لندن کی وہ ٹرین سروس جس میں صرف میّتیں اور ان کے ورثا سفر کرتے تھے

london

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, بیتھن بیل
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

نومبر 1854 میں برطانیہ کی ایک ٹرین نے اپنا پہلا سفر وسطی لندن کے واٹر لو ریلوے سٹیشن سے لے کر جنوب مشرقی انگلینڈ میں سرے کاؤنٹی تک کیا۔ مگر اس ٹرین میں دیہی علاقوں میں جا کر راحت حاصل کرنے والے پرجوش مسافروں کی بجائے سوگ کے لباس میں ملبوس افراد بیٹھے تھے۔

اس ٹرین کے ڈبوں میں سوٹ کیس یا ٹرنک نہیں تھے مگر اس میں تابوت رکھے گئے تھے اور وہ بھی لاشوں کے ساتھ تابوت۔ ٹرین ووکنگ قصبے کے قریب بروک ووڈ قبرستان کی طرف جا رہی تھی۔

اس قبرستان میں ہونے والی پہلی تدفین لندن کے نواحی علاقے ایور سٹریٹ کی مسز ہال کی مردہ پیدا ہونے والی جڑواں بیٹیاں تھیں جنھیں ایک بے نشان قبر میں اتارا گیا تھا۔ یہ ان خاندانوں کے لیے تھا جو اس وقت تدفین کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے تھے۔

سوگواروں نے اپنے میّتوں کو دفنانے کے لیے 74 کلومیٹر کا یہ سفر اس لیے کیا تھا کیونکہ لندن شہر کی آبادی تیزی سے بڑھ جانے کی وجہ سے وہاں قبرستان کے لیے کوئی جگہ نہیں بچی تھی۔

اگرچہ دارالحکومت میں قائم گرجا گھروں کے میدانوں میں سینکڑوں قبرستان تھے، لیکن ان میں مزید مردوں کو دفنانے کے لیے جگہ کم پڑ رہی تھی۔

london

،تصویر کا ذریعہGetty Images

قبر پر قبر

اس صورتحال کو 1852 میں ایک امریکی مصنف اور ماہر تعلیم ڈیوڈ ڈبلیو بارٹلیٹ نے اپنی ایک اشاعت ’وٹ آئی سا ان لندن‘ (میں نے لندن میں کیا دیکھا) میں بیان کیا ہے۔

انھوں نے لکھا کہ ’لندن میں چہل قدمی کے دوران میں نے کئی بار مختلف گرجا گھروں سے منسلک قبرستانوں کو دیکھا ہے۔ وہ تقریباًسبھی فٹ پاتھ کی سطح سے کافی اوپر اور بعض صورتوں میں اس سے پانچ یا چھ فٹ اوپر ہیں۔‘

’اس کی وجہ کافی واضح تھی، یہ انسانی مٹی کا برسوں کا ذخیرہ تھا اور وہ بھی دنیا کے سب سے بڑے شہر کے بیچوں بیچ۔‘

لاشوں کی تعداد تدفین کی گنجائش سے کہیں زیادہ تھی۔ سینٹ مارٹن چرچ جس کو 10 سالوں میں 14,000 لاشیں موصول ہوئیں جو کہ اس کے رقبے سے کہیں زیادہ تھیں۔

نیو کینٹ روڈ میں میتھوڈسٹ چرچ کے ایک والٹ میں 2,000 تابوت ایک دوسرے پر پڑے پائے گئے۔

سینٹ کلیمنٹس میں قبر کھودنے والے ولیم چیمبرلین نے 1842 میں ہاؤس آف کامنز کی سلیکٹ کمیٹی کو اس بارے میں ثبوت دیا۔

انھوں نے کہا کہ زمین لاشوں سے اتنی بھری ہوئی ہے کہ وہ ’دوسری قبروں کو چھیڑے بغیر‘ نئی قبر نہیں بنا سکتے۔ اس کے بعد انھیں اور ان کے ساتھیوں کو تابوتوں اور لاشوں کو کاٹنے کی ہدایت کی گئی تاکہ نئی قبروں کے لیے جگہ بنائی جا سکے۔

