پاکستان کی پہلی خاتونِ اوّل بیگم رعنا لیاقت علی خان کو کون نہیں جانتا، تحریکِ پاکستان سے لے کر قیامِ پاکستان تک اور قیامِ پاکستان سے استحکامِ پاکستان تک، سیاسی و سماجی منظر نامے پر ایک طاقتور خاتون کی حیثیت سے ان کی موجودگی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ لیاقت علی خان سے شادی سے قبل بیگم رعنا لیاقت کا مذہب کیا تھا؟
لیاقت علی خان شہید کی اہلیہ کی پیدائش ہندوستان کے علاقے اترآکھنڈ میں الموڑہ کے مقام پر ایک عیسائی خاندان میں ہوئی اور ان کے والد ڈینیل پنت نے ان کا نام شیلا آئرین پنت رکھا تھا، وہ بچپن سے ہی خاصی ذہین تھیں۔
شیلا اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد دہلی کےایک کالج میں معاشیات کی پروفیسر تھیں کہ1931ء میں لیاقت علی خان سے ان کی ملاقات ہو گئی جہاں وہ لیکچر دینے آئے تھے۔
اس کے اگلے ہی سال انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور پھر لیاقت علی خان سے ان کی شادی ہو گئی۔
لیاقت علی خان سے شادی کے بعد نہ صرف وہ شیلا آئرین سے بیگم رعنا لیاقت علی خان بن چکی تھیں بلکہ انہوں نے اپنے آپ کو ہندوستانی خواتین میں سیاسی شعور اجاگر کرنے کے لیے وقف بھی کر دیا تھا۔
بیگم رعنا لیاقت علی خان نے لیاقت علی خان کے شانہ بشانہ تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا۔
یہ کریڈٹ بھی انہی کو جاتا کہ جب قائدِ اعظم محمد علی جناح لندن میں تھے تو انہیں واپس ہندوستان آکر تحریکِ پاکستان کی قیادت سنبھالنے پر آمادہ بیگم رعنا لیاقت علی خان ہی نے کیا تھا۔
قیامِ پاکستان کے بعد جب لیاقت علی خان مملکتِ خداداد کے پہلے وزیرِ اعظم بنے تو بیگم رعنا لیاقت علی خان کا نام پاکستان کی پہلی خاتونِ اوّل کے طور پر لکھا جا چکا تھا۔
انہوں نے خواتین کے حقوق لیے ’اپوا‘ نامی ادارے کی بنیاد رکھی۔
پاکستان آرمی نے انہیں پہلی خاتون بریگیڈیئر جنرل کا اعزاز دیا۔
بیگم رعنا لیاقت علی خان نے پاکستان کی پہلی خاتون سفیر کے طور نیدرلینڈ، اٹلی اور تیونس میں خدمات سرانجام دیں۔
انہوں نے عملی سیاست بھی کی، وہ ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں وزیر رہیں، بعدازاں بھٹو نے انہیں سندھ کی پہلی خاتون گورنر کے طور پر تعنیات کیا۔
کہتے ہیں کہ جب جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو پھانسی دی تو بیگم رعنا لیاقت علی خان 3 دن تک مسلسل روتی رہی تھیں۔
انہوں نے ضیاء مخالف تحریک میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، انہیں ’مادرِ پاکستان‘ کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔
Comments are closed.