سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کردیا اور الیکشن کمیشن کو آج ہی انتخابی شیڈول جاری کرنے کا حکم دے دیا، لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست ناقابل سماعت قرار دے دی۔
عدالتی حکمنامے میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے کا حکم دیا اور عمیر نیازی کی درخواست ہائیکورٹ سے منگوالی۔
حکمنامے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ مناسب سمجھے گی تو خود درخواست سنے گی، درخواست گزار صرف سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتا تھا، درخواست گزار اور جج دونوں نے سپریم کورٹ فیصلے کو نظرانداز کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنا کام کرے ہم اپنا کام کریں گے، مائیکرو مینج نہیں کریں گے، الیکشن کمیشن نے صدر مملکت سے مشاورت کے بعد 8 فروری کی تاریخ دی۔
الیکشن کمیشن نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا، اپیل میں الیکشن کمیشن نے استدعا کی تھی کہ سپریم کورٹ 8 فروری کو انتخابات کروانے کے فیصلے پر عمل درآمد کروائے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کی۔ جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ بینچ میں شامل تھے۔
سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حمید نے سپریم کورٹ میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی، الیکشن کمیشن کی اپیل آرٹیکل 185 کے تحت تیار کی گئی، ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل اسی آرٹیکل کے تحت دائر کی جاتی ہے۔
میں فلائٹ لے کر چلا جاتا تو آپ کیا کرتے؟
سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی سے سوال کیا کہ کیا جلدی تھی کہ اس وقت آنا پڑا؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابات 8 فروری کو کروانے کے لیے آج درخواست لازم تھی،چیف جسٹس نے کہا کہ اگر میں فلائٹ لے کر چلا جاتا تو آپ کیا کرتے؟ ہم خدمت کے لیے حاضر ہیں۔
عدالتی حکم لکھوانے کے دوران خاتون وکیل کے روسٹرم پر آنے اور مداخلت پر چیف جسٹس برہم ہوگئے، سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے درخواست گزار عمیر نیازی کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا، جبکہ سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کو کارروائی سے روک دیا۔
حکمنامے میں کہا گیا کہ لاہور ہائیکورٹ کے سنگل جج نے 13 دسمبر کو حکم جاری کیا، 8 فروری کو انتخابات کروانے کا سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا، انتخابات کروانے سے متعلق درخواست گزاروں میں پی ٹی آئی بھی شامل تھی، الیکشن کمیشن کا کہنا ہے اگر ہائیکورٹ کا حکم برقرار رہتا ہے تو انتخابات 8 فروری کو نہیں ہو سکیں گے، الیکشن کمیشن کا مزید کہنا تھا کہ فاضل جج نے پیٹیشن ہی کا فیصلہ کردیا، الیکشن کمیشن کے مطابق فاضل جج نے چیف جسٹس کو لارجر بینچ بنانے کے لیے فائل بھجوادی۔
سپریم کورٹ کے حکمنامے میں کہا گیا کہ سنگل جج کے عدالتی حکم سے الیکشن کمیشن کا پورے پاکستان میں عمل رک گیا، الیکشن کمیشن کے مطابق سنگل جج نے لاہور ہائیکورٹ کے اختیار سماعت سے تجاوز آرڈر جاری کیا، سپریم کورٹ نےاپنےحکم میں قرار دیا تھا کسی کو جمہوریت ڈی ریل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
لاہور ہائیکورٹ کے 13 دسمبر کے حکم کی خلاف اپیل دائر کی گئی، درخواست میں الیکشن ایکٹ کے سیکشن 50 اور 51 غیر آئینی قرار دینے کی استدعا تھی، صدر مملکت اور الیکشن کمیشن نے عدالتی ہدایات پر 8 فروری کی تاریخ مقرر کی، تمام فریقین 8 فروری کی تاریخ پر متفق تھے۔
سپریم کورٹ کے حکمنامے میں مزید کہا گیا کہ وکیل الیکشن کمیشن کے مطابق عدالت نے پابند کیا تھا کوئی انتخابات میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا، انتخابات کے انعقاد کیلئے تعینات ڈی آر اوز اور آر اوز کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن معطل کیا گیا، جس سیاسی جماعت کی درخواست پر انتخابات کا حکم دیا گیا درخواست گزار اسی کا رکن ہے، سنگل جج لاہور ہائیکورٹ نے غیر معمولی عجلت میں فیصلہ دیا۔
