لیبیا کا تباہ کن سیلاب: ’خوفناک‘ منظر دیکھا جو موت سے بھی بدتر تھا، لاشیں ہمارے سامنے تیر رہی تھیں‘
- مصنف, جوئل گنٹر
- عہدہ, بی بی سی نیوز
کچھ غلط ہونے والا ہے، اس کی پہلی نشانی کتوں کے بھونکنے کی آواز تھی۔
اس وقت رات کے 2:30 بجے تھے اور باہر مکمل اندھیرا اور خاموشی تھی۔ جب مشرقی لیبیا کے شہر درنہ میں 31 سالہ اکاؤنٹنٹ حسام عبدلگاوی اٹھے اور بھوکنے والے کتوں کو دیکھنے نیند کی حالت میں اپنے کمرے سے نیچے اترے مگر انھیں اچانک اپنے پیروں تلے پانی محسوس ہوا۔
حسام کے ساتھ ان کے گھر میں ان کے چھوٹے بھائی ابراھیم بھی رہتے ہیں۔ انھوں نے جیسے ہی اپنے گھر کا مرکزی دروازہ کھولا تو دروازے کی چوکھٹ کو اکھاڑتے ہوئے مزید پانی اندر آگیا۔
حسام نے لیبیا کے شہر القبا سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ جیسے ہی مزید پانی اندر آیا تو وہ دونوں بھائی پچھلے دروازے کی جانب دوڑے جہاں انھوں نے ایک ناقابل یقین ’خوفناک‘ منظر دیکھا جو موت سے بھی بدتر تھا۔
’بچوں اور عورتوں کی لاشیں ہمارے سامنے سے تیرتی جا رہی تھیں، گاڑیاں اور پورے پورے گھر پانی میں بہہ رہے تھے۔ کچھ لاشیں پانی میں بہتی ہوئی ہمارے گھر میں بھی داخل ہو گئی تھیں۔‘
پانی حسام اور ابراھیم کو بھی ان کی سوچ سے تیز بہا کر لے گیا اور چند سیکنڈوں میں ہی دونوں بھائی ایک دوسرے سے 150 میٹر دور ہو گئے۔
28 سالہ ابراھیم پانی میں بہتے ہوئے بجلی کی تاروں کو پکڑنے میں کامیاب ہو گئے جو ابھی تک کھمبوں سے جڑی ہوئی تھیں اور خود کو اس طرف واپس لے جانے میں کامیاب ہو گئے جہاں ان کے بھائی حسام پھنس گئے تھے۔ بھائیوں نے تاروں کا رسیوں کی طرح استعمال کیا تاکہ وہ قریبی عمارت کی تیسری منزل کی کھڑکی سے خود کو اوپر کھینچ سکیں اور وہاں سے وہ دونوں اس عمارت کی پانچویں منزل کی چھت تک پہنچے جہاں وہ سیلاب کے گزر جانے تک انتظار کر سکتے تھے۔
حسام کا کہنا ہے کہ ’ہم شہر کے اونچے علاقے میں تھے، میرا نہیں خیال کہ شہر کے نشیبی علاقوں میں کوئی پانچویں یا چھٹی منزل پر بھی سیلاب سے بچا ہو گا، میرے خیال میں وہ سب مارے گئے، خدا ان کی مغفرت کرے۔‘
لیبیا کے شہر درنہ میں سیلاب سے ہونے والی ہلاکتوں کے مختلف اندازے ہیں۔ اقوام متحدہ میں لیبیا کے سفارت کار کا کہنا ہے کہ چھ ہزار ہلاکتوں کی تصدیق کی جا چکی ہے جبکہ ہزاروں لاپتہ ہیں۔ لیبیا میں ہلال احمر کے اہلکار کے مطابق تقریباً دس ہزار افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ درنہ کے میئر نے خبردار کیا ہے سیلاب سے 20 ہزار افراد کی ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔
سیلاب میں شدت درنہ کے باہر دو ڈیموں کے ٹوٹنے سے بڑھی تھی، جس سے شہر کے وسط میں پانی کا ایک خوفناک ریلہ آ گیا تھا۔
