لندن میں چھینا گیا آئی فون جو ایک ماہ بعد چین پہنچ گیا،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, گراہم فریزر اور ٹام جرکین
  • عہدہ, بی بی سی، ٹیکنالوجی رپورٹر
  • 2 گھنٹے قبل

یہ رواں برس اپریل کے مہینے کی بات ہے۔ سنیچر کو علی الصبح جب اکارا ایٹیہ وسطی لندن میں ٹرین سٹیشن سے باہر نکلے تو انھوں نے اپنی جیب سے فون نکالا۔ انھوں نے ابھی اپنی جیب سے فون نکالا ہی تھا ہی کہ ایک موٹر سائیکل سوار چھپٹا مار کر ان کا فون لے اڑا۔ اکارا اس شخص کے پیچھے بھاگے بھی مگر وہ چشم زدن میں ٹریفک کی بھیڑ میں کہیں غائب ہو گیا۔ایک اندازے کے مطابق گذشتہ ایک سال کے دوران انگلینڈ اور ویلز میں چھینا چھپٹی کے 78 ہزار واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔اس طرح کے جرائم میں مقدمات چلانے کی شرح بھی بہت کم ہے۔ لندن پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس نوعیت کے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں تاہم ابھی تک ’مسئلے سے نمٹنے کا حل تلاش نہیں کیا جا سکا ہے۔‘

اس نوعیت کے جرائم کا نشانہ بننے والے افراد نے بی بی سی کو بتایا کہ اس سے ان پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ان کے فونز کی چوری سے ان کی یادگار تصاویر کھو رہی ہیں جن کی تلافی نہیں ہو سکتی۔اکارا کے لیے مایوسی کی ایک بات یہ بھی تھی کہ انھیں یہ تو معلوم تھا کہ ان کا فون کہاں گیا ہے لیکن وہ اسے حاصل کرنے کے معاملے میں بے بس تھے۔

لندن کے ارد گرد فون کی موجودگی

،تصویر کا ذریعہAkara Etteh

،تصویر کا کیپشناکارا ایٹیہ کا فون اپریل میں چوری ہوا اور مئی میں چوری شدہ فون چین پہنچ چکا تھا
اس واردات کے ایک گھنٹے بعد جب اکارا گھر پہنچے تو انھوں نے اپنے چوری شدہ آئی فون 13 کو ’لاسٹ موڈ‘ میں ڈال دیا تاکہ چور فون میں موجود ان کے مواد تک رسائی حاصل نہ کر سکیں جبکہ اسی دوران انھوں نے اپنے لیپ ٹاپ کا استعمال کرتے ہوئے انھوں نے ’فائنڈ مائی آئی فون‘ کے ذریعے چھینے گئے فون کی تلاش کوشش شروع کر دی۔اس سے اکارا کو یہ پتہ لگانے کا موقع ملا کہ ان کا فون اس وقت کس علاقے میں ہے اور تقریباً فوراً ہی انھیں ایک اطلاع موصول ہوئی کہ ان کا فون ’ازلنگٹن‘ نامی علاقے میں ہے۔ آٹھ دن بعد ان کا فون دوبارہ شمالی لندن کے آس پاس کے مختلف مقامات پر پایا گیا۔انھوں نے کہا کہ ان میں سے وہ دو مقامات پر اپنے فون کی تلاش میں گئے بھی تاہم وہ اس قسم کے جرائم کا نشانہ بننے والے افراد کو مشورہ دیتے ہیں کہ خود سے ایسی جگہوں پر جانے اور اپنے طور پر اپنا فون تلاش کرنے سے گریز کریں کیونکہ اس میں خطرات ہو سکتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’یہ کافی خطرناک تھا۔ میں غصے سے بھرا ہوا تھا۔‘انھوں نے کہا کہ ’میں واقعی ناراض ہوں۔ اتنا مہنگا فون خریدنے کے لیے اور اتنی رقم کمانے کے لیے ہم سخت محنت کرتے ہیں اور پھر کوئی اور شخص اسے لے اڑتا ہے۔‘بہر حال چوری کے ایک ماہ بعد مئی میں اکارا نے جب ‘فائنڈ مائی آئی فون’ کو دوبارہ چیک کیا تو انھیں معلوم ہوا کہ اُن کا ’قیمتی اثاثہ‘ اب لندن سے نکل کر دنیا کے دوسرے کونے پر موجود ملک یعنی چین میں موجود ہے۔سامنے آنے والی لوکیشن چین کے شہر شینزین کی تھی۔یہ صورتحال دیکھ کر آخر کاراکارا نے ہار مان لی۔چین کے شینزین میں چوری شدہ اور چھینے گئے فونز کا پہنچنا کوئی معمولی بات نہیں ہے کیونکہ وہاں اگرچہ ڈیوائسز کو ان لاک اور دوبارہ استعمال کے قابل نہیں بنایا جا سکتا ہے لیکن کم از کم انھیں فون میں لگے قیمتی پرزوں کے لیے توڑا جا سکتا ہے۔ایک کروڑ 76 لاکھ آبادی والا چین کا شہر شینزین ایک بڑا ٹیک ہب بھی ہے اور اس شہر کو ’چین کی سلیکون ویلی‘ بھی کہا جاتا ہے۔
،تصویر کا کیپشناکارا کا فون کب کہاں تھا

