لبنان میں اسرائیلی حملوں نے حزب اللہ کو ’اشتعال‘ دلایا: یہ تنظیم اسرائیل پر حملے کے لیے کتنی تیار ہے؟
بدھ کے روز اسرائیل کے وزیر خارجہ یوو گلانت نے ’جنگ میں ایک نئے مرحلے‘ کا اعلان کیا تھا۔اس تحریر میں ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اب آگے کیا ہو سکتا ہے؟
اسرائیل مزید حملے کر سکتا ہے
اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ جمعرات کے روز اس کے جنگی طیاروں نے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے 100 سے زیادہ راکٹ لانچروں اور دیگر ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ جن لانچروں کو نشانہ بنایا گیا انھیں اسرائیلی علاقوں پر حملے کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔ فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا ان حملوں کے نتیجے میں کوئی جانی نقصان ہوا یا نہیں۔لبنان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے جمعرات کی شام ملک کے جنوب میں کم از کم 52 حملے کیے تھے۔ خبر رساں ایجنسی کے مطابق لبنان نے بھی شمالی اسرائیل میں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔لبنان کے وزیر صحت فراس عبیاد نے کہا ہے کہ لبنان کو بدترین صورتحال کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔ انھوں نے کہا کہ ’حالیہ دو حملوں سے ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل سفارتی حل کا ارادہ نہیں رکھتا۔ میرے خیال میں ہمیں بدترین صورتحال کے لیے تیاری کرنا ہو گی۔‘’میں جانتا ہوں کہ میری حکومت کا اس بارے میں موقف واضح ہے۔ پہلے دن سے لبنان جنگ نہیں چاہتا۔‘
عرب امور کے تجزیہ کار ایہود یاری کا کہنا ہے کہ ان حملوں نے حزب اللہ اور اس کے گائیڈڈ میزائلوں کے وسیع ذخیرے کے خلاف اسرائیل کو فیصلہ کن کارروائی کرنے کا ایک ’نادر موقع‘ دیا ہے۔حزب اللہ کا مواصلاتی نظام کام نہیں کر رہا جبکہ اس کے بہت سے جنگجو زخمی ہیں۔ایہود یاری کے مطابق یہ موجودہ صورتحال جلد بہتر ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ ’آسان زبان میں حزب اللہ لبنان میں سنہ 2006 کی جنگ ختم ہونے کے بعد اب تک کی سب سے بدترین حالت میں ہے۔‘بی بی سی کے دفاعی نامہ نگار پال ایڈمز کہتے ہیں کہ غزہ میں جنگ ابھی جاری ہے لیکن اس کے باوجود اسرائیلی فوج کی توجہ اب شمال کی جانب منتقل ہو چکی ہے تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں کہ اسرائیل اس نادر موقعے کا کیسے فائدہ اٹھاتا ہے۔،تصویر کا ذریعہEPA-EFE/REX/Shutterstock
حزب اللہ اسرائیل پر حملہ کر سکتا ہے؟
لبنانی عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ نے اسرائیل کو واکی ٹاکی اور پیجر حملوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سکیورٹی نظام میں نقب لگائی گئی۔ اسرائیل نے الیکٹرانک ڈیوائس دھماکے کر کے تمام حدیں پار کر دی ہیں۔‘حزب اللہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت ختم ہونے تک لبنان پیچھے نہیں ہٹے گا۔ حسن نصر اللہ نے خطاب کے دوران حزب اللہ کی جوابی حکمت عملی سے متعلق بھی بتایا۔حسن نصراللہ کے مطابق ’اسرائیلی حملوں کا جواب اس انداز سے دیا جائے گا جو شاید ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا۔انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’میں جگہ، وقت، مقام، تفصیلات کے بارے میں بات نہیں کروں گا لیکن آپ کو پتہ چل جائے گا کہ یہ کب ہوگا۔‘انھوں نے کہا کہ ’ان تمام لوگوں کے نام جو ہلاک ہوئے، جو زخمی ہوئے، ان تمام لوگوں کے نام جو غزہ کے نام پر لڑے، ہم نیتن یاہو اور اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ سمیت تمام دشمنوں کو پیغام دیتے ہیں کہ لبنان اپنے محاذ سے اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹے گا جب تک غزہ میں جارحیت رک نہ جائے۔