لحاف سے ملنے والا وہ ثبوت جس نے 40 سال بعد شوہر کو اپنی سابقہ اہلیہ کے قتل کا مجرم قرار دلوایا،تصویر کا ذریعہNEWSLINE MEDIA
،تصویر کا کیپشنبرینڈا پیج اور اُن کے شوہر کرسٹوفر ہیریسن

  • مصنف, ربیکا کرن، کین بینکس
  • عہدہ, بی بی سی سکاٹ لینڈ
  • 2 گھنٹے قبل

یہ 1978 کا واقعہ ہے جب کرسٹوفر ہیریسن نے اپنی سابقہ بیوی کو قتل کر دیا۔ یہ قتل کرنے کے تقریباً 40 سال تک ہیریسن قانون کی گرفت سے بچنے میں کامیاب رہا۔ اور ان 40 برسوں میں اسے لگتا رہا کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کہیں زیادہ چالاک ہے اور کبھی پکڑا نہیں جائے گا لیکن بالآخر اس کی یہی چالاکی اس کی گرفتاری کی وجہ بنی۔پولیس انسپکٹر جیمز کیلینڈرکے مطابق ہیریسن کو لگا کہ جیسے وہ قتل کے اس کیس میں حکام کو چکمہ دینے اور بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں لیکن اپنے ایک انٹرویو کے دوران انھوں نے خود اپنے خلاف ثبوت فراہم کر دیے۔اور پھر مقدمہ چلا اور انھیں سزا سنا دی گئی۔ بی بی سی کی دستاویزی فلم ’مرڈر ٹرائل: دی کلنگ آف ڈاکٹر برینڈا پیج‘ میں 2020 میں ہیریسن کی گرفتاری سے لے کر مقدمے کی سماعت اور حتمی سزا کا اعلان سنائے جانے تک کے کیس کا جائزہ لیا گیا ہے۔

اس دستاویزی فلم میں وہ لمحہ بھی فلمایا گیا ہے جب پولیس افسران ہریریسن کے گھر میں زبردستی داخل ہوتے ہیں اور وہ انھیں بتاتا ہے کہ ’اسے (سابقہ اہلیہ کو) یہاں قتل نہیں کیا گیا تھا۔‘ہیرسن کی اہلیہ پیج کی لاش 14 جولائی 1978 کو اُن کے گھر میں خون آلود بستر پر ملی تھی۔ہیرسن پیشے کے لحاظ سے سائنسدان تھے اور ان کی اہلیہ کے قتل کے بعد ہی ان پر اس قتل میں ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ قتل کے چند گھنٹوں بعد انھیں گرفتار کر کے ان کا بیان بھی لیا گیا تھا اور استغاثہ کو رپورٹ پیش کی گئی تھی۔قتل کا یہ واقعہ کافی عرصے تک خبروں کی زینت بنا رہا اور پولیس اہم گواہوں اور ثبوتوں کی تلاش میں لگی رہی۔تاہم اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی اوربالآخر فیصلہ کیا گیا کہ ہیریسن کے خلاف عدالت میں پیش کرنے کے لیے ثبوت انھیں سزا دینے کے لیے ناکافی ہیں چنانچہ انھیں ابتدا میں بری کر دیا گیا۔

