ایران کے دیرینہ دعوے کے باوجود کہ حزب اللہ اس کی ’آخری حد‘ ہے اور اگرچہ حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ نے حال ہی میں اعلان کیا کہ اسرائیل نے ’تمام حدیں عبور کر لی ہیں‘، ایران نے عملی یا جارحانہ ردعمل کے کوئی آثار نہیں دکھائے۔ حتیٰ کہ اسرائیل کے خلاف انتقامی کارروائیوں اور دھمکیوں کی حسب معمول شعلہ بیانی بھی سامنے نہیں آئی۔
ایرانی حکام کیا کہہ رہے ہیں؟
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesاس سلسلے میں ایران کہاں کھڑا ہے اس کا سراغ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کرنے والے ایرانی صدر مسعود پزشکیان کے حالیہ بیانات میں مل سکتا ہے۔بلومبرگ کے مطابق امریکی نامہ نگاروں کے ساتھ ایک ملاقات میں ایرانی صدر نے ایک غیرمعمولی بیان دیا، جس میں تجویز کیا گیا کہ اگر اسرائیل ہتھیار رکھ دیتا ہے تو ایران بھی ایسا کرنے پر غور کرے گا۔یہ تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد دو ماہ سے بھی کم عرصہ قبل ایران کے موقف کے بالکل برعکس ہے، جہاں ایران نے اسرائیل کے خلاف سخت انتقام کا عزم کیا تھا۔نیویارک میں یہ نیا زیادہ مفاہمانہ موقف اتنا اہم تھا کہ اس نے ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی کو ان خبروں کی سختی سے تردید کرنے پر مجبور کیا کہ تہران اسرائیل کے ساتھ تعلق بہتر بنانے کے لیے تیار ہے۔منگل کو جب ایرانی صدر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا تو انھوں نے غزہ میں اسرائیل کی جنگ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور متنبہ کیا کہ لبنان پر اس کے حملوں کی توجیح نہیں پیش کی جا سکتی۔لیکن اپنے سخت گیر پیشروؤں کے مقابلے میں صدر پزشکیان کا لہجہ زیادہ مصالحتی تھا اور انھوں نے اسلامی جمہوریہ کے روایتی دشمن کو ختم کرنے کے بارے میں بیان بازی سے گریز کیا۔انھوں نے کہا کہ ’ہم سب کے لیے امن چاہتے ہیں اور کسی بھی ملک کے ساتھ تصادم کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔‘سابق وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے، جو اب نائب صدر ہیں، سوشل میڈیا پر صدر پزشکیان کے بیان کا دفاع کرتے ہوئے، جہاں صدر کی جانب سے ’اسرائیلی جرائم‘ کی مذمت کی طرف اشارہ کیا وہیں ایران کو ’امن کا چیمپیئن‘ اور خطے میں جوہری اسلحہ میں تخفیف کے حامی کے طور پر پیش کیا۔جواد ظریف نے اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ ایران کے ارادوں کے بارے میں ’خطرناک اور غلط بیانیہ‘ آگے بڑھا رہا ہے اور بنیادی طور پر یہ کہا کہ ایران، اسرائیلی دعوؤں کے برعکس، جنگ نہیں چاہتا۔خود صدر پزشکیان نے امریکی نامہ نگاروں سے اپنی بات چیت میں واضح طور پر کہا کہ ’ہم جنگ نہیں چاہتے‘۔ انھوں نے اسرائیل پر الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایران کو ایک ایسے تنازعے میں کھینچنے کے لیے جال بچھا رہا ہے جس میں کسی کی جیت نہیں ہو گی۔‘