18 سالہ طالبعلم رحمہ بن خیال جنھوں نے چھت پر چڑھ کر اپنی جان بچائی، کہتی ہیں کہ ’پانی نے درنہ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا، اس کے بیچ سب کچھ تباہ ہو گئے۔ سیلابی ریلے کی زد میں آنے والے تمام لوگ مارے گئے۔‘
اس طوفانی بارش جس نے پورے شہر کو غرق کر دیا ایک روز قبل ہلکی بوندا باندی کی صورت میں شروع ہوئی تھی۔
درنہ میں پلی بڑھی 23 سالہ میڈیکل کی طالبہ آمنہ الامین عباسی جو بیماری سے وفات پانے والے والدین کے بعد اپنے تین چھوٹے بہن بھائیوں کی سرپرست ہیں، کہتی ہیں کہ ’پہلے پہل یہ بارش خوفناک نہیں تھی‘
جیسے ہی باہر بارش کی بوندیں گرنے لگیں تھی تو اس روز چاروں بہن بھائی بیچ ٹاورز کی پہلی منزل میں اپنے اپارٹمنٹ میں بیٹھ کر اس سے لطف اندوز ہوئے اور گیم کھیل رہے تھے اور اپنے فون پر سکرول کر رہے تھے۔ اس روز انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی کو لائف جیکٹ پہنائی تھی اور اس پر ہنسے تھے۔
لیکن اتوار کی رات تک یہ بارش شدید ہو گئی اور ہنگامی سائرن بجنے لگے جس سے یہ چاروں رات بھر سو نہیں سکے۔
آمنہ نے تبروک سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ تقریباً رات ڈھائی بجے شروع ہوئی اور اس کی آواز میں شدت آتی گئی، میرے بھائی نے کہا کہ وہ گلیوں میں پانی بھرتا دیکھ سکتا تھا۔‘
جیسے جیسے شہر میں پانی بھرتا گیا، ان کے ہمسایوں نے سات منزلہ عمارت کی اوپری منزلوں کی جانب جانا شروع کر دیا۔ آمنہ نے بھی یہ دیکھتے ہوئے فوراً اپنی بلی اور چاروں بہن بھائیوں کے پاسپورٹ پکڑے اور وہ سب اپنے اپارٹمنٹ سے نکل کر پہلی منزل سے تیسری منزل پر چلے گئے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’رات کے اندھیرے میں لوگ باہر دیکھتے ہوئے دعائیں کر رہے تھے۔‘ اس دوران پانی تیسری منزل تک بھی پہنچ گیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’سب نے چیخنا شروع کر دیا، ہم دوبارہ اوپر کی منزل کی جانب بڑھے اور پانچویں منزل سے ہوتے ہوئے ساتویں منزل تک آ گئے۔‘
آمنہ بتاتی ہیں کہ ’اس وقت تک افراتفری مچ گئی تھی، میں نے اپنی بلی کو کھو دیا، ایک منٹ کے لیے میرا چھوٹا بھائی بھی کھو گیا تھا لیکن میں نے اسے تلاش کر لیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ ہم ساتویں منزل پر بھی محفوظ نہیں رہ سکتے ہمیں اس کی چھت پر جانا ہو گا۔‘
وہاں سے وہ اپنے سامنے والی تین منزلہ عمارت کی چھت پر اپنے ہمسایوں کو دیکھ سکتے تھے۔ ان میں ان کے جاننے والوں کا بھی ایک خاندان شامل تھا۔ وہ موبائل فون کی روشنیوں کی مدد سے ہاتھ ہلا رہے تھے اور چند ہی لمحوں بعد وہ پوری عمارت پانی میں بہہ گئی۔
آمنہ کہتی ہیں کہ ’مجھے یہ زلزلے کی طرح محسوس ہوا۔ ان کے جاننے والے خاندان کے افراد کا اب تک کچھ نہیں پتا۔ ان کا بیٹا ان کی تلاش کر رہا ہے اور ہم نے اسے بتایا کہ ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے عمارت کو منہدم ہوتے دیکھا ہے۔‘
