لیبیا میں سیلاب سے 1500 افراد ہلاک، 10 ہزار لاپتہ: ’پانی شہر کے کچھ حصے سمندر میں بہا کر لے گیا‘

flood

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, لوسی فلیمنگ
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

لیبیا کے مشرقی شہر درنہ کی بندرگاہ کا دورہ کرنے والے ایک سینیئر اہلکار نے بتایا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث صرف اس ایک شہر (درنہ) میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 1500 سے تجاوز کر گئی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے لیبیا کی موجود حکومت کے وزیر نے بتایا ہے کہ ’لاشیں ہر جگہ پڑی ہوئی ہیں۔‘

دیرنہ کی آبادی ایک لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور یہ شہر دو ڈیم اور چار پل ٹوٹنے کے باعث زیرِ آب آیا ہے۔

ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ سیلاب کے باعث 10 ہزار افراد تاحال لاپتہ ہیں۔ یہ سیلابی صورتحال جس طوفان کے باعث پیدا ہوئی ہے اس کا نام ’طوفان ڈینیئل‘ رکھا گیا ہے۔

لیبیا کے وزیرِ ہوابازی اور مشرقی حکومت کی ایمرجنسی رسپانس کمیٹی کے رکن ہشیم شکیوٹ نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ ’دیرنہ سے ملنے والی لاشوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔‘

’میں مبالغہ آرائی کا سہارا نہیں لے رہا جب میں یہ کہتا ہوں کہ 25 فیصد شہر غائب ہو گیا ہے۔ متعدد عمارتیں بھی گر چکی ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں یہ مناظر دیکھ کر بہت حیرت زدہ تھا۔ یہ ایک سونامی جیسا تھا۔‘

انھوں نے بی بی سی کے پروگرام ’نیوز آور‘ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’درنہ کے جنوب میں ایک ڈیم کے ٹوٹنے کے باعث پانی شہر کے کچھ حصے سمندر میں بہا کر لے گیا۔ رہائشی علاقے کا ایک بہت بڑا حصہ تباہ ہو چکا ہے، بہت بڑے پیمانے پر متاثرین ہیں جن کی تعداد ہر گزرتے منٹ کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔‘

floods

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس وقت 1500 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور دو ہزار سے زیادہ لاپتہ ہیں۔ ہمارے پاس درست اعداد و شمار تو نہیں ہیں لیکن یہ ایک سانحہ ہے۔‘

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ٹوٹنے والے ڈیم کی ایک عرصے سے مناسب دیکھ بھال نہیں کی گئی تھی۔

انھوں نے اس سے پہلے روئٹرز کو بتایا تھا کہ شہر کا ایک چوتھائی حصہ صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے۔

یہ طوفان اتوار کے روز لیبیا کے مشرقی حصے سے ٹکرایا اور اس سے متاثرہ شہروں میں بنغازی، سوسہ اور المرج بھی شامل ہیں۔

مقامی سطح پر غیر تصدیق شدہ اعداد و شمار کے مطابق شہر میں ہلاکتیں سینکڑوں میں ہیں۔ اب تک بڑے پیمانے پر آنے والے سیلاب اور مٹی کے تودے گرنے کے باعث متعدد گھر اور سڑکیں تباہ ہوئی ہیں۔

درنہ بندرگاہ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ ہوئی ہے اور اس کا زیادہ تر حصہ دو ڈیم اور چار پل ٹوٹنے کے باعث زیرِ آب ہے۔

انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اینڈ ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز (آئی اایف آر سی) کے لیبیا کے سربراہ تعمیر رمضان نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد ’بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔‘

تیونس سے ویڈیو لنک کے ذریعے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’موقع پر موجود ہماری ٹیمیں اس وقت بھی صورتحال کا جائزہ لے رہی ہیں۔۔۔ ہمارے پاس ہلاکتوں کے حوالے سے کوئی حتمی نمبر تو نہیں ہے۔ تاہم لاپتہ افراد کی تعداد 10 ہزار سے زیادہ ہے۔‘

اس سے قبل مشرقی لیبیا کے وزیرِ اعظم اسامہ حمد نے لیبیا کے ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ہلاکتوں کی تعداد دو ہزار ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’درنہ میں پورے پورے ٹاؤن رہائشیوں سمیت غائب ہو گئے ہیں۔۔۔ انھیں پانی بہا کر لے گیا ہے۔‘

مشرق میں موجود علاقوں کے ساتھ مغربی شہر مسراٹا بھی سیلاب سے متاثر ہوا ہے۔

لیبیا سنہ 2011 میں کرنل معمر قذافی کی حکومت کا تختہ الٹنے اور ان کی ہلاکت کے بعد سے سیاسی افراتفری کا شکار ہے۔ اس کے بعد سے ملک کے درالحکومت طرابلس میں ایک حکومت ہے جسے بین الاقوامی حمایت حاصل ہے جبکہ ملک کے مشرق میں ایک اور حکومت قائم ہے۔

لیبیا میں موجود ایک صحافی عبدالقادر اسد کے مطابق اس سے ریسکیو کے کام میں رکاوٹیں آ رہی ہیں کیونکہ متعدد حکام ایک قدرتی سانحے کے ساتھ اس پھرتی کے ساتھ نبرد آزما ہونے میں ناکام رہے ہیں۔

floods

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لیبیا میں کوئی ریکسیو ٹیمیں یا تجربہ کار ریسکیو اہلکار نہیں ہیں۔ گذشتہ 12 برس میں سب کچھ جنگ کے گرد گھومتا رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’لیبیا میں دو حکومتیں ہیں۔۔۔ اور اس کے باعث لیبیا کو ملنے والی امداد کا مرحلہ بھی سست روی کا شکار ہے کیونکہ اس سے ابہام پیدا ہو رہا ہے۔ لوگ مدد کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن مدد نہیں آ رہی ہے۔‘

طرابلس میں موجود انتظامیہ نے ایک طیارے کے ذریعے 14 ٹن طبی سامان، لاشیں رکھنے کے لیے بیگ اور 80 سے زیادہ ڈاکٹر اور طبی عملہ شامل ہیں۔‘

بنغازی میں موجود لیبیا کی مشرقی حکومت کے حکام اس وقت سیلاب اور طوفان کے باعث ہونے والی تباہ کاریوں کے نقصان کا اندازہ لگا رہے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