لندن میں 70 برسوں سےانڈینز کا پسندیدہ ’انڈیا کلب‘ جو بالآخر بند ہو رہا ہے
انڈیا کلب آخری بار 17 کو کھلے گا
- مصنف, چیریلان مولان
- عہدہ, بی بی سی نیوز، ممبئی
یہ جگہ کوئی بہت غیر معمولی نہیں ہے۔ اگر آپ کو اس کی تلاش نہیں تو عین ممکن ہے آپ کو یہ نظر ہی نہ آئے۔ اس کے باوجود 70 سال سے زیادہ عرصے سے لندن میں رہنے والے بہت سے انڈینز کو اس کی تلاش رہی ہے اور وہ یہاں شناسا چہروں اور مرغوب ذائقے کے لیے یہاں آتے ہیں۔ یہ ان کے لیے ایسی جگہ رہی ہے جہاں انھیں ان کے دیس کے ذائقے ملتے رہے ہیں۔
’انڈیا کلب‘ ریسٹوران اور بار کے ساتھ ایک مشہور لاؤنج ہے جو وسطی لندن کی ایک مصروف سڑک پر ہوٹل سٹرینڈ کانٹیننٹل کے اندر موجود ہے۔ یہ کئی دہائیوں سے لندن میں جنوبی ایشیائی کمیونٹی کے لیے تاریخی اور ثقافتی اہمیت کا حامل ایک اہم مقام رہا ہے۔
اسے سنہ 1950 کی دہائی میں انڈین تارکین وطن کے ملنے اور آپس میں جڑنے کے لیے ایک جگہ کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔ لیکن اب انڈیا کلب بند ہونے والا ہے کیونکہ اس عمارت کے مالکان اس عمارت کے ایک حصے کو گرا کر وہاں ایک زیادہ جدید ہوٹل چاہتے ہیں۔
اس کلب کے بہت سے سرپرستوں کا کہنا ہے کہ وہ اس خبر سے افسردہ ہوئے ہیں کیونکہ کلب کے بند ہو جانے سے یہ شہر اپنی تاریخ کا ایک حصہ کھو دے گا۔
کلب برسوں سے اسے بند کیے جانے کے خلاف جدوجہد کر رہا ہے۔ کچھ سال پہلے اس کے مالکان یادگار مارکر اور ان کی بیٹی فیروزہ نے اس جگہ کو بچانے کی مہم کے لیے ہزاروں دستخط کے باوجود اپنی جنگ جیت لی۔
لیکن گذشتہ ہفتے انھوں نے پریس کو بتایا کہ کلب 17 ستمبر کو آخری بار کھلے گا۔
سنہ 1966 میں انڈیا کلب میں ایک الوداعیہ تقریب منعقد کی گئی
یہ خبر بہت سے لوگوں کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں کیونکہ یہ جگہ تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ ہوٹل سٹرینڈ کانٹیننٹل کی پہلی منزل پر واقع انڈیا کلب کو سنہ 1900 کی دہائی میں انڈیا کی آزادی کی حمایت کرنے والی برطانیہ کی تنظیم انڈیا لیگ کے اراکین نے شروع کیا تھا۔
انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کلب کے بانی اراکین میں شامل تھے جبکہ مارکرز نے سنہ 1990 کی دہائی میں اس پراپرٹی کو لیز پر خریدا تھا۔
رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کے آزادی پسند کارکنان شروع میں اس کلب کو اپنی میٹنگ کی جگہ کے طور پر استعمال کرتے تھے لیکن بعد میں یہ جنوبی ایشیائی برادریوں کے لوگوں کے لیے مشترکہ کھانوں، تقریبات اور دوستیاں قائم کرنے کی جگہ بن گئی۔
سنہ 1953 میں برطانیہ منتقل ہونے کے بعد باقاعدگی سے کلب جانے والی تاریخ دان کلثوم وڈگاما کہتی ہیں کہ ’پھر سنہ 1950 اور 60 کی دہائیوں میں یہ لندن میں وہ واحد جگہ تھی جہاں انڈینز ان لوگوں سے ملنے جلنے کے لیے پہنچتے تھے جو ان کی زبان بولتے تھے اور ان کا کھانا کھاتے تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’انڈیا کلب نے ہم سب کو اپنے نئے گھر میں احساس تنہائی کو قدرے کم کرنے میں مدد کی۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ لوگ اکثر وہاں سالگرہ، شادیوں یا روشنیوں کے ہندو تہوار دیوالی جیسے انڈین تہواروں کو منانے کے لیے ملتے تھے۔
انڈیا کلب کی دیواروں پر انڈین مشاہیر کی تصاویر لگی ہیں
کلثوم وڈگاما مشرقی افریقہ میں نوآبادیاتی دور میں پلی بڑھیں اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہ برطانیہ منتقل ہو گئیں۔ انھوں نے بتایا کہ انڈیا کی آزادی کے بعد کے سالوں میں بہت سے انڈینز بھی ہجرت کر کے برطانیہ پہنچے۔ لیکن اس وقت لندن میں انڈین باشندوں کے لیے شاید ہی کوئی ثقافتی ادارے موجود تھے۔