پولیس بھی مدد نہیں کر سکی

اکارا نے لندن سے اپنا فون چوری ہونے کے کچھ ہی دیر بعد پولیس افسران کو سڑک پر دیکھا اور انھوں نے ان کو بتایا کہ ان کے ساتھ کیا واقعہ رونما ہوا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ افسران کو چوروں کے بارے میں معلوم تھا کہ وہ فون چوری کرنے کے لیے ’علاقے کا چکر‘ کاٹ رہے تھے۔ پولیس افسران نے اکارا کو اس جرم کی آن لائن رپورٹ کرنے کے لیے کہا اور انھوں نے آن لائن شکایت بھی کی۔کچھ دن بعد میٹروپولیٹن پولیس نے ای میل کے ذریعے انھیں بتایا کہ ان کا کیس بند کر دیا گیا ہے کیونکہ ’اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ذمہ داروں کی شناخت کی جا سکے گی۔‘اس کے بعد اکارا نے وہ تصاویر اور معلومات جمع کرائیں جو انھوں نے ان جگہوں سے اکٹھی کی تھیں جہاں ان کا چوری شدہ فون پہنچا تھا۔ پولیس نے وہ تصاویر اور رپورٹ جمع کر لیں لیکن اُن پر مزید کوئی کارروائی نہیں کی۔میٹروپولیٹن پولیس نے اکارا کے مخصوص کیس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن کہا کہ وہ اپنے ’وسائل سے ویسٹ منسٹر، لیمبیتھ اور نیوہم جیسے ہاٹ سپاٹس پر نظر رکھے ہوئے ہے، ان علاقوں میں گشت میں اضافہ کيا گيا ہے اور سادہ لباس میں افسران موجود ہیں۔۔۔‘

ماں کی کھوئی ہوئی تصاویر

بہت سے دوسرے لوگوں نے بی بی سی سے اپنے فون کے چھین لیے جانے کے اپنے تجربات شیئر کیے۔ سرے سے تعلق رکھنے والے 44 سالہ شخص جیمز او سلیوان کا کہنا ہے کہ چوروں نے ان کے چوری شدہ ڈیوائس کی ایپل پے سروس استعمال کرتے ہوئے انھیں 25,000 پاؤنڈ سے زیادہ کا نقصان پہنچایا۔دریں اثنا، نیو کیسل سے تعلق رکھنے والی کیٹی ایش ورتھ نے وضاحت کی کہ ان کا فون ایک پارک میں ان کی گھڑی کے ساتھ چھین لیا گیا تھا اور ان کے فون کیس میں ایک ڈیبٹ کارڈ بھی موجود تھا۔36 سالہ خاتون کا کہنا ہے کہ ’سب سے افسوسناک بات یہ تھی کہ فون میں میری ماں کے ساتھ آخری تصاویر تھیں۔ میں ان تصاویر کو واپس حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔‘انھوں نے بھی پولیس کی جانب سے کارروائی نہ کرنے کا شکایت بھی کی۔انھوں نے کہا: ’پولیس نے کبھی بھی میرے ساتھ اس کی تلاش نہیں کی، اس بات کے باوجود کہ میرے بینک کے لین دین یہ ظاہر کرتے ہیں کہ چور کہاں کہاں گئے۔’پولیس نے مجھے صرف ’فیس بک مارکیٹ پلیس‘ اور ’سیکس‘ جیسی مقامی سیکنڈ ہینڈ دکانوں کو چیک کرنے کو کہا۔‘،تصویر کا ذریعہPA Media

