لڑاکا ڈرون: نئے ہتھیاروں کا وہ نظام جو مستقبل کی جنگوں کو ہمیشہ کے لیے بدل سکتا ہے
امریکہ میں ایم کیو نائن ریپر ڈرون فوجی مشق میں زیر استعمال
کسی زمانے میں لڑاکا ڈرون صرف سپر پاورز کا ہتھیار ہوا کرتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے۔ بی بی سی کے دفاعی نامہ نگار جوناتھن مارکس کے مطابق شدت پسندوں سے لے کر چھوٹے ملکوں تک اب سبھی اس کا استعمال کر رہے ہیں اور یہی چیز جنگ کی نوعیت کو بدل رہی ہے۔
جنگوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو اکثر ایسا ہوا ہے کہ ہتھیاروں کا کوئی ایک نظام پورے جنگی عہد کی علامت بن گیا۔ اگینکورٹ کی لڑائی میں انگریز تیر اندازوں کی جانب سے پہلی بار لمبی کمانوں کا استعمال اور دوسری جنگ عظیم میں بھاری بکتر بند ٹینکوں سے زمینی لڑائی، ایسی ہی چند مثالیں ہیں۔
امریکہ کی جانب سے افغانستان، عراق اور دیگر مقامات پر شدت پسندی کے خلاف جنگ میں، بغیر پائلٹ کے چلنے والا ڈرون ’ایم کیو ون پریڈیٹر‘ جسے ’یو اے وی‘ بھی کہا جاتا ہے، اپنے دور کا مشہور ہتھیار بن گیا۔
اسی باعث سرد جنگ کے بعد امریکہ ایک ایسی عالمی طاقت بن کر سامنے آیا جسے کوئی چیلنج نہیں کر سکتا تھا۔
ڈرون کی قدر میں اس وقت اضافہ ہوا جب پریڈیٹر، جس کے بارے میں ابتدا میں ایسا تصور کیا گیا تھا کہ اسے صرف فضا سے زمین کی جاسوسی کے لیے استعمال کیا جائے گا، کو ہیل فائر میزائلوں سے لیس کیا گیا۔
ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ڈرون حملے میں ہی ہلاک کیا گیا تھا
پریڈیٹر کے بعد ’ریپر‘ نامی ڈرون بنایا گیا جس کا مقصد ہی شکار کرنا تھا۔ پریڈیٹر کے مقابلے میں یہ زیادہ دور تک پرواز کرنے کے علاوہ زیادہ مقدار میں گولہ بارود لے جا سکتا ہے۔ ان ڈرونز کے نام ہی ان کے مقاصد کو واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں۔
واشنگٹن کے دشمن جہاں سوچ بھی نہ سکتے ہوں، یہ کسی بھی وقت اور کہیں بھی انھیں بالکل درست مقام پر قتل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ریپر ڈرونز ہی تھے جنھیں جنوری 2020 میں بغداد ایئرپورٹ کے باہر ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو مارنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
ڈرون اب بڑی طاقتوں تک محدود نہیں
ایک مختصر عرصے تک صرف امریکہ اور اسرائیل ہی ایسے حملے کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ آپ اسے لڑاکا ڈرونز کا پہلا دور کہہ سکتے ہیں۔
تاہم، اب بہت سی چیزیں ڈرامائی انداز میں بدل گئی ہیں۔
ڈرونز سے لڑی جانے والی جنگ ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے جس میں کئی اور کھلاڑی بھی شامل ہو گئے ہیں۔ اور بغیر پائلٹ کے چلنے والے ان ڈرونز کا کردار انسدادِ دہشتگردی سے روایتی جنگ تک بڑھ چکا ہے۔ اور جیسے جیسے ٹیکنالوجی بہتر ہو رہی ہے اور مصنوعی ذہانت سے منسلک ہو رہی ہے، ڈرونز کی جنگوں کا تیسرا دور سامنے آ رہا ہے۔
’دی ہنٹر کلر‘: ایم کیو نائن ریپر ڈرون
ڈرونز نے ایتھوپیا کی حکومت کو تیگرے پیپلز لبریشن فرنٹ کے باغیوں کے حملوں کا مقابلہ کرنے میں بھی مدد دی ہے جس کی وجہ سے ان کی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے۔ ایتھوپیا کی حکومت نے ترکی اور ایران سے مسلح ڈرون خریدے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ایتھوپیا نے متحدہ عرب امارات کے ذریعے چینی ساختہ ’ونگ لونگ‘ ڈرون تک بھی رسائی حاصل کی ہے۔
متحدہ عرب امارات نے چینی ڈرون لیبیا میں جاری خانہ جنگی کے دوران اپنے حمایتی جنرل خلیفہ ہفتار کو بھی فراہم کیے ہیں۔
