لندن میں واقع سب سے پرانا عربی کتب خانہ ناقابل برداشت اخراجات کی وجہ سے 44 سال بعد بند ہونے والا ہے۔
’الساقی کتاب گھر‘ کو پہلے بھی نامساعد حالات کا سامنا رہ چکا ہے جب دوسری خلیجی جنگ کے دوران یہاں حملہ ہوا اور کتب خانے کی کھڑکیاں توڑی گئیں۔
یہ کتب خانہ چار دہائیوں سے زائد عرصے سے اہلیانِ لندن کے لیے مشرق وسطیٰ کے مصنفین کی تحریر کردہ کتابوں کا مرکز تھا۔
کتاب گھر کی مالک سلویٰ گاسپرڈ نے غیر ملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بیرون ملک سے منگوائی گئی کتابوں کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے جس سے کتب خانے پر بہت دباؤ ہے۔
انہوں نے کہا کہ برطانیہ کی معاشی صورتحال واحد مسئلہ نہیں، ہم عرب ممالک سے بھی کتابیں منگواتے ہیں اور اب یہ کام مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔
سنسرڈ کتابیں رکھنے کی وجہ سے الساقی کتاب گھر پر کئی بار حملہ کیا جاچکا ہے۔
کتاب گھر کو 2006 میں لبنان میں واقع اپنے اسٹور پر بمباری اور بحریہ کی طرف سے کارگو پابندی کے بعد بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔
پچھلے سال موسم گرما میں طوفانی بارشوں کی وجہ سے کتب خانے کے تہہ خانے میں پانی بھر گیا تھا۔
اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے شہریوں سے چندہ اکٹھا کیا گیا تو الساقی کتاب گھر سے محبت کرنے والوں نے دو دن میں 15 ہزار پاؤنڈ جمع کیے۔
سلویٰ گاسپرڈ کا کہنا ہے کہ ناشرین کو کتابوں کی قیمتیں بڑھانا پڑ رہی ہیں کیونکہ کاغذ اور شپنگ کے اخراجات میں دُگنا اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بریگزٹ بھی ہمارے کاروبار کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا، ہم یورپی یونین کو بہت کتابیں فروخت کیا کرتے تھے لیکن اب ڈیوٹی ٹیکس عائد ہونے کے بعد یہ کام آسان نہیں رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں قائم عرب لائبریریز بھی ہم سے پہلے کے مقابلے میں کم کتابیں خرید رہی ہیں، اس کی ایک وجہ نسلی فرق بھی ہے، آج کے نوجوان اپنے والدین کے مقابلے میں کتاب گھروں کا رخ نہیں کرتے۔
الساقی کتاب گھر 1978 میں سلویٰ، آندرے گاسپرڈ اور مائی غوصب نے کھولا تھا، تینوں افراد لبنان کی خانہ جنگی سے فرار ہو کر لندن میں آباد ہوئے۔
ہمیشہ کیلئے بند ہونے سے پہلے الساقی کتاب گھر نے اپنے کتابوں کے ذخیرے پر سیل بھی لگا دی ہے۔
Comments are closed.