،تصویر کا کیپشنلندن کی میٹ پولیس

ٹریکنگ اور غیر فعال کرنا

چوری شدہ فونز کو ٹریک کیا جا سکتا ہے اور ’فائنڈ مائی آئی فون‘ اور اینڈرائیڈ کے ’فائنڈ مائی ڈیوائس‘ جیسی سروسز کے ذریعے چوری یا گم شدہ فونز کا ڈیٹا ڈیلیٹ کیا جا سکتا ہے۔لیکن پولیسنگ منسٹر ڈیم ڈیانا جانسن نے رواں ہفتے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ مینوفیکچررز اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی بھی چوری شدہ فون کو مستقل طور پر غیر فعال کیا جائے تاکہ اسے دوسری بار فروخت ہونے سے روکا جا سکے۔پولیس سربراہان کو مزید انٹیلیجنس جمع کرنے کا کام بھی سونپا جائے گا کہ کون فون چوری کر رہا ہے اور چوری شدہ آلات کہاں تک پہنچتے ہیں۔حکومت نے کہا کہ برطانیہ اور بیرون ملک دونوں میں سیکنڈ ہینڈ فونز کی بڑھتی ہوئی مانگ کو چوریوں میں حالیہ اضافے کے پیچھے ایک بڑا محرک سمجھا جاتا ہے۔ہوم آفس اے کے متعلق ایک کانفرنس کی میزبانی کرنے والا ہے جس میں ٹیک کمپنیوں اور فون مینوفیکچررز سے کہا جائے گا کہ وہ ایسی اختراعات پر غور کریں جو فون کی غیر قانونی تجارت کو روکنے میں مدد کر سکیں۔پی سی ایوانز نے کہا کہ ’کوئی جادوئی چھڑی نہیں ہے‘ کہ گھمایا اور ہو گيا لیکن انھوں نے کہا کہ فون بنانے والی کمپنیاں اس ضمن میں کام کر سکتی ہیں جو پولیس کے لیے ’بہت زیادہ مددگار‘ ثابت ہو سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ اپنے ڈیواسز میں زیادہ درست ٹریکنگ فراہم کروائيں۔انھوں نے کہا کہ اس وقت فون ٹریکنگ ٹھیک ہے ’لیکن ٹوٹل ریکال میں ایسا نہیں ہے جہاں آپ اپنے ہاتھ میں ٹریکنگ ڈیوائس کے ساتھ ادھر ادھر بھاگ سکتے ہیں۔‘’میں اس کی تعریف کرتا ہوں کہ اگرچہ یہ فون کمپنیوں کے لیے وہ چیز بنانا ایک بڑا مطالبہ ہے، لیکن یہ پولیسنگ کے نقطہ نظر سے بہت زیادہ مددگار ثابت ہو گا۔‘ایپل اور اینڈرائیڈ نے بی بی سی کے سوالوں کا جواب نہیں دیا ہے لیکن سام سنگ نے کہا کہ وہ ’موبائل فون کی چوری اور متعلقہ جرائم کے معاملے پر اہم اسٹیک ہولڈرز اور حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔‘

پولیس کے لیے ’وقت خلاف جنگ‘

تو پولیس بظاہر اس جرم کا مقابلہ کرنے یا چوری شدہ آلات برآمد کرنے میں کیوں ناکام نظر آتی ہے؟پی سی میٹ ایوانز نے ویسٹ مڈلینڈز پولیس کے اندر ایک دہائی سے زائد عرصے تک اس قسم کے جرائم پر کام کرنے والی ٹیم کی قیادت کی ہے۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ چوری ہونے والے فونز کی ’کافی کم تعداد‘ ہی برآمد ہو پاتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ مسئلہ اس رفتار کا ہے جس کے ساتھ مجرم حرکت کرتے ہیں۔انھوں نے کہا: ’فون کو چند گھنٹوں کے اندر ہی معلوم مال مسروقہ کے خریداروں کی جگہ پہنچا دیا جاتا ہے۔‘’یہ ہمیشہ اس طرح کے جرائم میں سے کسی کے فوراً بعد وقت کے خلاف جنگ ہوتی ہے، لیکن لوگوں کو ہمیشہ ان چیزوں کی اطلاع پولیس کو دینی چاہیے، نہیں تو ہمیں کیونکر علم ہو گا کہ یہ جرائم ہو رہے ہیں، اور پھر ہم ان کی تفتیش نہیں کر سکتے۔‘ان کا کہنا تھا کہ اور کبھی کبھی صرف ایک گرفتاری فرق ڈال سکتی ہے۔انھوں نے کہا کہ ’جب ہم ان مجرموں کو پکڑتے ہیں، یا تو عملا یا حقیقتا اس کے بعد جرائم کی شرح میں کمی آتی ہے۔’اکثر وہ فرد جرم کی ایک بڑی تعداد کا ذمہ دار ہوتا ہے۔‘لیکن مسئلہ صرف پولیسنگ کا نہیں ہے۔ٹام سنگلٹن کی اضافی رپورٹنگ
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}