جس کے بعد یہ ضروری ہو گیا تھا کہ لندن کے نواح میں ایک بڑا قبرستان بنایا جائے۔ سنہ 1851 میں برطانوی پارلیمنٹ نے ’میٹروپولس میں مردے کی تدفین سے متعلق ایک ایکٹ پاس کیا جس میں مردوں کی تدفین سے متعلق قواعد میں ترمیم کی گئیں جسے ’برئیل ایکٹ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اگلے سال، لندن نیکروپولیس اینڈ نیشنل موسولیم کمپنی (ایل این سی) کا قیام اس عزم کے ساتھ کیا گیا تھا کہ لندن کا ایک اور واحد قبرستان ہمیشہ کے لیے بنایا جائے۔

کمپنی نے ووکنگ میں نئے قبرستان کو اتنا پرکشش بنانے کے لیے بھرپور کوششیں کیں کہ لندن والے اپنے پیاروں کو کہیں اور دفنانے پر غور بھی نہ کریں۔

london

،تصویر کا ذریعہGetty Images

فاصلے کا مسئلہ تھا

اس نئے بنائے گئے قبرستان کی تشہیر کرنے والے ایک بروشر میں کہا گیا کہ ’یہ اتنا دلکش ہے کہ یہاں تنہائی کو آرام کرنے کی جگہ مل سکتی ہے۔‘

مگر اس نئے قبرستان کی جانب لوگوں کو راغب کرنے میں ایک بڑا مسئلہ فاصلہ تھا۔ لندن اور بروک ووڈ کے درمیان یک طرفہ 37 کلومیٹر کے فاصلہ کا مطلب یہ تھا کہ روایتی گھوڑے والی جنازے کی گاڑی اپنی مناسب سست رفتار سے چلتی ہے تو اسے وہاں پہنچنے میں 12 گھنٹے تک لگ سکتے ہیں۔

اگرچہ بروک ووڈ لندن کے بھرے ہوئے قبرستانوں کے مقابلے میں زیادہ مناسب تھا لیکن وہاں جنازے کو بہتر انداز میں پہنچانے کے لیے ایک بہتر طریقہ تلاش کرنا تھا۔

خوش قسمتی سے نئی قائم شدہ جنوب مغربی ٹرین لائن قبرستان کے پاس سے گزر رہی تھی۔

ٹرین کا راستہ رچمنڈ پارک اور ہیمپٹن کورٹ پیلس سے گزرتا تھا اور یہ ایک ایسا منظر تھا جسے ریلوے کے بانیوں میں سے ایک نے ’آرام دہ‘ اور دولت مند طبقے کے لیے ایک بار پھر پرکشش قرار دیا تھا۔

london

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ہر طبقے کے لیے سروس

لیکن ہر کوئی اپنے پیاروں کو وہاں دفنانے پر آمادہ نہیں تھا۔ لندن اور ساؤتھ ویسٹ ریلوے لائن کے مینیجرز، جو واٹر لو سٹیشن سے گزرتی تھی اس بات سے متفق نہیں تھے کہ وہ اپنے مسافروں کو ٹرین کی ان بوگیوں کا استعمال کرنے دیں جو پہلے تابوتوں اور جنازوں کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔

لندن کے بشپ، چارلس بلوم فیلڈ نے بھی ریلوے لائن کو قبرستان کے لیے استعمال کرنے سے منع کیا اور ہاؤس آف کامنز کی سلیکٹ کمیٹی کو بتایا کہ جنازوں کو بذریعہ ٹرین قبرستان لے جانے کا فیصلہ ’جلد بازی ہے اور یہ مسیحی مذہب کے مطابق جنازے کے احترام‘ سے مطابقت نہیں رکھتا۔

بشپ کو اس بات پر بھی تشویش تھی کہ جن لوگوں نے ’مذہب کے مطابق مہذب اور اچھی زندگیاں گزاری ہیں ان کی باقیات ان لوگوں کے ساتھ سفر کریں گی جن کا طرز زندگی اخلاقی طور پر کمزور تھا۔‘