حکمنامے میں کہا گیا کہ عمیر نیازی کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ وضاحت دیں کہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر کیوں نہ ان کےخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے، عدالت کو بتایا گیا کہ عمیر نیازی بیرسٹر ہیں اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بھی رہ چکے۔
سپریم کورٹ کے حکمنامے میں مزید کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق ہائیکورٹ کے حکم کے بعد انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں، وکیل کے مطابق ہائیکورٹ حکم کی وجہ سے الیکشن شیڈول جاری کرنا ممکن نہیں، سجیل سواتی کے مطابق ہائیکورٹ کے حکم میں تضاد پایا جاتا ہے، وکیل کے مطابق کیس لارجر بینچ کو بھیجتے ہوئے نوٹیفکیشن معطل کیا گیا۔
حکمنامے میں یہ بھی کہا گیا کہ لاہور ہائیکورٹ نے 1 ہزار 11 ڈی آر اوز، آر اوز اور اے آر اوز کو کام سے روکا، ہائیکورٹ نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ افسران نے ملک بھر میں خدمات انجام دینی ہیں، ہائیکورٹ نے اپنی حدود سے بڑھ کر حکم جاری کیا۔
عمیر نیازی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری
پی ٹی آئی کے درخواست گزار عمیر نیازی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جاتا ہے، عدالت نے استفسار کیا کسی ریٹرننگ افسر کے خلاف درخواست آئی تھی؟ الیکشن کمیشن نے بتایا کسی نے کوئی درخواست نہیں دی، عمیر نیازی اسی پارٹی سے ہیں جس نے انتخابات کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، عمیر نیازی کہتے ہیں وہ بیرسٹر ہیں تو انہیں سپریم کورٹ احکامات کا علم ہونا چاہیے تھا، بظاہر عمیر نیازی نے جمہوری عمل میں رکاوٹ ڈالی، عمیر نیازی جواب دیں کہ کیوں نہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے؟
سپریم کورٹ کے حکمنامے میں کہا گیا کہ لاہور ہائیکورٹ اس درخواست پر مزید کوئی کارروائی نہ کرے، عمومی طور پر سپریم کورٹ نوٹس جاری کیے بغیر حکم معطل نہیں کرتی، الیکشن کمیشن آج ہی انتخابی شیڈول جاری کرے، الیکشن کمیشن نےانڈرٹیکنگ دی کہ آج شیڈول جاری کردیا جائے گا۔
آج کے بینچ کے حوالے سے وضاحت کرنا چاہتا ہوں، چیف جسٹس پاکستان
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آج کے بینچ کے حوالے سے وضاحت کرنا چاہتا ہوں، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کےتحت اب بینچز تشکیل دیے جاتے ہیں ، میری خواہش تھی کہ موسٹ سینئرججز بینچ میں شامل ہوں ، میں نے موسٹ سینئر ججز کے نام بینچ کیلئے تجویز کیے تھے ، جسٹس اعجاز الااحسن مصروفیات کے باعث نہیں آ سکے، ہم نے جسٹس منصور علی شاہ کو پھر تکلیف دی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ آر اوز ڈی آر اوز بیورو کریسی سے لینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ لاہور ہائیکورٹ نے معطل کیا، لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے سے انتخابی عمل رک گیا ہے، پی ٹی آئی کے عمیر نیازی نے ہائیکورٹ میں اپیل کی، پی ٹی آئی نے کہا کہ آر اوز ، ڈی آر اوز کی تقرری کالعدم قرار دی جائے، اس حوالے سے لاہور ہائیکورٹ نے حکم امتناعی دے دیا، معذرت خواہ ہیں آپ کو تکلیف دی۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ریٹرننگ افسران کے لیے پہلی ترجیح اپنے افسران ہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے کہا ہے آئین کے آرٹیکل 218 تھری کے تحت شفاف الیکشن کرائے جائیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا آرٹیکل 218 تھری میں کچھ ایسا ہے کہ انتخابات شفاف نہیں ہو سکتے؟
وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی کاموقف ہے آر اوز ڈی آر اوز کی تعیناتی کے لیے چیف جسٹس ہائیکورٹ سے مشاورت کی جائے۔
وکیل نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے عدلیہ کو فروری میں جوڈیشل افسران کیلئے خط لکھا تھا، عدلیہ نے زیر التوا مقدمات کے باعث جوڈیشل افسران دینے سے معذوری ظاہر کی تھی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ کے خط کے بعد درخواست گزار کیا انتخابات ملتوی کروانا چاہتے تھے؟ وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے جواب نہیں دیا، پشاور ہائیکورٹ نے کہا جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی سے رجوع کریں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ درخواست گزار کہتے ہیں انتظامی افسران کی آر او تعیناتی ہمیشہ کیلئے ختم کی جائے، درخواست میں استدعا تھی کہ الیکشن کمیشن کو عدلیہ سے ریٹرننگ افسران لینے کی ہدایت کی جائے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اسفسار کیا کہ یہ شق تو کبھی بھی چیلنج کی جا سکتی تھی، اب کیوں کی گئی؟ کیا لاہور ہائیکورٹ نے سندھ، کے پی اور بلوچستان کے آر اوز کا نوٹیفکیشن بھی معطل کردیا؟
