لیبیا میں سیلاب: ایک شہر جسے موت کی بو نے اپنی لپیٹ میں لے لیا

درنہ

  • مصنف, اینا فوسٹر
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، درنہ

لیبیا کے شہر درنہ تک پہنچنے میں پہلے کے مقابلے دگنا وقت لگتا ہے۔

بن غازی سے سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے آپ کو سرخ جھیلیں نظر آتی ہیں جو کبھی کھیت ہوا کرتے تھے۔ جب آپ شہری کے قریب آتے ہیں تو ٹریفک سست ہو جاتی ہے۔

سڑکوں پر سیلاب سے اُکھڑے کھمبے زمین پر بکھرے پڑے ہیں۔ گاڑیاں ہائی وے پر گڑھوں سے بچتے ہوئے ان عارضی راستوں پر جا رہی تھیں جن کو جلدی میں بنایا گیا ہے۔

درنہ کا قریب ترین پل پانی میں بہہ گیا ہے۔ مقامی افراد اس جگہ کے کونے پر کھڑے ہو کر جھانک رہے ہیں اور تصاویر کھینچ رہے ہیں۔

اس سے کچھ دوری پر فوجی اہلکار گاڑیوں میں بیٹھے ڈرائیوروں اور مسافروں کو ماسک دے رہے تھے۔ دوسری سمت میں چلنے والی گاڑیوں میں لوگوں نے انھیں پہلے سے پہن رکھا تھا۔ اس کی وجہ جلد ہی واضح ہو گئی۔

شہر کے کچھ حصوں میں موت کی بو آتی ہے اور اسے بیان کرنا ناممکن ہے۔ کچھ گٹر کی بو اور کچھ ایسی بو جس کی شناخت کرنا مشکل ہے۔

کبھی کبھار تو یہ اتنی شدید ہو جاتی ہے کہ طبیعت خراب ہو جاتی ہے، خاص طور پر جب آپ بندرگاہ کے قریب اس کا معائنہ کر رہے ہوتے ہیں جہاں امدادی ٹیمیں مجھے بتاتی ہیں کہ ابھی بھی لاشیں وہاں بہتی ہوئی پہنچ رہی ہیں۔

درنہ پُل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس صبح انھیں تین لاشیں ملیں جو لہروں کے ساتھ وہاں پہنچیں اور ملبے کے ڈھیر میں پھنس گئیں۔ ٹوٹی ہوئی لکڑیاں، ٹائر، فرج اور گاڑیوں کے پرزے سب کچھ ٹھہرے پانی میں تیرتا ہے۔

درنہ سے آنے والی تصاویر اور ویڈیوز بہت حیران کر دینے والی ہیں۔

لیکن یہ دیکھ کر آپ خود کو تیار کر لیتے ہیں اور آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے اس قدر نقصان ہوا۔

پانی کی تباہ کن طاقت غیر معمولی رہی۔ گاڑیاں کھلونوں کی طری الٹی پڑی بکھری ہوئی ہیں۔ ایک گاڑی مسجد کے گرد ٹیرس کے اندر ہے جبکہ ایک گاڑی عمارت کے اندر دھنس گئی ہے۔

درنہ

،تصویر کا کیپشن

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اب تک ایک ہزار سے زائد افراد کو اجتماعی قبروں میں دفن کیا جا چکا ہے

کنکریٹ کی دیواریں گر گئی ہیں۔ مضبوط درخت زمین سے اکھڑ گئے، ان کی جڑیں ہوا میں ہیں۔ باقی سب ختم ہو گیا ہے۔ کئی جانیں، لوگوں کے گھر، مال بہہ گیا۔

درنہ شہر کے اس حصے میں انسان کا صفایہ ہو گیا ہے، جو لوگ بچ گئے ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو گئی ہے۔

فضا میں غم اور واضح غصہ ہے۔

درنہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ہزاروں افراد لاپتہ ہیں۔ درنہ کے میئر نے خبردار کیا ہے کہ کل تعداد 20,000 تک پہنچ سکتی ہے

فارس غسر نے اپنے خاندان کے پانچ افراد کو بپھرے ہوئے پانی میں کھو دیا۔

انھوں نے روتے ہوئے کہا ’ہمیں بتایا گیا تھا کہ گھر میں رہیں، کیوں؟ انھیں ہمیں بتانا چاہیے تھا کہ طوفان آیا ہوا ہے۔ ہمیں بتایا کہ ڈیم پرانا ہے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا ’ان تباہ شدہ عمارتوں میں سے کچھ سو سال پرانی تھیں۔ یہ سب سیاست ہے۔ مغرب میں حکومت ہے، مشرق میں حکومت ہے۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔‘

مرنے والوں میں سے ایک فارس کی دس ماہ کی بیٹی بھی تھی۔ وہ مجھے ان کی تصویریں دکھانے کے لیے اپنا فون نکالتے ہیں۔

پہلے وہ ان کی زندہ تصویر دکھاتے ہیں، پر کمبل میں لپٹی لاشں دکھاتے ہیں۔ ان کے چہرہ ان کی اس آزمائش کو ظاہر کرتا ہے۔

درنہ

،تصویر کا کیپشن

فارس غسر نے اپنے خاندان کے پانچ افراد کو بپھرے ہوئے پانی میں کھو دیا۔

BBCUrdu.com بشکریہ