یہ بھی پڑھیے
انڈیا کلب نے ہندوستانی برادری کے لیے اس خلا کو پُر کیا۔ اس میں ایسے پکوان پیش کیے گئے جس سے انڈینز کے ذائقے مانوس تھے۔ مثال کے طور پر ڈوسا (چاول سے بنا پین کیک) اور سامبھر (مصالحے دار گریوی) جیسے جنوبی ہند کے پکوان اور شمالی ہند کے بٹر چکن (مکھن کے سالن میں پکا ہوا چکن)؛ انڈیا کے سٹریٹ فوڈ جیسے پکوڑے اور کافی اور مسالہ چائے وغیرہ شامل تھے۔
یہاں تک کہ کلب کے اندرونی حصے کو اس طرح سے آراستہ اور مزین کیا گیا تھا کہ اس میں آزادی سے پہلے کے ہندوستان کی کافی شاپس کی جھلک آتی تھی جہاں لوگ سگریٹ اور چائے کے کپ پر ثقافت اور سیاست کے بارے میں بات کرنے کے لیے ملتے تھے۔
کلب کے فانوس، فارمیکا کی میزوں اور سیدھی پشت والی کرسیوں میں 70 برس کے عرصے میں کوئی زیادہ تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے۔
اسمتا تھرور اور ان کی والدہ للی انڈیا کلب میں
بھرپور سماجی و سیاسی تاریخ کے شواہد کے طور پر اس کی دیواروں پر نمایاں انڈین اور برطانوی شخصیات کی تصاویر لگی ہیں جنھوں نے ان تمام برسوں کے دوران وہاں کا دورہ کیا۔ ان شخصیات میں دادا بھائی نوروجی، پہلے برطانوی ہندوستانی ایم پی، اور فلسفی برٹرینڈ رسل کے علاوہ انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اور انڈیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم اندرا گاندھی کی تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں۔
ان سارے عرصے کے دوران یہ کلب نہ صرف انڈین تارکین وطن بلکہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے صحافیوں اور مختلف انڈین-برطانوی گروپوں اور انجمنوں کے لیے ایک مقبول ’واٹرنگ ہول‘ یا مے خانہ بن گیا۔
صحافی اور مصنفہ شرابانی باسو سنہ 1980 کی دہائی میں اپنے ساتھی صحافیوں کے ساتھ اس ریسٹورنٹ میں اکثر جانا یاد کرتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ ان چند جگہوں میں سے ایک تھی جہاں وسطی لندن میں سستا ہندوستانی کھانا پیش کیا جاتا تھا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ انڈیا کلب شہر کے ’پوشیدہ راز‘ کی طرح ہے اور وہ انڈیا سے آنے والے اپنے دوستوں اور خاندان والوں کو وہاں لے جانا پسند کرتی ہیں۔
اسمیتا تھرور ایک موٹیویشنل سپیکر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے والد چندن تھرور، جو کلب کے بانی ممبران میں سے ایک تھے، اس جگہ کے بارے میں بہت مزے مزے کی کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ وہ بیچلر کے طور پر اکثر وہاں جاتے تھے۔
انھوں نے وہاں شراب پیش کرنے والی ایک خاتون ساقی کے بارے میں بتایا تھا کہ ’وہ ان مردوں کو مزید شراب پیش کرنے سے انکار کر دیتی تھیں جو ان کے خیال میں زیادہ نشے میں چلے جاتے تھے۔‘
جب وہ برسوں بعد لندن میں ان سے ملنے آئے تو وہ اپنی بیٹی کو اپنے ساتھ کلب لے گئے۔ اس کے بعد سے ہی مسز تھرور بھی وہاں باقاعدگی سے جانے لگیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میرے والد کے انتقال کے بعد، میں نے ان کے اعزاز میں انڈیا کلب میں ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ میں نے وہاں اپنے شوہر کی 50ویں سالگرہ بھی منائی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’انڈیا کلب کا ہمارے دلوں میں بہت خاص مقام ہے، اور اسے جاتا دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ اب صرف یادیں رہ گئی ہیں۔‘
Comments are closed.