- مصنف, ویژوئل جرنلزم ٹیم
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- ایک گھنٹہ قبل
اسرائیل اور لبنان میں شیعہ عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ کی لڑائی میں ڈرامائی طور پر اضافہ اُس وقت ہوا جب اسرائیلی فوج نے جنوبی لبنان پر زمینی حملہ شروع کر دیا۔اسرائیل کی زمینی کارروائی ایک فضائی حملے میں ایران کے حمایت یافتہ گروپ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی ہلاکت کے چند دن بعد پیر کی رات کو شروع ہوئی تھی۔لبنان گذشتہ دو ہفتوں سے اسرائیلی طیاروں کی شدید بمباری کا سامنا کر رہا ہے جس میں لبنانی حکام کے مطابق 1,000 سے زیادہ افراد ہلاک اور دس لاکھ بےگھر ہو چکے ہیں۔ اُدھر حزب اللہ نے بھی شمالی اسرائیل پر سینکڑوں راکٹ داغے ہیں۔اسرائیل کی حزب اللہ کے ساتھ تنازعات کی دہائیوں پرانی تاریخ ہے، لیکن غزہ کی جنگ کے بعد سے فریقین کے درمیان لڑائی تقریباً ایک سال سے جاری ہے۔
ہم اس مضمون میں نقشوں کی مدد سے اس تنازع کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اور اِن نقشوں کو مسلسل اپ ڈیٹ کیا جاتا رہے گا۔
لبنان کہاں واقع ہے؟
لبنان ایک چھوٹا ملک ہے جس کی آبادی تقریباً 55 لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ اس کی سرحدیں شمال اور مشرق میں شام، جنوب میں اسرائیل اور مغرب میں بحیرۂ روم سے ملتی ہیں۔ یہ قبرص سے تقریباً 170 کلومیٹر (105 میل) دور ہے۔
اسرائیلی فوج کہاں پیش قدمی کر رہی ہے؟
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ جنوبی لبنان میں ’محدود اور ہدف بنا کر زمینی چھاپے‘ مار رہی ہے تاکہ وہ حزب اللہ کے ’دہشت گردانہ ڈھانچے‘ کو ختم کر سکے۔شمالی اسرائیل میں موجود بی بی سی کے نک بیک کا کہنا ہے کہ بدھ کو، لبنان پر زمینی حملے کے دوسرے دن، اسرائیلی فوجیوں کا پہلی بار حزب اللہ کے جنگجوؤں سے سامنا ہوا۔،تصویر کا ذریعہReuters
جنوبی لبنان میں زمینی کارروائی اسرائیلی افواج کے لیے بہت سے خطرات بھی لائی ہے۔ غزہ کے ہموار ساحلی میدانی علاقوں کے برعکس، جنوبی لبنان میں پہاڑیاں اور چٹانی علاقے ہیں جس کی وجہ سے ٹینکوں کے لیے گھات لگائے جانے کے خوف کے بغیر آسانی سے حرکت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ حزب اللہ نے اس خطے میں سرنگوں کا جال بچھایا ہوا ہے۔ یہ گروپ 2006 میں 34 روزہ جنگ کے بعد سے اسرائیل کے ساتھ ایک اور مکمل لڑائی کی تیاری کرتا رہا ہے۔اسرائیلی فوج نے جنوبی لبنان کے کچھ دیہات میں رہنے والے لوگوں کو انخلا کا حکم دیا ہے اور باقی لوگوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے گھر چھوڑ دیں اور فوری طور پر دریائے عولی کے شمالی علاقے کی طرف چلے جائیں جو اسرائیل کی سرحد سے تقریباً 50 کلومیٹر دور ہے۔ لبنانی شہریوں کو بھی اسرائیلی فوج کی طرف سے متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ دریائے لطانی کے اس پار جنوب میں سفر کرنے کے لیے گاڑیوں کا استعمال نہ کریں، جو سرحد سے تقریباً 30 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔تقریباً ایک سال قبل تنازعہ بڑھنے سے پہلے تقریباً دس لاکھ لوگ جنوبی لبنان میں رہتے تھے۔ ستمبر کے اواخر میں خطے میں اسرائیلی فضائی حملوں میں شدت آنے کے بعد سے دسیوں ہزاروں ایسے افراد شمال کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں۔بدھ کے روز اسرائیلی کے فضائی دفاعی نظام بھی میدان میں ایک بار پھر اترے جب پورے دن میں اسرائیلی فوج کے مطابق جنوبی لبنان سے شمالی اسرائیل کی طرف 240 سے زیادہ راکٹ فائر کیے گئے۔
اسرائیلی فضائی حملے
جنوبی لبنان پر اسرائیل کا زمینی حملہ تقریباً دو ہفتے جاری رہنے والے شدید فضائی حملوں کے بعد ہوا ہے جن میں اسرائیلی فوج کے مطابق جنوبی لبنان، مشرقی وادی بقاع اور بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقوں میں حزب اللہ کو نشانہ بنایا گیا۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حزب اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے، جن میں ہتھیاروں کے ذخیرے اور گولہ بارود کے گودام شامل ہیں لیکن لبنانی حکام کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں 100 سے زیادہ خواتین اور بچے بھی مارے گئے ہیں۔جنوبی لبنان سے فرار ہونے کی کوشش کرنے والے لبنانی شہریوں کے لیے، شمال کا مرکزی راستہ ایک ساحلی سڑک ہے جو ملک کے طول و عرض سے گزرتی ہے لیکن حالیہ دنوں میں اس راستے سے ملحقہ علاقوں کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔حزب اللہ کی طرف سے حال ہی میں داغے گئے راکٹوں کی اکثریت نے اسرائیل کے شمالی علاقوں کو نشانہ بنایا ہے۔ لیکن کچھ راکٹ جنوب میں بھی دور تک پہنچے ہیں اور ساحلی شہر حیفہ کے قریب مکانات نشانہ بنے ہیں۔بیروت پر اسرائیلی حملوں کا مرکز جنوبی مضافاتی علاقہ دحیہ ہے جو ایک گنجان آباد علاقہ ہے۔ یہاں ہزاروں شہری رہتے ہیں تاہم حزب اللہ کی موجودگی بھی ہے۔اسرائیل اب خطے کے کئی ممالک میں مسلح افواج اور غیر ریاستی مسلح گروہوں کے ساتھ لڑائی میں مصروف ہے، جن میں ایران، شام اور لبنان، غزہ، عراق، شام اور یمن میں سرگرم ایران کے حمایت یافتہ گروہ شامل ہیں۔اسرائیل پر ایران کا بیلسٹک میزائل حملہ اس لڑائی میں تازہ ترین بڑا اضافہ تھا۔اس کے بعد آگے کیا ہوتا ہے یہ واضح نہیں ہے لیکن اسرائیل نے جواب دینے کا عزم کیا ہے۔ وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے اس حملے کو ’ایک بڑی غلطی‘ کے طور پر بیان کیا ہے جس کی ایران کو ’خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.