لندن کی وہ سڑک جو دنیا کے کئی ممالک کی نمائندگی کرتی ہے

شمالی لندن

،تصویر کا ذریعہCredit: Fiona Dunlop)

،تصویر کا کیپشن

بلیک سٹاک روڈ کثیرالثقافتی لندن کی علامت ہے

  • مصنف, فیونا ڈنلپ
  • عہدہ, بی بی سی ٹریول

یہ سڑک نہ تو خوبصورت ہے اور نہ ہی اتنی ’پوش‘، لیکن اس بارونق اور بھیڑ بھاڑ والی شاپنگ سٹریٹ کو اگر غور سے دیکھیں اور سمجھیں تو یہاں آپ کو کثیرالثقافتی لندن کا مائیکرو کوزم ملے گا۔

نسلی اعتبار سے متنوع دکانوں اور ریستورانوں کی کثرت سے متاثرہو کر میں نے بلیک سٹاک روڈ کو دریافت کرنے کی سیر کا آغاز کیا۔ یہ راستہ ہائیبری کے متوسط طبقے کے پہاڑی علاقوں سے جنوب کی طرف جاتا ہے۔ لیکن یہ سیکشن بنیادی طور پر ورکنگ کلاس لندن کا ہے، جس میں قومیتوں کا ایک موزیک شامل ہے جو فنسبری پارک علاقے کے ٹرانسپورٹ ہب سے خریداری کرنے یا متعدد کاروباروں میں کام کرنے کے لیے نکلتے ہیں۔

اس کثیرالنسلیت کی ایک وجہ نزدیکی مسجد، جو مسلمانوں کے لیے مقناطیس کا کام کرتی ہے، یا کچھ دکانوں کے کم کرائے۔ اس کے علاوہ ایمیریٹس سٹیڈیم او آرسنل فٹ بال کلب کے ہوم سٹیڈیم کا نزدیک ہونا بھی اہم ہے۔ جو فٹ بال شائقین کے ہجوم کو لذیذ اور سستے کھانے کی تلاش میں یہاں لاتی ہے۔

لیکن اب یہ علاقہ بدل رہا ہے اور یہاں دیگر قومیتیں اور مذاہب کے لوگ منتقل ہو رہے ہیں، جن میں نوجوان، ہپ برطانوی بھی شامل ہیں ۔ لندن کے ایک تہائی سے زیادہ لوگ اب غیر ملکی ہیں، جو 270 قومیتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔

حکیم

،تصویر کا ذریعہCredit: Fiona Dunlop)

،تصویر کا کیپشن

الجزائر کےحکیم گروسری کی دکان چلاتے ہیں

شمالی لندن کے ایک کلومیٹر کے رقبے پر خاندانی کاروبار حاوی ہیں، جہاں صرف ایک چھوٹی سپر مارکیٹ کو جگہ مل پائی ہے۔ میرا پہلا پڑاؤ البحیا تھا ، ایک الجزائری قصاب اور گروسری کی دکان جسے تین بھائی چلاتے ہیں۔ انکے نام حکیم، کمال اور فتاح اموکرانے ہیں۔

پُراعتماد حکیم نے کہا’ ہم نے 2006 میں گوشت کی حلال دکان شروع کی تھی لیکن میں الجزائر کی خانہ جنگی کے بعد سے پچھلے 30 سالوں سے لندن میں ہوں۔‘

بول چال میں انکا لہجِہ خالص لندن جیسا ہے جس میں انکی اپنی زبان کے لہجے کا متزاج بھی شامل ہے۔ وہ اپنے گاہکوں کے ساتھ بات چیت کرنا پسند کرتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ انکے تمام گاہک مسلمان نہیں ہیں۔ انکا کہنا تھا ’ہم ہر طرح کے گاہک چاہتے ہیں، اتنے سالوں کے بعد اب ہم خود کو کمیونٹی کا حصہ محسوس کرتے ہیں۔ یہاں مجھے ایک ایسی ثقافت ملی جس کا طرز زندگی اور زبان الگ ہے۔‘

’الجزائر میں میری سکولنگ فرانسیسی زبان میں ہوئی، اس لیے میں عربی سے زیادہ فرانسیسی آسانی سے بولتا ہوں، لیکن میں ایک متبادل چاہتا تھا۔ میں نے یونیورسٹی میں انٹرنیشنل بزنس لا کی تعلیم حاصل کی، پھر یہ دکان کھول کر خاندانی روایت کو آگے بڑھایا۔‘

شمالی افریقی زیتون کے تیل اور کھجور، بکلاوا، ہسپانوی خشک انجیر، فرانسیسی پنیر اور مسالہ دار مرگیوز ساسیجز کے ریفریجریٹڈ کاؤنٹر کے ساتھ مراکشی کُھس کھُس کے تھیلوں کے درمیان مقابلہ تھا، لیکن سب سے مشہور تیکھی، مسالہ دار روسٹ مرغی تھی۔

شمالی لندن

،تصویر کا ذریعہCredit: Fiona Dunlop)

