سپریم کورٹ آف پاکستان میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ لگتا ہے جیسے پاکستان میں کرپشن کے خلاف کوئی قانون ہے ہی نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے سماعت کی۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے ریمارکس میں کہا ہے کہ بدعنوانی جمہوریت، معاشرے اور قانون کی حکمرانی کے لیے نقصان دہ ہے۔
تحریکِ انصاف کے وکیل نے سماعت کے دوران اقوامِ متحدہ کی قرارداد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے یو این کی قرارداد پر کرپشن کے سدِباب کے لیے دستخط کر رکھے ہیں، نیب قانون میں حالیہ ترامیم کر کے اقوامِ متحدہ کی قرارداد کو متاثر کیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا بین الاقوامی قرارداد کو بنیاد بنا کر پارلیمنٹ کو قانون سازی سے روکا جا سکتا ہے؟ کیا بین الاقوامی کنونشنز کسی بھی ملک کو قانون سازی پر پابند کرتے ہیں؟
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ نیب قانون میں رعایت کیوں دی گئی؟ اس کی وضاحت نہیں دی گئی، بین الاقوامی معیار کی قانون سازی بدل کر پرانے قوانین پر جانا پوری قوم کا مذاق ہے، کل اگر رشوت لینے کی اجازت دے دی جائے تو کیا اسے کوئی نہیں روک سکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون سازی نہ کرے تو اس سے بھی بنیادی حقوق متاثر ہو سکتے ہیں، آپ کے دلائل سے لگتا ہے کہ پاکستان میں کرپشن کی روک تھام کے لیے کوئی قانون ہی نہیں ہے، دلائل سے ایسے لگتا ہے جیسے پاکستان جنگل بن چکا ہے، لگتا ہے کہ جیسے پاکستان میں کرپشن کے خلاف کوئی قانون ہے ہی نہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
Comments are closed.