لندن سے سنگاپور جانے والی فلائٹ پر ٹربیولنس، ایک مسافر ہلاک: ’جن مسافروں نے سیٹ بیلٹ نہیں پہن رکھی تھی وہ چھت سے جا ٹکرائے‘
ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ سامان رکھنے کے خانوں سے شدت سے ٹکرائے جبکہ کچھ کے ٹکرانے سے ماسک رکھنے کی جگہیں ٹوٹ گئیں۔فضائی کمپنی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پرواز ایس کیو 321 پر 211 مسافر اور عملے کے 18 ارکان سوار تھے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ ’سنگاپور ایئر لائنز متوفی کے خاندان سے تعزیت کرتی ہے۔‘کمپنی نے مزید کہا کہ وہ مذکورہ پرواز کے مسافروں کو طبی امداد فراہم کرنے کے لیے تھائی لینڈ میں حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے اور کسی بھی اضافی مدد کے پیشِ نظر ایک ٹیم بنکاک بھیج رہی ہے۔سنگاپور کے وزیر ٹرانسپورٹ چی ہانگ ٹاٹ نے کہا کہ حکومت مسافروں اور ان کے اہلخانہ کی مدد کرے گی۔انھوں نے فیس بک پر ایک بیان میں کہا ’مجھے لندن میں ہیتھرو کے ہوائی اڈے سے سنگاپور جانے والی پرواز پر پیش آنے والے واقعے کے بارے میں جان کر بہت دکھ ہوا ہے۔‘سنگاپور ایئر لائن کے سربراہ نے شدید ٹربولینس کی وجہ سے پرواز میں ایک مسافر کی ہلاکت اور متعدد کے زخمی ہونے کے بعد معافی مانگتے ہوئے کہا ہے کہ لندن سے سنگاپور جانے والی پرواز میں پیش آنے والے واقعے اور ’تکلیف دہ تجربے پر ایئر لائن بہت شرمندہ ہے۔‘بدھ کے دن سنگاپور ایئر لائن کے سربراہ گوہ چون پونگ نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ ان کی کمپنی متعلقہ حکام سے مکمل تعاون کر رہی ہے۔ انھوں نے ہلاک ہونے والے مسافر کے اہلخانہ سے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ متاثر ہونے والے مسافروں اور عملے کی ہر ممکن مدد کی جائے گی۔انھوں نے بتایا کہ یہ واقعہ 10 گھنٹے کی پرواز کے بعد 37 ہزار فٹ کی لندی پر پیش آیا۔ ایک مسافر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جن مسافروں نے سیٹ بیلٹ نہیں پہن رکھی تھی وہ چھت سے جا ٹکرائے۔‘سنگاپور کے وزیر اعظم لارنس وونگ نے بھی ہلاک ہونے والے مسافر کے اہلخانہ کو تعزیتی پیغام بھجوایا ہے اور کہا ہے کہ سنگاپور تھائی لینڈ کے حکام کے ساتھ مل کر اس معاملے کو دیکھ رہا ہے۔سنگاپور کے وزیر اعظم نے کہا کہ ان کے ملک کا ٹرانسپورٹ سیفٹی انوسٹیگیشن بیورو جامع تحقیقات کرے گا۔ہوا بازی کے ماہر جان سٹرک لینڈ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر دنیا میں پروازوں کی تعداد کو دیکھا جائے تو شدید ہلچل اور جھٹکوں سے زخمی ہونے کے واقعات نسبتاً کم ہیں۔ تاہم اگر یہ عمل شدید ہو تو صورتحال ڈرامائی ہو سکتی ہے اور شدید چوٹوں کا باعث بن سکتی ہے یا پھر موت بھی واقع ہو سکتی ہے جیسے کہ اس معاملے میں ہوا۔‘ان کا کہنا تھا کہ فضائی عملے کے پاس اس قسم کے واقعات کی پیش گوئی کرنے کے وسائل ہیں لیکن دنیا کے کچھ علاقوں میں اس قسم کے واقعات زیادہ پیش آتے ہیں لیکن عملے کو اس سے نمٹنے کی تربیت دی جاتی ہے۔،تصویر کا ذریعہReuters
’میں آپ کو ڈرانا تو نہیں چاہتا، لیکن میں ایک خوفناک پرواز پر سوار ہوں‘
