- مصنف, شائمہ خلیل اور روپرٹ ونگفیلڈ ہیس
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 28 منٹ قبل
واکی ٹاکیز بنانے والی ایک جاپانی کمپنی نے لبنان میں ان کے تیار کردہ واکی ٹاکیز پھٹنے کے واقعے کے بعد خود کو اس سے علیحدہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمپنی نے ایک دہائی قبل اس ماڈل کے واکی ٹاکیز بنانے بند کر دیے تھے۔بدھ کے روز لبنان میں سینکڑوں واکی ٹاکیز، جن میں سے کچھ مبینہ طور پر مسلح گروپ حزب اللہ کے زیر استعمال تھے، کے پھٹنے کے بعد کم از کم 20 افراد ہلاک اور 450 زخمی ہوئے۔اس واقعے کے بعد منظر عام پر آنے والی تصاویر اور ویڈیوز میں جو واکی ٹاکیز دکھائی دیے ہیں وہ بظاہر جاپان کے شہر اوسکا کی ایک ٹیلی کمیونیکشن کمپنی آئی کام کے تیار کردہ آئی سی وی 82 ماڈل واکی ٹاکیز ہیں۔مگر آئی کام کمپنی کا کہنا ہے کہ اس نے دس سال سے نہ تو اس ماڈل کے واکی ٹاکیز اور ان کی بیٹریاں تیار کی ہیں اور نہ ہی انھیں برآمد کیا ہے۔
اس ہفتے لبنان میں پیجر اور واکی ٹاکیز پھٹنے کے حملوں میں یہ دوسری ایشیائی کمپنی ہے جس کا نام سامنے آ رہا ہے۔آئی کام نے بی بی سی کو بتایا اسے لبنان میں ان کے لوگو والے واکی ٹاکیز کے پھٹنے کا علم ہے اور وہ اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔آئی کام نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’واکی ٹاکیز ماڈل آئی سی وی 82 کو سنہ 2004 سے اکتوبر 2014 کے عرصے کے دوران تیار کیا گیا اور مشرق وسطیٰ برآمد کیا گیا تھا۔ اس کی تیاری تقریباً دس برس قبل بند کر دی گئی تھی اور اس وقت سے اسے کمپنی نے کہیں برآمد نہیں کیا۔‘کمپنی کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ان واکی ٹاکیز کو قابل استعمال بنانے کے لیے درکار بیٹریوں کی پیداوار کو بھی بند کر دیا گیا اور ان پر جعلی مصنوعات کی تفریق کے لیے ایک ہولوگرام مہر منسلک نہیں تھی، اس لیے یہ تصدیق کرنا ممکن نہیں ہے کہ آیا پروڈکٹ ہماری کمپنی سے بھیجی گئی ہے۔‘
آئی کام کمپنی کا مزید کہنا ہے کہ اس کے تمام ریڈیو (واکی ٹاکیز) جاپان میں قائم فیکٹری میں ہی تیار ہوتے ہیں اور وہ دیگر ممالک میں اپنی مصنوعات صرف مصدقہ ڈسٹربیوٹرز کے ذریعے ہی فروخت کرتا ہے۔اس سے قبل امریکہ میں آئی کام کی ذیلی کمپنی کے ایک سیلز ایگزیکٹو نے امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس کو بتایا کہ لبنان میں پھٹنے والے واکی ٹاکیز بظاہر جعلی معلوم ہوتے ہیں جنھیں کمپنی کی جانب سے تیار نہیں کیا گیا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آن لائن جعلی ورژن تیار کرنا بہت آسان ہے۔انھوں نے کہا کہ ان واکی ٹاکیز کو زیادہ تر شوقیہ ریڈیو آپریٹرز، بگولوں اور سمندری طوفانوں سے باخبر رہنے والے افراد یا سماجی اور ہنگامی مواصلات میں استعمال کرنے کے لیے پسند کیا جاتا ہے۔بی بی سی کو آئی کام کے آئی سی وی 82 ماڈل کے واکی ٹاکیز کی آن لائن فروخت کو تلاش کرنے میں چند ہی منٹ لگے۔یہ واضح نہیں ہے کہ سپلائی چین کے کس مقام پر اور کیسے ان آلات سے چھیڑ چھاڑ کی گئی ۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا ان میں سے کچھ محض جعلی IC-V82s تھے جیسا کہ مسٹر نوواک نے دعوی کیا ہے۔لبنان کے اننہار نامی اخبار نے بدھ کو رپورٹ کیا کہ آئی کام کے واکی ٹاکیز پرانے تھے۔