کی عالمی پیداوار میں صرف ایک فی صد کا شراکت دار ہے۔
Comments are closed.