‘حسن نصر اللہ نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ حزب اللہ کو جو نقصان ہوا، اس کی نظیر نہیں ملتی تاہم ان کے مطابق تنظیم کے احکامات دینے اور کمیونیکیشن کا نظام اپنی جگہ قائم ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ سب کیسے ہوا، یہ جاننے کے لیے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔برطانوی تھنک ٹینک ’چیتھم ہاؤس‘ سے منسلک امجد عراقی کے مطابق ’اسرائیل نے ان حملوں سے حزب اللہ کو ’اشتعال‘ دلایا، جس سے زیادہ شدید علاقائی تنازع پیدا ہونے کے امکان بڑھ گئے ہیں۔‘انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’حزب اللہ اب ایک ایسی صورتحال میں ہے جہاں اس پر جوابی کارروائی کا دباؤ ہے اور اس کے نتیجے میں اسرائیلی فوج کو ممکنہ زمینی حملے کے لیے ایک طرح کا بہانہ مل جائے گا۔‘انھوں نے کہا کہ ’اسرائیل غزہ میں اپنے بنیادی مقاصد حاصل نہیں کر سکا اور اس کے نتیجے میں ایسی صورتحال پیدا ہوئی، جس سے اسرائیل کو اب لگتا ہے کہ اسے حزب اللہ کے ساتھ شمالی محاذ پر لڑائی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘
ان حملوں سے حزب اللہ واقعی کمزور ہو سکتا ہے؟
بی بی سی فارسی کی نامہ نگار نفیسہ نفیسہ کوہنورد بیروت میں ہیں اور وہیں انھوں نے حسن نصر اللہ کی تقریر سنی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’یہ حقیقت ہے کہ حزب اللہ پر یہ حملے بہت بڑا دھچکہ تھے۔ نصر اللہ نے کہا کہ یہ حزب اللہ کے لیے ’بڑا امتحان‘ ہے جس کا انھوں نے پہلے کبھی سامنا نہیں کیا۔وہ کہتی ہیں کہ ’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے لیے صورتحال کتنی مشکل ہے۔ زخمی ہونے والے زیادہ تر رکن انتہائی تربیت یافتہ جنگجو ہیں۔‘ بی بی سی نامہ نگار کے مطابق ’ان حملوں کا حزب اللہ پر اثر تو ہوا تاہم وہ مزید کارروائی کرنے سے نہیں رکیں گے۔‘یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حزب اللہ کے اتحادی ایران، نیم فوجی عراقی شیعہ گروپس اور یمن کے حوثی باغیوں کا کہنا ہے کہ ان کے لیے صرف حزب اللہ ہی نہیں بلکہ لبنان بھی ریڈ لائن ہے۔بی بی سی سے بات کرنے والے نیم فوجی گروپ کے ایک رکن نے ذکر کیا کہ وہ پہلے سے ہی لبنان آ جا رہے ہیں اور ان کے جنگجو حزب اللہ کی مدد بھی کر رہے ہیں۔بی بی سی نامہ نگار کے مطابق یہ گروہ برسوں تک شام میں بھی لڑائی کا حصہ رہے اور اب حزب اللہ ان کی مدد پر انحصار کر سکتا ہے۔ تو اگرچہ لبنان میں حملے موثر رہے لیکن اس کے باوجود حزب اللہ کے پاس خطے میں گہری حمایت موجود ہے۔ ،تصویر کا ذریعہ EPA-EFE/REX/Shutterstock
لبنان میں پیجر دھماکے کسی وسیع تر حکمتِ عملی کا حصّہ نہیں تھے
بی بی سی کے سکیورٹی نامہ نگار گورڈن کوریرا نے بتایا کہ ایک دلیل کے مطابق اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے پڑوسی ملک لبنان کے ساتھ تنازع کی صورت میں ان آلات کو استعمال کرنے کے لیے خود کو تیار رکھا ہوا تھا۔تاہم حزب اللہ کو پیجرز کے بارے میں شک ہو گیا جس کے بعد موساد کو ان کے استعمال کے بارے میں فیصلہ کرنا تھا۔ ان حالات کے پسِ منظر میں موساد نے منگل کو پیجرز اور بدھ کو واکی ٹاکی سے دھماکے کر دیے۔بی بی سی کے سکیورٹی نامہ نگار کے مطابق اگر یہ نظریہ درست ہے تو یہ کہنا مشکل ہے کہ کہیں یہ ایک وسیع پلان کا حصّہ تو نہیں۔برطانوی تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس کے امجد عراقی کا کہنا ہے کہ پیجرز اور واکی ٹاکی کو دھماکہ خیز بنانے کا پلان سالوں سے نہیں تو کم از کم مہینوں سے تو بن رہا تھا۔تاہم یہ دھماکے اس وقت کیوں ہوئے، اس بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق حزب اللہ کو معلوم ہو گیا تھا کہ ان پیجرز میں کچھ تو گڑبڑ ہے۔‘کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ ایک سٹریٹیجک اور ٹھوس کوشش تھی ’کیونکہ اسرائیل غزہ میں اپنی کارروائیوں کو آہستہ آہستہ کم کر رہا ہے اور اب اس کی توجہ لبنان کی طرف بڑھ رہی ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.