اس فیصلے پر سماجی نوعیت کے اعتراضات کے ساتھ ساتھ یہ بھی اعتراض تھا اس فیصلے سے مختلف فرقوں یا حتیٰ کہ مذاہب کے لوگوں کی بھی ایک ہی جگہ تدفین ہو گی۔

اس کا حل یہ تھا کہ نیکروپولیس جانے والی ٹرین کے لیے الگ سروس ہو، اس کی اپنی ٹرینوں اور نظام الاوقات کے ساتھ زندہ افراد اور میتیوں کے لیے چھ الگ الگ کیٹیگریز کے ٹکٹ ہوں۔

اس ٹرین میں تابوتوں کو اس طرح سے فاصلے پر رکھا گیا تھا اینگلیکن عبادت گزاروں کی لاشیں اینگلیکن سوگواروں کے ساتھ سفر کرتی اور دیگر مذہب کے لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا۔

اس ٹرین میں فرسٹ، سیکنڈ یا تھرڈ کلاس تھی۔ فرسٹ کلاس کا ٹکٹ لینے والے خاندانوں کو قبرستان میں کسی بھی جگہ کا انتخاب کرنے اور اضافی لاگت ادا کرنے پر اپنے پیاروں کی ایک مستقل یادگار کی تعمیر کی اجازت دی گئی تھی۔ اس ٹیکٹ کی قیمت تقریباً3.60 امریلی ڈالر تھی جو آج کے 332 امریکی ڈالرز کے برابر ہے۔

سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ لینے والوں کے لیے قبرستان میں تدفین کے لیے جگہ کا انتخاب محدود تھا، لیکن اس کی قیمت تقریباً ایک امریکی ڈالر تھی جو 110 امریکی ڈالرز کے برابر ہے۔ تیسرا ٹکٹ غریبوں کے لیے مختص تھا اور ان لوگوں کے لیے جنھیں مقامی افراد کے خرچ پر دفن کیا جاتا۔

لندن نکروپولس ریلوے کے دفاتر، مردہ خانے اور چیپل ویسٹ منسٹر جانے والی سڑک کے نیچے بنے ہوئے تھے۔ یہ ٹرینیں روزانہ چلتی تھیں اور قبرستان تک جاتی تھیں جہاں آگے گھوڑوں والی جنازہ گاڑی کھڑی ہوتی جو میتیوں کو نیچے تک لے جاتی۔

ایل این سی ایکٹ کے تحت کرایوں کو محدود کر دیا گیا تھا، اور وہ 85 برس کے دوران تبدیل نہیں ہوئے جبکہ یہ سروس 87 سال تک جاری رہی۔

ticket

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ٹرین کے کم قیمت ٹکٹ کا فائدہ دیگر بہت سے لوگوں نے بھی اٹھایا جیسا کہ مثال کے طور پر بہت سے گالفرز خود کو سوگواران کے بھیس میں لا کر سستا سفر کرتے تھے۔

یہ ٹرین سروس دوسری جنگ عظیم تک جاری رہی اور جب 16 اپریل 1941 کی رات، لندن پر آخری بڑے ہوائی حملوں میں سے ایک میں سٹیشن کو بموں سے نشانہ بنایا گیا جس کے باعث یہاں کی سڑکیں، ریلوے ٹریک اور عمارتیں تباہ ہو گئیں۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ ٹرین سروس کا دوبارہ آغاز نہیں کیا گیا اور کاروں کے ذریعے سفر کرنا مقبول ہو گیا۔

اس طرح لندن نکروپولس ریلوے اپنے اختتام کو پہنچی۔

آج بھی ویسٹ منسٹر کی جانب جانے سڑک پر سٹیشن کی عمارت موجود ہے جبکہ بروک ووڈ میں ریلوے کی پٹری اور پلیٹ فارم بھی ہے۔

برطانیہ کی قومی ریلوے کمپنی نے اس خاص سٹیشن کی یاد میں ایک سپیشل سیکشن بھی بنا رکھا ہے۔

ticket

،تصویر کا ذریعہGetty Images

BBCUrdu.com بشکریہ