بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

لیبیا کے انتخابات پر ترکی کیسے اثر انداز ہو سکتا ہے؟

لیبیا کے انتخابات پر ترکی کیسے اثر انداز ہو سکتا ہے؟

ترکی کے صدر رجب طیب اردغان اور لیبیا کے نگران وزیراعظم دیبیباہ

،تصویر کا ذریعہiStock

لیبیا میں ایک ایسے انتخابی عمل کی تیاری ہو رہی ہے جس کے نتائج کی پیشگوئی مشکل ہے۔ اس کے ساتھ ہی لیبیا میں ترکی کے کردار سے متعلق بھی بے یقینی موجود ہے۔

لیبیا میں خانہ جنگی کے دوران ترکی وہاں اہم بیرونی فریقوں میں شامل تھا جو ان جنگجوؤں کی حمایت کر رہا تھا جن کا گڑھ طرابلس تھا تاکہ اپنے معاشی، جغرافیائی اور سیاسی مفادات کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔

ترکی کی مداخلت نے جنرل خلیفہ ہفتار کو کمزور کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کی وجہ سے اکتوبر 2020 میں جنگ بندی ممکن ہو سکی اور اس کے بعد لیبیا میں ایک نگران قومی حکومت اور صدارتی کونسل قائم ہو سکی۔

اس عبوری سیاسی عمل کے دوران یہ دیکھنے میں آیا کہ ترکی اپنی فوجی صلاحیت کو کس طرح سیاسی فوائد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

لیبیا میں ترکی کے فوجی اہلکار اب بھی موجود ہیں اور وہاں اس کے بڑے معاشی مفادات کی وجہ سے مبصرین اس کے اگلے اقدامات کے بارے میں اندازے لگاتے رہتے ہیں۔

ترکی کی جانب سے خطے میں اپنے حریفوں کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی حالیہ کوششثں نے اس کے عزائم کے بارے میں مزید شکوک پیدا کیے ہیں۔ لیبیا میں ترکی کی مداخلت کی وجہ سے اسے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، روس اور فرانس کی مخالفت کا سامنا ہے۔

ترکی کا لیبیا میں کیا کردار ہے؟

لیبیا میں ترکی کی فوج جنوری 2020 سے تعینات ہونا شروع ہوئی تھی۔ نومبر 2019 میں ترکی اور لیبیا کی گورنمنٹ آف نیشنل ایکورڈ (جی این اے) کے درمیان ایک معاہدے کے بعد ترکی کی جانب سے لیبیا میں فوج بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس معاہدے کا مقصد یہ تھا کہ ترکی مشرقی بحیرۂ روم کے مسابقتی علاقے میں اپنا میری ٹائم زون قائم کر سکے۔

ترکی کی یہ بھی کوشش تھی کہ وہ خطے میں موجود مصر اور متحدہ عرب امارات جیسے حریفوں کو بڑھتے ہوئے اثرات کا بھی مقابلہ کر سکے جو جنرل خلیفہ ہفتار کی حمایت کر رہے تھے۔

خطے کا نقشہ

،تصویر کا ذریعہGoogle/BBC

اس کے علاوہ ترکی لیبیا میں اپنے وسیع معاشی مفادات کی حفاظت بھی کرنا چاہتا تھا جن میں وہ معاشی معاہدے بھی شامل ہیں جو لیبیا کے سابق حکمران معمر قذافی کے دور میں ہوئے تھے۔

حالیہ برسوں میں ترکی ان ممالک میں شامل ہو گیا ہے جو لیبیا کو سب سے زیادہ اشیا درآمد کرتے ہیں۔ ترکی کی کوشش ہے کہ وہ افریقہ میں ایک بڑے معاشی اثر و رسوخ والا ملک بن جائے۔

ترکی نے لیبیا کی گورنمنٹ آف نیشنل ایکورڈ کو فوجی تربیت اور آپریشنل سپورٹ کے علاوہ اپنے مسلح اور غیر مسلح ڈرونز کے ذریعے فضائی مدد بھی فراہم کی تھی۔ لیبیا میں مسراتہ نیول بیس اور الواطیہ ایئر بیس وہ اہم جگہیں ہیں جن کی وجہ سے ترکی نے لیبیا میں اپنے قدم جمائے۔ ان دونوں اڈوں پر آج بھی ترکی کی فوج پوری طرح موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

غیرملکی جنگجوؤں کے بارے میں ترکی کا موقف کیا ہے؟

لیبیا بھیجے جانے والے غیر ملکی جنگجو اور رضاکاروں کا مسئلہ ان اہم معاملات میں شامل ہے جو لیبیا میں ترکی کے مستقبل پر اثرا نداز ہوں گے۔