ایلیسن بارکر کے فون پر صبح نو بج کر 10 منٹ پر ایک پیغام موصول ہوا۔فون پر آنے والے میسج میں کہا گیا تھا کہ ’میں آپ کو ڈرانا تو نہیں چاہتا، لیکن میں ایک خوفناک پرواز پر سوار ہوں۔ طیارہ ہنگامی لینڈنگ کی تیاری کر رہا ہے۔۔۔ میں آپ سب سے بہت محبت کرتا ہوں۔‘ایلیسن بارکر کے بیٹا جاش بالی میں چھٹیاں منانے جا رہا تھا۔ ایلیسن نے اس میسج کے بعد مزید دو گھنٹے تک کچھ اور نہیں سنا۔ایلیسن نے بی بی سی کے نامہ نگار جو انوڈ کو مزید بتایا کہ ’یہ سب انتہائی خوفناک تھا۔‘اُن کا کہنا تھا کہ ’میں نہیں جانتی تھی کہ کیا ہو رہا تھا، ہم یہ تک نہیں جانتے تھے کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں، وہ دو گھنٹے ایک تو اعصاب شکن تھے، اور دوسرا وہ وقت گزر ہی نہیں رہا تھا، یہ سب بہت خوفناک تھا۔‘آخر کار وہ جاش سے بات کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ وہ سنگاپور ایئر لائنز کی پرواز میں سوار تھے جہاں سے انھوں نے وہ تکلیف دہ منظر بیان کیا۔’ایک منٹ پہلے وہ سیٹ بیلٹ پہنے بیٹھے تھے، اگلے ہی لمحے ہر جانب اندھیرا چھا گیا، جس کے بعد وہ دوسرے مسافروں سے ساتھ جہاز کے فرش پر تھے۔ جہاز میں ہر جانب پانی اور خون دکھائی دے رہا تھا، لوگوں کا سامان جہاز میں ہر جانب بکھرا ہوا تھا۔‘خوش قسمتی سے جاش کو کوئی گہری چوٹ نہیں آئی۔ ’جس کے باوجود وہ انتہائی تکلیف میں تھا، مجھے یوں لگ رہا تھا کہ اُس کے دانت ٹوٹ گئے ہیں، اس کے چہرے پر زخم آئے تھے، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اس سے زیادہ خوفناک کوئی اور چیز ہو سکتی ہے۔‘لیکن ایلیسن کو اس بات کا ڈر تھا کہ جسمانی تکلیف سے بھی زیادہ کُچھ اور ہو سکتا تھا۔ ’جب اسے پتہ چلا کہ فلائٹ میں کوئی مر گیا ہے، تو آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اس بات کا اثر کسی پر کیا ہو سکتا ہے، یعنی یہ کہ وہ مرنے کے بہت قریب تھا۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’کسی ایسے شخص کے لیے جو پہلے سے ہی فضائی سفر یا ہوائی جہاز میں بیٹھنے سے خوفزدہ اور پریشان ہو، وہ سمجھتی ہیں کہ اس صورحال میں اپنے آپ پر قابو رکھا اور اس سے باہر نکلنا انتہائی مشکل ہو گا۔’مجھے لگتا ہے کہ اس واقعے کا جاش پر اثر لمبے عرصے تک باقی رہے گا۔ وہ موت کے بہت قریب سے واپس لوٹا ہے۔ بس یہی نہیں بلکہ اس سب کی وجہ سے اُس کے اندر موجود فضائی سفر سے متعلق خوف کو تقویت ملے گی یا اس میں اضافہ ہو گا۔‘سنگاپور ایئرلائنز کی پرواز میں موجود اینڈریو ڈیوس نے بی بی سی کو بینکاک ہوائی اڈے کے اندر سے ایک تصویر بھیجی ہے جہاں مسافروں کو رکھا گیا ہے۔اینڈریو کا کہنا ہے کہ سنگاپور ایئرلائنز کے عملے میں سے ایک نے کہا کہ یہ ان کی 30 سالہ پرواز میں اب تک کا بدترین سفر تھا۔انھوں نے کچھ مسافروں کو ابتدائی طبی امداد دیتے اور دل کی دھڑکن کو بحال کرنے کے لیے لگائے جانے والے بجلی کے جھٹکے دینے سے قبل محتاط رہنے کے لیے چیختے ہوئے سُنا اور دیکھا۔اینڈریو کا کہنا ہے کہ ’بہت سے لوگ زخمی ہوئے جن کے سر پر چوٹیں آئیں، کچھ کے کانوں سے خون بہہ رہا تھا۔ ’ایک عورت درد سے چیخ رہی تھیں اور ان کی کمر پر گہری چوٹ لگی تھی۔ میں انھیں صرف پانی پلانے کے علاوہ اُن کی کوئی اور مدد نہیں کر سکا۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’بہت سے لوگ زخمی ہوئے، جن میں ایئر لائن کا عملہ بھی شامل تھا، اُنھوں نے اپنے تکلیف کو پسِ پُشت ڈال کر مسافروں کے لیے وہ سب کُچھ کیا جو وہ کر سکتے تھے۔’کاش میں مزید مدد کر سکتا۔‘اینڈریو نے بتایا کہ لوگوں کا سامان ہر جانب ’بکھرا پڑا تھا‘ اور ’جہاز کے اندر چاروں اطراف سے چائے اور پانی ٹپک رہا تھا۔‘وہ کہتے ہیں کہ یہ سب ایک خواب جیسا محسوس ہو رہا تھا۔