آمنہ کے خاندان کے کچھ افراد بھی لاپتا ہیں۔ ان کے چچا، چچی اور ان کے تین بیٹے ایک قریبی عمارت میں رہتے تھے جو سیلاب سے منہدم ہو گئی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہماری ان سے آخری بات رات نو بجے ہوئی تھی اور انھوں نے ہمیں یہ جاننے کے لیے کال کی تھی کہ ہم سب خیریت سے ہیں۔ ہمیں اس کے بعد سے ان کا کچھ علم نہیں۔‘
بلآخر آمنہ اپنے تینوں دیگر بہن بھائیوں کے ساتھ سیلاب کا پانی کم ہونے کے بعد عمارت سے بحفاظت نکلنے میں کامیاب ہو گئیں۔ ان کی گلی مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ لگا جیسے زمین دو حصوں میں پھٹ گئی۔ جہاں کبھی گلی تھی اب وہاں صرف گڑھا بچا ہے۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی ایک ہمسائی پھسل کر سیلابی ریلے میں گری اور پانی میں غرق ہو گئی۔ ان کا شوہر اور بیٹا بھی انھیں بچا نہیں سکا۔ انھیں پتا چلا کہ ان کی بہترین دوست عائشہ بھی اس سیلاب سے زندہ بچ نہیں سکیں۔
آمنہ اور ان کے بہن بھائی کئی گھنٹوں تک اونچی جگہ پر چلتے رہے، راستے میں وہ لاشوں کے پاس سے گزرے۔ تباہی سے مرنے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔
اکاؤنٹنٹ حسام کہتے ہیں کہ پہلے ہی مرنے والوں میں ان کے کم از کم 30 دوست اور 200 سے زیادہ جاننے والے شامل ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایک معجزہ ہے کہ میں بچ گیا۔‘
درنہ میں تباہی بہت ہولناک ہے، پورے کا پورا شہر تباہ ہو گیا۔
مغربی شہر طرابلس میں لیبیا کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت سے تعلق رکھنے والے محمد المنفی نے کہا کہ انھوں نے ملک کے اٹارنی جنرل سے تحقیقات ڈیموں کے ٹوٹنے کی تحقیقات کرنے کا کہا ہے اور جو بھی ذمہ دار ہے اسے جوابدہ ہونا چاہیے۔
ورلڈ میٹرولوجیکل ادارے کا کہنا ہے کہ اگر لیبیا میں فعال محکمہ موسمیات کا نظام ہوتا تو انسانی جانوں کا نقصان بچایا جا سکتا تھا۔
ادارے کے سربراہ پیٹٹری تلاشے کا کہنا ہے کہ ’وہ موسم کے بارے میں الرٹ اور وارننگ جاری کر سکتے تھے۔ ہنگامی نفاذ کے ادارے لوگوں کو نشینی علاقوں سے نقل مکانی کروا سکتے تھے اور ہم انسانوں جانوں کا ضیاع بچا سکتے تھے۔‘
اس ہولناک سیلاب میں زندہ بچ جانے والے اپنے پیاروں کے بچ جانے کی خبر کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں جبکہ کچھ اپنے پیاروں کی موت اور درنہ کی تباہی کا غم منا رہے ہیں۔
آمنہ کہتی ہیں کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ میں اب وہاں کبھی واپس جا سکوں گی، وہ گلیاں میری تمام زندگی تھیں۔ ہم شہر کے ہر کونے سے واقف تھے لیکن اب سب کچھ ختم ہو چکا۔‘
Comments are closed.