اس رپورٹ میں ایک سکیورٹی ذرائع کی خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ جو واکی ٹاکیز پھٹے انھیں حزب اللہ نے پانچ ماہ قبل خریدا تھا۔آئی کام کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق ’کمپنی بحری، ہوا بازی اور زمین پر مواصلات کے لیے واکی ٹاکیز اور ریڈیو آلات تیار کرتا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ امیچیور ریڈیو مارکیٹ میں خود کو عالمی لیڈر تصور کرتی ہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
پیجر بنانے والی تائیوانی کمپنی کا کیا کہنا ہے؟
اس سے قبل منگل کو ہوئے لبنان میں ہوئے پیجر دھماکوں میں ایک اور ایشیائی کمپنی کا نام سامنے آیا تھا۔ تائیوان کی کمپنی ’گولڈ اپولو‘ سے منسلک پیجرز دھماکوں میں کم از کم 12 افراد ہلاک جبکہ تین ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ دھماکوں میں مسلح گروپ حزب اللہ کے کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان دھماکوں نے مشرق وسطیٰ میں جیسے ایک طوفان برپا کر دیا ہے۔گولڈ اپولو کمپنی کے بانی نے ان پیجرز دھماکوں میں کمپنی کے کردار یا ملوث ہونے سے صاف انکار کیا ہے۔بدھ کے روز اپنے فرم کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے شو چن خوانگ نے کہا کہ ’آپ لبنان سے آنے والی تصویریں دیکھیں۔ ان (پیجرز) پر ایسا کوئی نشان نہیں جس سے ظاہر ہو کہ یہ ’میڈ ان تائیوان‘ یعنی تائیوان میں تیار کردہ ہیں۔ ہم نے یہ پیجرز نہیں بنائے!‘گولڈ اپولو کے دفاتر تائیوان کے دارالحکومت ٹائی پے کے گرد و نواح میں ایک بڑے سے بزنس پارک میں واقع ہیں۔یہ دفاتر ان ہزاروں چھوٹی چھوٹی ٹریڈنگ کمپنیز اور مینیو فیکچررز کے دفاتر کی طرح ہیں جن پر تائیوان کی معیشت انحصار کرتی ہے۔ گولڈ اپولو کے دفتر کی چوکھٹ پر دو پولیس اہلکار تعینات ہیں جو صحافیوں اور ٹی وی کے عملے کو بھگانے کے لیے کھڑے تھے۔جمعرات کی صبح کمپنی کی ویب سائٹ پر ایک ایک پیجر کا الگ پیج کھل رہا تھا جس پر اس کے فوائد اور استعمال کے بارے میں معلومات درج تھیں۔ تاہم جب لبنان دھماکوں میں استعمال ہونے والے پیجرز سے گولڈ اپولو کو مبینہ طور پر منسوب کیا گیا تو اس کی خبر آتے ہی ویب سائٹ بند ہو گئی تھی۔شو چن خوانگ کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جو پیجر بی اے سی کنسلٹنگ نے بنائے تھے، وہ پیجر لبنان کے دھماکوں میں استعمال کیے گئے ہیں۔انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ گولڈ اپولو نے تین سال قبل بی اے سی کنسلٹنگ کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔انھوں نے مزید بتایا کہ بی اے سی کی جانب سے ’بہت عجیب‘ طرح رقم موصول ہو رہی تھی۔ زیادہ تفصیلات بتائے بغیر انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ بی اے سی کی جانب سے ادائیگیوں میں مسئلے آ رہے تھے جو مشرقی وسطیٰ سے موصول ہو رہی تھیں۔اپنے پہلے دیے گئے بیان میں انھوں نے کہا تھا کہ بے اے سی گولڈ اپولو سے پیجرز خریدنا چاہ رہی تھی تاکہ ان کو یورپ میں فروخت کرے۔’ایک سال بعد انھوں نے نیا پلان بنایا کہ وہ اپنے پیجرز خود بنائیں گے تاہم لائسنس کے ساتھ نام گولڈ اپولو کا استعمال کریں گے۔