،تصویر کا کیپشن

شمالی لندن میں یہ کوئی بہت خوبصورت سڑک نہیں ہے

سڑک کے اس پار میں نے ایتھوپیا کیفے اور ڈیلی سینٹ گیبریل دیکھا۔ باپ اور بیٹے کی یہ دکان سڑک پر سب سے پرانی ہے، جو 1976 میں شروع ہوئی تھی۔ جب یہ ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ تھا۔ اس کے مالک، محمد اسلم، ایک خوش مزاج شخص، ان کا بیٹا، خیام، لندن کا رہنے والا ہے۔ یوگنڈا میں پیدا ہونے والے اسلم بچپن میں پاکستان واپس چلے گئے تھے بعد میں لاہور میں بینکنگ کے شعبے میں چلے گئے۔

توانائی سے بھرپور، بات چیت کے دوران بھی کام کرتے رہے۔ انہوں نے کہا، ’جب میں نے کام شروع کیا تو گاہک بنیادی طور پر کیریبین اور انگریز تھے، پھر مغربی افریقی، بنگلہ دیشی، صومالی اور الجزائر کے لوگ آئے، اب ہمارے پاس ایتھوپیا، کولمبیا اور کافی تعداد میں انگریز آتے ہیں۔ ہمیں کاروبار میں صرف ایک کمیونٹی پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔‘

اس کے بالکل سامنے ایک اویغور ریستوران اور ٹیک وے ہے جو میاں بیوی چلاتے ہیں۔ عبدل اور روز ایکسمو شمال مغربی چین کے ایک خود مختار علاقے سنکیانگ میں ظلم و ستم سے بچ کر برطانیہ آئے اور سات سال قبل یہ کاروبار شروع کیا۔

اویغور کھانا وسطی ایشیائی ثقافتوں کا ایک انتہائی لذیذ کھانا ہے۔ یہاں آپ کو ہاتھ سے بنائے ہوئے فلیٹ نوڈلز، گوشت کے سموسے، پکوڑی، بینگن سٹو، پیلاف چاول، مرچ چکن اور مسالہ دار میمنے کے کباب ملیں گے۔ روز ایکسمو کا کہنا تھا کہ یہ انکی بہترین ڈش ہے۔

انکا کہنا تھا ان تمام پکوانوں کو تیار کرنا تھکا دینے والا کام ہے۔ لیکن ہمیں اپنے گاہک بہت پسند ہیں جو لندن کے باہر سے بھی آتے ہیں۔‘

شمالی لندن

،تصویر کا ذریعہCredit: Fiona Dunlop)

،تصویر کا کیپشن

دلارا کے مالکان عبدل اور روز اکمو سنکیانگ میں مظالم سے بچنے کے بعد لندن آئے

الجزائر اور انگلش کیفے کے بعد ایک مشہور چینی ہارڈویئر کی دکان ہے جس کا نام ’مِکس‘ ہے اور جس میں تقریباً گھریلو اشیاء کا سامان موجود ہے۔ مسز ساؤ لی نے 1979 میں ہانگ کانگ سے آنے کے بعد اس دکان کو کھولا تھا۔ ان کے ساتھ ان کے دو بچے بھی یہ دکان چلاتے ہیں۔

سامنے ہی الجزائر کی ایک کیک شاپ لا پرنسیسی نے انتہائی خوبصورت کریمی کیک شو کیس میں لگا رکھے تھے۔ اس کے برابر میں ایک فلسطینی کی چشموں کی دکان ہے۔ لیکن مجھے ایک چھوٹی سی ٹیک وے شاپ، بابن کے نان نے اپنی جانب راغب کیا، جہاں گاہک دروازے پر گپ شپ کر رہے تھے۔ یہ جگہ پانچ سال قبل کھولی گئی تھی، جو ایرانی کردستان میں ملک طاہری کے خاندانی کاروبار کی ایک شاخ ہے۔

گرم نان کے اوپر تل، زاتار، مرچ، لہسن یا پنیر کے ساتھ فلافل، کبہ اور کباب شامل کیا جا سکتا ہے۔

اس کے بعد، میں ایک اطالوی ریستوراں کے نزدیک سے گذری۔ یہ بیس سال پرانا ریستوران ہے جسے اینٹونیو تنہا ہی چلاتے ہیں۔ اس کے برعکس ایک مشہور ترک ریستوراں یلدیزہے جہاں 10 ملازمین کام کرتے ہیں۔ یہاں میں نے مالک اردان کے نوجوان بیٹے یوگر سے بات کی جو لندن میں 20 سال گزارنے کے باوجود ابھی تک محدود انگریزی بولتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ شاید ہمارے 10فیصد گاہک ترک ہیں، باقی دوسری قومیتوں کے لوگ ہیں۔