- دورانِ پرواز طیارے میں ’ریفریجریٹر جتنا چوڑا‘ شگاف: ’پاس بیٹھے بچے کو والدہ نے تھاما جس کی شرٹ اڑ کر باہر جا چکی تھی‘6 جنوری 2024
- طیارہ حادثے کی دردناک کہانی: ’اپنے ساتھیوں کا گوشت کھا کر زندہ رہے، ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا‘17 دسمبر 2023
- سڈنی سے آکلینڈ جانے والی پرواز میں خرابی: ’لوگ ادھر سے ادھر اڑ رہے تھے، ایک لمحے کو لگا آخری وقت آ گیا‘12 مار چ 2024
فلائٹ ٹربیولنس کیا ہوتی ہے اور اس میں اضافہ کیوں ہوا ہے؟
یہ عمل فضا میں ہوا کے سمندر میں لہروں کے اٹھنے جیسے عمل کی مانند ہوتا ہے اور عموماً ایسے مقامات پر پیش آتا ہے جہاں بادل ہوں لیکن اس کی ایک قسم کلیئر ایئر ٹربیولنس بھی ہوتی ہے جب یہ عمل ایسے مقام پر ہوتا ہے جہاں مطلع صاف ہو۔امریکہ کی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق کلیئر ایئر ٹربیولنس سے مراد بادلوں سے پاک علاقے میں ہوا کی وجہ سے پیدا ہونے والی وہ شدید ہلچل ہے جو ہوائی جہاز کے ڈولنے یا اسے شدید جھٹکے لگنے کی وجہ بنتی ہے۔ایف اے اے کے مطابق اس قسم کی ٹربیولنس خصوصاً پریشان کن ثابت ہوتی ہے کیونکہ پائلٹس کو اس کا سامنا اکثر غیر متوقع طور پر ہوتا ہے اور انھیں اس خطرے کی نشانیاں بھی نظر نہیں آتیں۔‘ماہرین کے مطابق اس ہلچل کی تین قسم کی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب گرم ہوا ٹھنڈی ہوا کے درمیان سے اوپر اٹھے یا پھر ہوا کے بہاؤ کو روکنے کے لیے کوئی چیز جیسے کہ پہاڑ یا بلند عمارت موجود ہو۔تیسری وجہ مختلف سمت میں حرکت کرنے والی ہوا کے کناروں پر طیارے کی موجودگی ہو سکتی ہے۔ ان تمام صورتحالوں میں طیارہ اچانک اوپر، نیچے اور دائیں بائیں حرکت کر سکتا ہے اور اس پر سوار افراد کو اس کی وجہ سے شدید جھٹکے لگ سکتے ہیں اور اگر وہ اپنی نشست پر بیٹھے ہوئے نہ ہوں تو گہری چوٹ بھی لگ سکتی ہے۔ہوا بازی کے ماہر جان سٹرک لینڈ کا کہنا ہے کہ ’پرواز چاہے طویل ہو یا مختصر دورانیے کی، اس کے دوران مسافروں سے سیٹ بیلٹ کو باندھے رکھنے کو کہا جاتا ہے تو اس کی کوئی وجہ تو ہوتی ہے‘۔محققین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کرۂ ارض کا درجۂ حرارت بڑھنا فلائٹ ٹربلنس کے واقعات میں اضافے کی ایک وجہ ہے۔برطانیہ کی ریڈنگ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ’کلیئر ایئر ٹربلنس‘ پر تحقیق کی جس سے بچنا عموماً پائلٹس کے لیے مشکل ہوتا ہے۔اس تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ شمالی بحرِ اوقیانوس کے اوپر سفر کے دوران شدید ٹربلنس کے واقعات میں 1979 سے 2020 کے دوران 55 فیصد اضافہ ہوا۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ کاربن اخراج کے نتیجے میں گرم ہوا کی وجہ سے انتہائی بلندی پر ہوا کی رفتار میں آنے والی تبدیلیاں ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.