سینئر سیاستدان فاروق ستار نے کہا ہے کہ لندن سے الگ ہونے پر پارٹی کو مضبوط ہونا چاہیے تھا۔
جیو نیوز کے پروگرام شاہزیب خانزادہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم میں سیاسی بصیرت اور پختگی کی کمی ہوسکتی ہے۔ سیاسی بصیرت کی کمی کو سیاسی موتیا کہہ سکتے ہیں، شاید اب کسی سرجن نے آپریشن کیا ہے اور بینائی بحال ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی بصیرت کی کمی ہے کہ ہم در بدر پھر رہے ہیں، کامران ٹیسوری کو بحال کرکے گورنر بنا دیا گیا، پی ایس پی کے غبارے سے ہوا نکلی ہے۔
سینئر سیاستدان نے مزید کہا کہ کامران ٹیسوری نے سپریم کورٹ جائے بغیر ایم کیو ایم کی رجسٹریشن بحال کرا دی تھی۔
فاروق ستار نے یہ بھی کہا کہ ہم اُس وقت کامران ٹیسوری کو سینیٹر نہیں بنا سکے اور اب گورنر بنا دیا۔
انہوں نے کہا کہ لندن سے الگ ہوئے تھے تو ہمیں مضبوط ہونا چاہیے تھا، ہمیں اپنا ووٹ بینک بحال کرنا چاہیے تھا۔
سینئر سیاستدان نے کہا کہ خالد مقبول نے محمود آباد کی سیٹ کےلیے کامران ٹیسوری کو نامزد کیا تھا، اگر میرے سرجن سے تعلقات اچھے ہوتے تو یہ دن نہیں دیکھنا پڑتے اور میری سربراہی نہیں جاتی۔
فاروق ستار نے کہا کہ میری کوئی کمزوری نہیں تھی، چار سال پہلے میرا جو اسٹینڈ تھا وہ درست ثابت ہو رہا ہے، میں نےبات چیت کے دروازے کھلے رکھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کامران ٹیسوری میری اے ٹی ایم ہوتی تو 35 سال میں بہت اے ٹی ایم ہوتیں، فاروق ستار سے کوئی پرخاش تھی تو بیٹھ کر کلیئر کرلیتے۔
سینئر سیاستدان نے کہا کہ میں نے کہا کہ علی رضا عابدی کو رابطہ کمیٹی میں شامل کریں، میری بات مسترد کردی تھی، میری سربراہ کے طور پر بات نہیں مانی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کا ٹائی ٹینیک ڈوب گیا ہے، اسے سمندر کی سطح پر لانا ناممکن ہے، سیاسی بصیرت کا تقاضا ہے کہ کم از کم ایجنڈا پر بات کریں۔
فاروق ستار نے کہا کہ میری کچھ باتیں متحدہ نے مان لی تھیں، مجھے ایم کیو ایم کو بچانا ہے، ہمیں لوگوں سے معافی مانگنی ہے، نئے چہرے سامنے لانے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ طے ہوا تھا کہ ورکرز اجلاس ہوگا اور عزت اور وقار کے ساتھ واپس لیا جائے گا، بعد میں خالد مقبول نےکہا کہ بزرگوں نے منع کر دیا ہے، میں نے پوچھا بزرگ کون ہیں، نہیں بتایا۔
سینئر سیاستدان نے کہا کہ قومی سلامتی کے اداروں کا دل سے احترام کرتے ہیں، وہ ہمارے ادارے ہیں۔
Comments are closed.