جنگ بندی کے معاہدے میں ایسی تمام قوتوں کے انخلا پر زور دیا گیا ہے تاہم ترکی کا کہنا ہے کہ لیبیا میں اس کی موجودگی کا جواز وہ دوطرفہ معاہدہ ہے جو گزشتہ حکومت کے ساتھ کیا گیا تھا۔

ترکی کا کہنا ہے کہ اس نے اقوامِ متحدہ کی حمایت والی جی این اے حکومت کی مدد کے لیے اس وقت اپنی فوج بھیجی تھی۔ ترکی نے اپنی حریف بیرونی قوتوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے حمایت یافتہ جنگجوؤں اور رضاکاروں کو لیبیا سے نکالیں۔

صدر رجب طیب اردغان کہہ چکے ہیں کہ ترکی لیبیا سے اپنی فورسز کو اس وقت تک نہیں نکالے گا جب تک دوسرے ممالک ایسا نہ کریں۔ ترکی کے حکام نے اس سلسلے میں خاص طور پر روسی فوجی کمپنی واگنر کا ذکر کیا ہے جو جنرل ہفتار کی مدد کرتی ہے۔

ترکی کا ڈرون

،تصویر کا ذریعہGetty Images

دو دسمبر کو لیبیا کے ایک مشترکہ ملٹری کمیشن نے روس جانے سے پہلے ترکی کا دورہ کیا ہے جہاں غیرملکی جنگجوؤں اور رضاکاروں کے انخلا پر بات چیت ہوئی ہے۔

سنہ 2020 کے اواخر سے لڑائی میں کمی کے باوجود اس معاملے پر تعطل ابھی بھی برقرار ہے جس کے منفی اثرات موجودہ انتخابی عمل پر پڑ سکتے ہیں۔

انتخابات میں ترکی کس کی حمایت کرے گا؟

لیبیا کے انتخابات میں ترکی نے ابھی تک کسی کی کھل کر حمایت نہیں کی تاہم موجودہ نگراں وزیراعظم عبدالحامد دبیباہ کے ساتھ ترکی کے قریبی تعلقات ہیں۔ عبدالحامد دبیباہ، مسراتہ ایک بڑی کاروباری شخصیت ہیں جنھوں نے صدارتی انتحابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔

عبدالحامد دبیباہ کئی مرتبہ ترکی کا دورہ کر چکے ہیں جہاں ان کی حکام سے کئی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ دو طرف سے قریبی تعلقات اور تعاون کا اعادہ کیا گیا ۔ وہ نومبر 2019 میں ترکی اور جی این اے حکومت کے درمیان ہونے والے میری ٹائم معاہدے کی حمایت بھی کر چکے ہیں۔ دبیباہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے ترکی کو ایک دوست اور اتحادی قرار دے چکے ہیں۔

ایک دوسرے صدارتی امیدوار فتحی بشاغا بھی ترکی کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ وہ جی این اے کی حکومت میں وزیرِ داخلہ رہ چکے ہیں۔ فتحی بشاغا کا تعلق بھی مسراتہ سے ہے اور وہ بھی کئی مرتبہ ترکی کا دورہ کر چکے ہیں۔

اس دوران ترکی نے جنرل ہفتار کے صدارتی امیدوار بننے کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا ہے۔ جنرل ہفتار اور ترکی کی حمایت والی جی این اے حکومت کے درمیان شدید لڑائی ہوتی رہی ہے۔

لیبیا کی صورتحال اور خطے میں کشیدگی

لیبیا میں ترکی کی مداخلت نے اسے اپنے کئی علاقائی حریفوں کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ جب لڑائی اپنے زوروں پر تھی تو لیبیا میں جی این اے کی حکومت کے حامی ترکی کے میڈیا نے متحدہ عرب امارات کی حمایت والے جنرل ہفتار پر کڑی نکتہ چینی کی تھی۔ ترکی کے میڈیا نے متحدہ عرب امارات کو ’مشرق وسطیٰ کا شیطانی کردار‘ والا ملک قرار دیا تھا۔

ترکی کے وزیرِ خارجہ نے مئی 2020 میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ یو اے ای خطے میں انتشار پھیلا رہا ہے تاہم حالیہ مہینوں میں ترکی نے اپنے حریفوں کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی ہے جن میں یو اے ای، مصر اور سعودی عرب شامل ہیں۔

24 نومبر کو صدر اردوغان نے ابو ظہبی کے ولی عہد شہذادہ محمد بن زاید سے انقرہ میں ملاقات کی جس میں معاشی معاہدوں پر دستخط ہوئے اور تعلقات بہتر کرنے کے وعدے بھی ہوئے تاہم یہ سب بہت نازک موڑ پر ہے اور لیبیا میں ہونے والی پیش رفت کا مرہونِ منت ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.