،تصویر کا کیپشنانسپکٹر جیمز کیلینڈر نے بطور سینیئر تفتیشی افسر پیج کے قتل کے کیس کی تفتیش کی تھی
عدالت کی جانب سے یہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد ڈاکٹر پیج (ہیرسن کی اہلیہ) کی موت معمہ بن کر رہ گئی۔ مگر پھر قتل کے 37 سال بعد 2015 میں ایک بار پھر پولیس کو تحقیقات کی ہدایت کی گئی۔ڈاکٹر پیج جس فلیٹ میں مردہ پائی گئی تھیں وہاں اُن کے کمرے میں موجود لحاف پر پائے گئے مادہ منویہ (منی) کے سیمپل (نمونے) اُن کے سابق شوہر ہیرسن کے ڈی این اے پروفائل سے میل کھا گئے۔ فرانزک ماہرین کے مطابق ڈی این اے سیمپل کسی دوسرے مرد کے مقابلے میں ہیریسن کے ہونے کے 590 ملین گنا زیادہ امکان تھا۔ان شواہد کے بعد ہیریسن کو 27 مارچ 2020 کو دوبارہ پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا جہاں انھوں نے یہی بات دہرائی کہ ان کا اپنی سابقہ بیوی کی موت سے کوئی تعلق نہیں۔لیکن پیج کی موت کے چار دہائیوں سے زائد عرصے کے بعد ہیریسن پر اپنی بیوی کے قتل کے کیس میں فردِ جرم عائد کی گئی۔مارچ 2023 میں اُن کا مقدمہ 10 روز تک لگاتار سُنا گیا اور انھیں اپنی بیوی کے قتل کا مجرم پایا گیا۔ ہیریسن کو عمر قید کی سزا سنائی گئی اور انھیں پیرول کے لیے درخواست دینے سے پہلے کم از کم 20 سال انتظار کرنا پڑے گا یعنی آئندہ 20 سال تک وہ جیل سے باہر نہیں آ سکیں گے۔انسپکٹر جیمز کیلینڈر نے بطور سینیئر تفتیشی افسر پیج کے قتل کے کیس کی تفتیش کی۔ انھوں نے بی بی سی سکاٹ لینڈ نیوز کو بتایا کہ ہیریسن کو قتل کے 40 سال بعد گرفتار کیے جانے کی توقع نہیں تھی۔’میرے خیال میں اُن کی غیرمعمولی ذہانت ہی اُن کے زوال کی وجہ بنی کیونکہ اُن کو لگتا تھا کہ وہ بہت ہوشیار ہیں اور 40 سال گزرنے کے باوجود سزا سے بچ گئے ہیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ ہیریسن کے پولیس کو دیے گئے انٹرویو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کافی حد تک انھوں نے اپنے خلاف خود ہی ثبوت فراہم کیے لیکن یہ سب کرتے ہوئے انھیں احساس نہیں ہوا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔’اور ان کو لگتا تھا کہ وہ دوسروں سے کہیں زیادہ ذہین ہیں، اور وہ سزا سے بچ سکتے ہیں، اور ظاہر ہے کہ ایسا نہیں تھا کیونکہ جب آپ پورے انٹرویو کو دیکھتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کیسے انھوں نے خود کو گنہگار قرار دیا۔‘ہیریسن اور پیج سنہ 1972 میں نوجوان سائنسدان تھے جب انھوں نے آپس میں شادی کی۔ لیکن چار سال بعد ہی دونوں میں علیحدگی ہو گئی۔ ڈاکٹر پیج نے اپنا ایک الگ فلیٹ لے لیا اور سنہ 1977 میں ان کی طلاق ہو گئی۔ڈاکٹر پیج شادی کے دوران اکثر ناخوش ہونے کی شکایت کرتیں تھیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اپنے شوہر سے خوفزدہ ہیں۔جب انسپیکٹر کیلینڈر سے پوچھا گیا کہ آخر یہ کیس عدالت تک کیسے گیا، تو اُن کا کہنا تھا کہ گھریلو زیادتیوں کے بارے میں بہتر تفہیم اس کی ایک وجہ بنی۔ان کا کہنا تھا کہ 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں گھریلو تشدد کو اکثر برداشت کیا جاتا تھا۔،تصویر کا ذریعہPAGE FAMILY
،تصویر کا کیپشنبرینڈا پیج کو 1978 میں قتل کر دیا گیا تھا
‘اور یہ صرف خاندانوں تک محدود نہیں تھا بلکہ پولیس، معاشرے اور اداروں میں بھی یہ قابلِ قبول تھا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ شکر ہے کہ کافی حد تک اب یہ ختم ہو گیا ہے اور شاید اس ہی وجہ سے یہ کیس حل ہو سکا۔ انھوں نے کہا کہ سنہ 1978 میں قتل کی تحقیقات کرنے والی پولیس نے ’اتنا ہی اچھا کام کیا جتنا آج ہم نے کیا۔‘’اس سب کا اصل دارومدار معاشرے پر ہے۔ کیا 1978 میں معاشرے نے برینڈا کو ناکام کیا؟ ممکنہ طور پر ایسا ہی ہوا، لیکن آپ اسے 2024 میں ایک مختلف نقطہ نظر سے دیکھ رہے ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنپیج کا قتل سکاٹ لینڈ کے شہر ایبرڈین میں ہوا
ڈاکٹر پیج کے 59 سالہ بھتیجے کرس لنگ روزانہ ہیریسن کے مقدمے کے سماعت کے لیے عدالت آتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک عجیب احساس تھا کہ وہ شخص جس پر آنٹی برینڈا کے قتل کا الزام ہے، وہ ہمارے درمیان گھوم رہا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ وہ وہیں کہیں ہے۔‘’اگر سچ کہوں تو یہ واقعی ایک تکلیف دہ احساس ہے۔ کوئی بھی چیز آپ کو اس لمحے کے لیے تیار نہیں کر سکتی جب آپ اسے (قاتل) دیکھتے ہیں۔‘’جیسے وہ مجھے یاد تھے وہ اس سے بہت مختلف دکھ رہے تھے۔ وہ بہت بوڑھے لگ رہے تھے، ان کا چہرہ آپ کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ برینڈا زندہ ہوتیں تو کیسی دکھائی دیتیں۔‘،تصویر کا ذریعہPAGE FAMILY
،تصویر کا کیپشنبرینڈا پیج (بائیں طرف) اپنی والدہ اور بہن کے ہمراہ
88 سالہ ریٹا لنگ برینڈا پیج کی بہن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس امید میں برسوں گزارے ہیں کہ پولیس ان کی بہن کے قاتل کو سزا دینے کے لیے درکار ثبوت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔انھوں نے کہا کہ ڈی این اے کی تکنیک میں بہتری کے ساتھ ہی ہمیں امید کی تھوڑی بہت کرنیں ملتی رہیں۔’انھوں نے کوشش کی اور ہم اس کے لیے ان کے بہت شکر گزار ہیں۔ لیکن ہر چیز کے ہو جانے کی امید نہیں رکھ سکتے۔ آپ صرف امید کرتے ہیں کہ بالآخر اس سے کچھ نہ کچھ نکلے گا۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ بہت عرصے تک اپنی بہن کو یاد کرتی رہیں۔ لنگ کہتی ہیں کہ ان کے پاس کسی شادی میں لی گئی ایک تصویر ہے جس میں درمیان میں ان کی والدہ ہیں اور برینڈا اور وہ ان کے دونوں اطراف ہیں۔ہم تینوں نے مل کر بہت کچھ کیا اور اب ایسا لگتا ہے کہ وہاں اب ایک خلا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}