‘کمپنی کے بانی شو چن خوانگ کا موقف ہے کہ انھوں نے اپنی کمپنی کا ٹریڈ مارک استعمال کرنے کا لائسنس ہنگری کی ایک ‘بی اے سی کنسلٹنگ’ نامی کمپنی کو دے دیا تھا۔ یہ کمپنی ‘گولڈ اپولو’ کا نام استعمال کر کے اپنے پیجرز خود بناتی ہے۔بی بی سی نے بی اے سی کنسلٹنگ سے رابطہ کرنے کی کوئی بار کوشش کی ہے تاہم تا حال کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔بی بی سی ویری فائی نے بیک کنسلٹنگ کی چھان بین کی، منگل کے پیجر دھماکوں میں اس کمپنی کا نام سامنے آیا تھا۔ بی بی سی کو پتا چلا کہ اس فرم کا ایک ہی شیئر ہولڈر ہے اور یہ ہنگری کے دارالحکومت بوداپیسٹ کے 14 ویں ضلع کی ایک عمارت میں رجسٹرڈ ہے۔اس عمارت کے نام پر بیک کے علاوہ 13 کمپنیاں اور ایک شخص بھی رجسٹرڈ ہے۔ بی بی سی ویری فائی نے ان کی مالی معلومات کے بارے میں بھی چھان بین کی تاہم ان کا کسی اور کمپنی یا شخص سے تعلق کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔،تصویر کا ذریعہJoy Chiang/ BBCگولڈ اپولو کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم صرف برانڈ کا ٹریڈ مارک استعمال کرنے کی اجازت فراہم کرتے ہیں۔ ان پیجرز کے ڈیزائن اور ان کو بنانے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔‘تاہم شو چن خوانگ کے دفتر میں موجود تائی پے انویسٹی گیشن بیورو کے کثیر تعداد میں موجود کارٹن اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ تائیوانی حکام کو مکمل تسلّی نہیں ہے۔بہر حال ممکن ہے کہ شو چن خوانگ کا بیان جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ان کی کمپنی نے یہ پیجر نہیں بنائے، اس دعوے میں حقیقت ہو۔تائیوان کا مینوفیکچرنگ نظام چھوٹی کمپنیوں کے ایک پیچیدہ بھول بھولیوں جیسا ہے۔ ان میں سے کئی کمپنیاں مصنوعات بنا کر فروخت نہیں کرتیں۔ ان کے پاس برانڈ کا نام اور انٹلیکچوئل پراپرٹی ہو سکتا ہے۔ ان کے پاس ریسرچ اور ڈیزائین کا ڈپارٹمنٹ ہو سکتا ہے۔ لیکن زیادہ تر مینیوفیکچرنگ چین میں یا جنوبی ایشیا میں واقع فیکٹریز میں ہوتی ہے۔ویسے پیجر بنانے کے لیے کوئی جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال نہیں ہوتی ہے۔ دنیا میں کئی کمپنیاں پیجرز بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔لیکن پچھلی دو دہائیوں میں سمارٹ فون کے عروج نے پیجرز کو معدومیت کے دہانے پر دھکیل دیا ہے۔ انھیں اب ہسپتالوں جیسی جگہوں پر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ اگر مواصلات کے نظام میں مسائل ہوں تو اس صورت میں بھی ڈاکٹرز اور نرسز کو پیغامات بھیجے جا سکتے ہیں۔سنہ 2000 کی دہائی کے آخر میں گولڈ اپولو نے بھی الیکٹرانک پیجرز بنانے سے دوری اختیار کرنی شروع کر دی تھی اور ریستورانوں میں کم فاصلے پر کام کرنے والے ریڈیو آلات بنانے شروع کیے۔یہ ممکن ہے کہ گولڈ اپولو کا قابل اعتماد نام ان پیجرز کی فروخت میں مفید ثابت ہوا ہو۔ یہ پیجرز حزب اللہ کے پاس بھی تھے۔ تاہم اس غیر معمولی صورتحال میں ابھی بھی بہت سے سوال جواب طلب ہیں۔بی اے سی کنسلٹنگ کے بارے میں ہمیں نہ ہونے کے برابر معلومات ہیں۔ اس کے پیچھے کون ہے؟ یا کون تھا؟ اگر گولڈ اپولو نے دھماکوں میں استعمال ہونے والے پیجرز نہیں بنائے تو پھر کس نے بنائے ہیں اور کہاں؟
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.