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ایران میں اقتدار ملک کے رہبِر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای اور پاسداران انقلاب کے ہاتھوں میں ہے اور اہم سٹریٹجک فیصلے صدر نہیں بلکہ وہ کرتے ہیں۔آیت اللہ علی خامنہ ای کے قریبی قدامت پسندوں نے اسرائیل کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کی بات کرنے پر صدر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انھیں براہ راست انٹرویو دینے سے گریز کرنا چاہیے۔تاہم خود آیت اللہ علی خامنہ ای نے، جو تاریخی طور پر اسرائیل اور امریکہ کے بارے میں سخت ترین خیالات رکھتے ہیں، حزب اللہ کے مواصلاتی آلات کو نشانہ بنائے جانے کے تین دن بعد، اپنی تازہ ترین عوامی تقریر میں لبنان کا صرف ایک بار مختصراً ذکر کیا۔اس کے برعکس انھوں نے اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے ’پہلے قدم‘ کے طور پر ’اسلامی اتحاد‘ پر زور دیا اور مسلم ممالک کے درمیان اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی تعلقات منقطع کرنے کے لیے جانے پہچانے مطالبات کا اعادہ کیا۔ایران کے پاسداران انقلاب کے دیگر اعلیٰ حکام اور کمانڈروں نے بھی اپنے ملک اور اس کے اہم اتحادیوں حماس اور حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کے اقدامات کا بدلہ لینے کے ارادوں کا اظہار کرتے ہوئے غیر معمولی طور پر تحمل کا مظاہرہ کیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesاس تبدیلی کی عکاسی ایرانی حکومت کے حامی میڈیا میں بھی ہوئی، جو روایتی طور پر ایران سے اسرائیل کے خلاف انتقام کا مطالبہ کرتا رہتا ہے۔ کچھ سخت گیر آوازیں اور ادارے اب اسرائیل کے خلاف مسلم اتحاد جیسے نظریات پر زیادہ توجہ مرکوز کر رہے ہیں جبکہ اس طرح کی تجاویز کئی دہائیوں تک بے اثر رہی ہیں۔اگرچہ ان میں سے بہت سے ذرائع ابلاغ اب بھی جارحانہ سرخیوں اور بڑے میزائلوں کی تصاویر استعمال کرتے ہیں، اسرائیل پر ایران کے ناکام میزائل حملوں اور تہران میں ہنیہ کے قتل کے بعد سامنے آنے والا حالیہ مہینوں کا انتقامی لہجہ ان میں سے غائب ہے۔مثال کے طور پر، انتہائی قدامت پسند اخبار کیہان نے ’الٹی گنتی شروع ہو گئی!‘ کے عنوان سے حال ہی میں ایک اداریہ شائع کیا لیکن اسی مضمون میں ہی، اسرائیل کی ’ٹیکنالوجی اور انٹیلیجنس کے معاملات میں برتری‘ کا ایک کھلا اعتراف ہے، جس کی وجہ مغربی حمایت کو قرار دیا گیا جبکہ حزب اللہ کو صرف ایران، فلسطین، یمن اور عراقی مزاحمتی گروپوں کا حمایت یافتہ بیان کیا گیا۔کیہان کی طرف سے اس طرح کا لہجہ تجویز کر سکتا ہے کہ پیچیدہ کارروائیوں، جیسے کہ حزب اللہ کے مواصلاتی آلات کو سبوتاژ کرنا جو اسرائیل کے تیز اور مہلک حملوں کا پیش خیمہ تھا، نے نہ صرف حزب اللہ کو حیرت میں ڈال دیا بلکہ ایران کی قیادت کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا۔اس صورتحال کو انتقام کے وعدوں سے پسپائی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے تاہم کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک نپے تلے وقفے کا اشارہ ہے اور ایران ممکنہ طور پر ایک حیران کر دینے والا دھچکہ دینے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔اگرچہ اس طرح کے اقدام کا فی الحال کوئی امکان نظر نہیں آتا لیکن مشرق وسطیٰ طویل عرصے سے غیر متوقع پیشرفت کا خطہ رہا ہے۔ادھر کچھ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ایران اسرائیل کے ساتھ حزب اللہ کے تنازعے میں براہ راست مداخلت سے باز رہتا ہے تو اس سے خطے کی دیگر اتحادی ملیشیاز کو یہ پیغام جانے کا خطرہ ہے کہ بحران کے وقت وہ اپنی بقا اور مفادات کو ان پر ترجیح دے سکتا ہے اور اس سے خطے میں ایران کا اثر و رسوخ اور اتحاد کمزور ہو سکتے ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.