بہت سے تنازعات میں ڈرونز کا کردار فیصلہ کن رہا ہے۔ جیسا کہ لیبیا کی بین الاقوامی طور پر مانی جانے والی حکومت کی بقا کے علاوہ گذشتہ سال ناگورنو قرہباخ تنازع کے دوران ترکی کے مہیا کردہ ڈرونز نے آذربائیجان کی فوج کو آرمینیا سے علاقے کا کنٹرول حاصل کرنے میں مدد دی۔
ڈرونز کا وسیع تر استعمال
لیکن ڈرون حملے کئی پیچیدہ قانونی اور اخلاقی مسائل کو بھی جنم دیتے ہیں۔ ایسے حملوں کتنے کامیاب ہوتے ہیں اس کا انحصار انٹیلیجنس اطلاعات پر ہوتا ہے۔ یہ امید کہ ڈرونز کا استعمال کسی قسم کے اسلحہ کنٹرول معاہدے کے تابع بنایا جا سکے گا، پوری نہیں ہو سکی۔
اگرچہ امریکہ اپنی جدید ترین ڈرون ٹیکنالوجی قریبی اتحادیوں کے علاوہ کسی کو دینے سے کتراتا ہے، دوسرے ممالک ایسا نہیں کرتے۔ اسی لیے ڈرونز یا یو اے ویز کا پھیلاؤ تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں تقریباً سو سے زیادہ ممالک اور غیر ریاستی گروہ ڈرونز کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے کئی مسلح ڈرون تک رسائی بھی رکھتے ہیں۔
پال شارے سینٹر فار نیو امریکن سکیورٹی کے ڈائریکٹر سٹڈیز ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈرون سسٹمز کا پھیلاؤ جاری رہے گا۔
ایتھوپیا میں ڈرون حملے سے ٹینک تباہ
ان کا کہنا ہے کہ چین اس وقت دنیا میں ڈرونز برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ ’لیکن اب ڈرونز صرف بڑی فوجی طاقتوں تک محدود نہیں رہے۔ ایران اور ترکی جیسی طاقتیں جو ڈرون ٹیکنالوجی کی حامل ہیں ان سسٹمز کو بیرون ملک فروخت کر رہی ہیں۔‘
پال کے مطابق کمرشل ڈرون ٹیکنالوجی اب اتنی عام ہو چکی ہے کہ کوئی بھی چند سو ڈالز کی مدد سے حملہ کرنے والا ڈرون بنا سکتا ہے اور چند شدت پسند گروپ ایسا کر بھی چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
ڈرون ایک سستی فضائی طاقت
وہ کہتے ہیں کہ ڈرون کا جنگ پر اثر بھی کوئی حیران کن بات نہیں کیوںکہ وہ کسی بھی ملک کو ایک سستی فضائی طاقت فراہم کرتے ہیں۔ ’ایسے ممالک یا گروہ جو مہنگے لڑاکا طیارے خریدنے کی سکت نہیں رکھتے، ڈرون خرید سکتے ہیں۔ اور اگرچہ ڈرون میں وہ صلاحیت نہیں جو ایک لڑاکا طیارے میں ہوتی ہے لیکن پھر بھی کسی حد تک فضائی حملے کی صلاحیت ضرور حاصل ہو جاتی ہے۔‘
’جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، جو ہائی ڈیفینیشن جاسوسی اور ہدف کو درست طریقے سے نشانہ بنانے کی صلاحیت دیتی ہے، کی مدد سے ڈرون زمینی افواج کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔‘
لیکن علاقائی تنازعات اور خانہ جنگی میں ڈرون کے استعمال سے مستقبل کی جنگوں میں ڈرون کی اہمیت کی نشاندہی ہوتی ہے۔
ایک جانب جب امریکہ اور اس کے اتحادی شدت پسندی کے خلاف جنگ پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے تو دوسری جانب روس نے شام میں ڈرونز کے وسیع تر جنگی استعمال کے تجربے کیے۔
روس ڈرون کے استعمال میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ چکا ہے؟
سینٹر فار نیول انیلسس میں روس سے متعلق شعبے سے منسلک سیموئل بنڈیٹ کہتے ہیں کہ شام میں روس کے ڈرونز نے اہم جاسوسی مشنز میں حصہ لیا اور مسلسل پروازوں سے روسی توپ خانے سمیت ملٹی راکٹ سسٹم اور لڑاکا طیاروں کے لیے زمین پر اہداف کی نشاندہی کی۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ نیا تصور جس میں ڈرون چوبیس گھنٹے جنگ کے میدان کی تصویر فراہم کرتے رہتے ہیں اور اہداف کی نشان دہی کرتے ہیں، روس کی فوج کے جنگی مستقبل کو ایک نیا جنم دے رہے ہیں کیوںکہ اس سے پہلے جنگ لڑنے والے جرنیلوں کے پاس ایسی کوئی سہولت موجود نہیں تھی۔
جنگوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو اکثر ایسا ہوا ہے کہ ہتھیاروں کا کوئی ایک نظام پورے جنگی عہد کی علامت بن گیا، جیسے اگینکورٹ کی لڑائی میں انگریز تیر اندازوں کی جانب سے لمبی کمانوں کا استعمال
یوکرین میں ہونے والی لڑائی، جس میں روس کی تردید کے باوجود باقاعدہ روسی فوجی اہلکار شامل رہے، ماسکو کی جانب سے مستقبل میں ڈرونز کے استعمال کی منصوبہ بندی پر روشنی ڈالتی ہے۔
مشرقی یوکرین میں متعدد روسی ساختہ ڈرونز مار گرائے گئے۔ سیموئل کہتے ہیں کہ اس تنازع میں جاسوسی کرنا ان ڈرونز کا اہم مقصد تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم کردار الیکٹرانک وار فیئر بھی تھا جس کے لیے خصوص روسی ڈرون بنائے گئے ہیں۔
الیکٹرانک وار فیئر کے ذریعے دشمن کی جانب سے بھیجے جانے والے سگنلز کا سراغ لگا کر ان کے رابطہ کی صلاحیت کو جام کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ کسی قسم کی پیغام رسانی کی صلاحیت سے محروم ہو کر تنہا ہو جائیں۔
روس شاید اس وقت بھی جدید ٹیکنالوجی میں امریکہ سے تقریباً ایک دہائی پیچھے ہے لیکن روسی افواج ڈرون کے استعمال کو امریکہ سے بہتر طریقے سے اپنی تنظیم کے اندر جذب کر چکی ہیں۔ سیموئل کے مطابق عسکری ڈرون اس وقت روس کی مسلح افواج میں ہر شعبے میں موجود ہیں۔
’اب یہ بات لڑائی کے دوران ثابت ہو چکی ہے جب یوکرین کی بکتر بند یونٹس کو لمحوں میں شناخت کر لیا گیا اور ان کی پیغام رسانی کو جیم کر دینے کے بعد ان کی جانب توپ خانے سے تباہ کن گولہ باری کی گئی۔‘
یوکرین خود بھی ترک ساختہ مسلح ڈرونز رکھتا ہے جن کو روس حمایتی باغیوں کے خلاف دنباس میں لڑائی کے دوران استعمال کیا گیا۔
ڈرون سے دفاع مشکل کیوں ہے؟
جنگ کے میدان سے پرے شدت پسند اور مسلح گروہ بھی ڈرونز استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب ڈرون کا خطرہ سمجھ میں آ چکا ہے تو اس کا توڑ کرنا اتنا مشکل کیوں ہے؟
پال شارے کہتے ہیں کہ آج کل استعمال ہونے والے ڈرون کسی روایتی لڑاکا طیارے سے بہت چھوٹے ہوتے ہیں اس لیے ان کی نشاندہی کے لیے مختلف قسم کے فضائی دفاعی سسٹم درکار ہوتے ہیں۔
’ان کی رفتار انتہائی کم ہوتی ہے اور یہ زمین کے قریب اُڑتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ زیادہ تر فضائی دفاعی سسٹمز انھیں مار گرانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔‘
پال کے مطابق بہت سے ممالک ڈرون مخالف صلاحیت پیدا کرنے پر کام کر رہے ہیں اور اگلے چند سال کے دوران بہتر اور منظم سسٹمز نظر آئیں گے۔
ایک چیلنج یہ بھی ہے کہ بڑی تعداد میں ڈرون حملوں کو کیسے روکا جائے کیوںکہ سستے ڈرون بہت زیادہ تعداد میں بنائے جا سکتے ہیں۔ مستقبل میں ڈرونز کے جھرمٹ کی شکل میں حملہ آور ہونے پر بہت بات ہوتی ہے۔
ایسے حملے ہو بھی چکے ہیں۔ سنہ 2018 میں شامی باغیوں نے روس کے ایک فضائی اڈے پر تیرہ ڈرونز کی مدد سے حملہ کیا تھا۔ لیکن پال شارے کے مطابق ڈرونز کے جھرمٹ سے مراد یہ نہیں کہ ان کی تعداد کتنی ہو گی لیکن اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ ڈرونز بنا کسی انسانی مدد کے آپس میں کتنے بہتر انداز میں رابطے میں ہیں۔
ایسے حملے ایک ہی وقت میں مختلف سمتوں میں زمین پر دفاع کرنے والوں کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ پال شارے کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہو گیا تو وقت کے ساتھ ساتھ جنگ کا تصور ڈرامائی انداز میں تبدیل ہو جائے گا۔
Comments are closed.