یہ اوکباشی (چارکول گرل) ہے جو کوئلوں پر گرل کیے جانے والے میمنے اور چکن کباب کے لیے مشہور ہے۔ انکے یہاں گرم اور ٹھنڈا میزے، سبزیوں کے پکوان اور تازہ مچھلی بھی پیش کی جاتی ہے۔ گوزیل نے کہا، ’ہم سمتھ فیلڈز مارکیٹ سے گوشت خریدتے ہیں خاص طور پر ویلش یا سکاٹش لیمب ہوتا ہے اور ہماری روٹی (پیٹا بریڈ) ہر صبح تازہ بنائی جاتی ہے۔ یلدز سے کوئی بھوکا نہیں جاتا۔‘

بھنے ہوئے اس گوشت کی خوشبو سڑک کے پار سلطان کارپیٹس تک پھیلی ہوئی تھی، یہ کاروبار تین اریٹیرین بھائیوں نے شروع کیا تھا جو 1990 کی دہائی میں ایتھوپیا کے ساتھ جنگ کے دوران اپنے ملک سے فرار ہو گئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ایک بیوٹی سیلون بھی تھا۔

شمالی لندن

،تصویر کا ذریعہCredit: Fiona Dunlop)

،تصویر کا کیپشن

مکس ایک مشہور چینی ہارڈ ویئر کی دکان ہے جس میں تقریباً ہر وہ گھریلو شے موجود ہے جس کا تصور کیا جا سکتا ہے

افریقہ اور ایشیا کے ان نمائندوں کے درمیان، یورپ کی نمائندگی بھی نطر آئی۔ مارگاکس ایک فیشن ایبل ہیئر ڈریسر ہے جس کی مالک ایک فرانسیسی خاتون ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ میں آٹھ سال پہلے اتفاقاً لندن آئی تھی، یہ سیلون کھولا اور پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا‘۔

انکا کہنا تھا کہ ’لندن ایک بہت ہی ترقی پسند شہر ہے، لیکن مجھے خاص طور پر شمالی لندن اور بلیک سٹاک روڈ بہت پسند ہے۔ یہاں ہر کوئی دوسری کمیونٹیز کا احترام کرتا ہے، میں خود کو محفوظ محسوس کرتی ہوں‘۔

پھر سے کھانے کی بات کریں تو، میں جوجو کے کچن میں داخل ہوئی، یہ ایک ایتھوپیائی ریستوراں ہے جو 2022 میں یوہانس اسفہ نے کھولا تھا۔ لمبے قد والے نرم مزاج جوجو کا ریستوراں ایتھوپیا کی سجاوٹ سے بھرا ہوا تھا۔ اس میں 50 سے زیادہ لوگ بیٹھتے ہیں، اور اس کا انتظام مکمل طور پر جوجو، ان کی اریٹیرین ساتھی اور ان کے بھائی کے ہاتھ میں ہے۔

جو جو کا کہنا تھا کہ ’میں 2008 میں پناہ کی تلاش میں برطانیہ آیا تھا، پھر انگریزی سیکھی،۔ ادیس ابابا اور پھر لندن میں ریستورانوں میں کام کرنے کے بعد، میرا اگلا قدم اپنی جگہ کھولنا تھا‘۔ انہوں نے کہا، ’میں نے اس علاقے کا انتخاب یہاں کثیر نسلی ثقافت اور گاہکوں کی تعداد دیکھ کر کیا تھا‘۔

شمالی لندن

،تصویر کا ذریعہCredit: Fiona Dunlop)

،تصویر کا کیپشن

ایتھوپیا کا ریستوراں جوجوز کچن اپنے بہت سے اجزاء ادیس ابابا سے درآمد کرتا ہے

ان کا گلوٹین فری ٹیف (ایک ایتھوپیائی اناج) ادیس ابابا سے ہفتے میں تین بار آتا ہے، جیسا کہ جڑی بوٹیاں، کالی مرچ اور کافی۔ انکا کہنا ہے کہ ’کبھی کبھی ہم گاہکوں کے لیے کافی کی روایتی تقریب کا انعقاد کرتے ہیں، ان کے سامنے بینز بھونتے ہیں اور لوگ اس کی خوشبو پسند کرتے ہیں‘۔

کونے پر ایک ترک دکان ہے جو، حیرت انگیز طور پر، سال میں 365 دن رات ایک بجے تک کھلی رہتی ہے، میں یورپی علاقے لٹل سردیگنا میں، ایک سارڈینیائی ریستوران کے قریب سے گذری جس کے بعد ایک کلاسک اطالوی رسیتوراں اِل گوسیو آیا۔

تاہم، اس سے ٹھیک پہلے، انگلش انٹرپرینیورشپ کی ایک عمدہ مثال سامنے آئی ۔’بک بار‘ ایک بک شاپ، کیفے اور وائن بار جہاں خاص طور پر نوجوان خواتین شراب پینے، پڑھنے یا کرسی ریان (دکان کے مالک) کے کسی ادبی پروگرام میں شرکت کے لیے آتی ہیں۔

جلد ہی میں ہائیبری پہنچ گئی جہاں فٹ پاتھ خالی تھے، ماحول بدل گیا تھا اور سڑک کا نام بھی، بلیک سٹاک روڈ کی آوازوں، کرداروں، وہاں کے کھانوں کی مہک اور زبانوں نے میری پرانی یادیں تازہ کر دیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