ہائیکورٹ اپنی ہی عدالت کے خلاف رٹ کیسے جاری کر سکتی ہے؟ چیف جسٹس
وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی اولین ترجیح عدلیہ سے ریٹرننگ افسران لینا ہی تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل پی ٹی آئی آخر چاہتے کیا تھے؟ ہائیکورٹ اپنی ہی عدالت کے خلاف رٹ کیسے جاری کر سکتی ہے؟ پی ٹی آئی کی درخواست پر ہی سپریم کورٹ نے انتخابات کا فیصلہ دیا تھا، عمیر نیازی کی ایک درخواست پر پورے ملک میں انتخابات روک دیں؟ عمیر نیازی کی درخواست تو سپریم کورٹ کے حکم کی توہین ہے، درخواست جمہوریت کو ڈی ریل اور سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی کوشش ہے ،کیا ہم توہین عدالت کی کارروائی کریں؟ درخواست گزار بیرسٹر عمیر خان نیازی کون ہیں؟
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ درخواست گزار بیرسٹر عمیر خان نیازی کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہکیا درخواست گزار نے پارٹی کی جانب سے مجاز ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا؟۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ اس کا مطلب ہے درخواست گزار عمیر نیازی الیکشن ہی نہیں چاہتے، تو کیا ہم توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں، یہ تو سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کی گئی ہے، الیکشن کمیشن افسران اور ڈپٹی کمشنرز بھی انتخابات نہ کروائیں تو کون کروائے گا؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں سے ریٹرننگ افسران لیے تھے؟ ملک بھر میں کتنے ڈی آر اوز اور آر اوز تھے؟
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ڈی آر اوز 148 اور ریٹرننگ افسران 859 ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جو ریٹرننگ افسران الیکشن کمیشن کے ہیں وہ تو چیلنج ہی نہیں تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر عدلیہ کے افسران انتخابات نہ کروائیں، الیکشن کمیشن اور ایگزیکٹو بھی نہ کروائے تو کون کروائے؟ اس سے تو بادی النظر میں انتخابات ملتوی کروانا ہی مقصد نظر آتا ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ نگراں حکومت کے آتے ہی تمام افسران تبدیل کیے گئے تھے۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے کیا ہوتا ہے، کل کو وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ عدلیہ کے ذریعے الیکشن پر اعتماد نہیں، الیکشن کمیشن افسران اور ڈپٹی کمشنر بھی انتخابات نہ کروائیں تو کون کروائے گا؟ الیکشن کروانا کس کی آئینی ذمے داری ہے؟
وکیل نے جواب دیا کہ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ جج صاحب کو کہہ دیں وہ خود الیکشن کروالیں، نجانے عدلیہ کیسے حکم جاری کر رہی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا عمیر نیازی نے ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے سے پہلے الیکشن کمیشن کو درخواست دی؟
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی کے درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ایگزیکٹو پر انتخابات کے حوالے سے اعتماد نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کیا یہ آرڈر دینے والے جج مس کنڈکٹ کے مرتکب نہیں ہوئے؟
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ نگراں حکومت کے آتے ہی تمام افسران تبدیل کیے گئے تھے، عمیر نیازی کہتے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی کے ایڈیشنل جنرل سیکرٹری ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل تو وہ کہیں گے ہمیں عدلیہ پر اعتماد نہیں، ان کے کہنے سے کیا ہوتا ہے۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ نوٹیفکیشن معطل ہوا آپ نے تربیت کیوں روکی ہے، 7 دن کی تربیت ہوتی ہے ایک دن کی تربیت ہوچکی ہے، سپریم کورٹ نے انتخابات ڈی ریل کرنے سے روکا تھا، کون الیکشن کے راستے میں رکاوٹ ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ سے ایسے احکامات آنا حیران کن ہے، الیکشن پروگرام کب جاری ہونا تھا؟
وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے کہا کہ آج الیکشن شیڈول جاری ہونا تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اٹارنی جنرل کا موقف سنا گیا تھا؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاونت کیلئے نوٹس تھا لیکن ایڈیشنل اٹارنی جنرل پیش ہوئے تھے، مجھے اس کیس کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل، کیا پنجاب کی حدود سے باہر حکم جاری کیا جا سکتا ہے؟ کیا یہ جوڈیشل مس کنڈکٹ نہیں ہے، سپریم کورٹ میں تو تحریک انصاف درخواست گزار تھی، کیا عمیر نیازی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں؟
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ درخواست آئی لگ بھی گئی، حکم امتناع دینے والا جج ہی لارجر بنچ کا سربراہ بن گیا، سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا تھا کوئی بھی جمہوری عمل میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ درخواست گزار کا موقف ہے یہی ڈپٹی کمشنرز نظر بندی کے احکامات جاری کرتے ہیں، درخواست گزار کا موقف ہے انہیں انتظامی افسران پر اعتماد نہیں ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کل وہ کہیں گے عدلیہ پر بھی اعتماد نہیں ہے۔
وکیل نے کہا کہ آر اوز، ڈی آر اوز کی سات دن کی ٹریننگ تھی ایک دن کی ہوئی پھر نوٹیفکیشن معطل کر دیا گیا۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ کون لوگ ہیں جو الیکشن نہیں چاہتے؟ نوٹیفکیشن معطل ہوا آپ نے تربیت کیوں روکی ہے؟ درخواست گزار نے پٹیشن دائر کی لگتا ہے پی ٹی آئی کا نام استعمال کیا ہے، ہائی کورٹ نے ٹریننگ دینے سے نہیں روکا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تھا پہلے سپریم کورٹ میں آنا چاہیے تھا۔
ساتھی ججز سے مشاورت کے بعد درخواست گزار کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں آئین کے اندر رہنا ہے آرٹیکل 189 میں عدالتوں کو رہنا ہے، لاہور ہائیکورٹ کے جج نے مس کنڈکٹ کیا ہے، سپریم کورٹ کی حکم عدولی مس کنڈکٹ ہے، آرٹیکل 189 کے تحت ہائی کورٹس سپریم کورٹ کے حکم کی پابند ہیں، ساتھی ججز سے مشاورت کے بعد درخواست گزار کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے، درخواست تو ملک میں جمہوریت کو ڈی ریل کرنے اور سپریم کورٹ حکم کی خلاف ورزی ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ الیکشن سے متعلق فیصلہ کرنے والے جج کو ہی کہہ دیں کہ وہ انتخابات کروالیں، درخواست گزار عمیر نیازی کو کوئی مسئلہ تھا تو سپریم کورٹ آتے، ہائیکورٹ نے پورے ملک کے ڈی آر اوز کیسے معطل کر دیے؟ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کہتے ہیں جوڈیشل افسران نہیں دے سکتے، کیا جج نے اپنے ہی چیف جسٹس کیخلاف رٹ جاری کی ہے؟ کیا توہین عدالت کے مرتکب شخص کو ریلیف دے سکتے ہیں؟ کیوں نہ عمیر نیازی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں؟ کیا عمیر نیازی وکیل بھی ہے یا نہیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمیر نیازی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عمیر نیازی کم عمر ہیں؟
اتنے ہی کم عمر ہیں جتنا میں ہوں، اٹارنی جنرل کے جواب پر چیف جسٹس مسکرادیے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کیا ڈیڑھ ہزار ریٹرننگ افسران ان کے خلاف ہیں، الزام یہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر ان کے خلاف ہیں، ایم پی او کے آرڈر جاری کیے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ملک کو گروی رکھنے والے عمیر نیازی کو ریلیف کیوں دیں؟ عمیر نیازی نے درخواست ذاتی حیثیت میں کی؟ وہ پی ٹی آئی کے وکیل ہیں اور انہی کی جانب سے درخواست بھی کی۔
لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر بیوروکریسی سے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز (ڈی آر اوز) لینے سے روک دیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے ہائیکورٹ کے حکم پر ریٹرننگ افسران کی تربیت روک دی تھی۔
اس سے قبل چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات ہوئی، جس میں جسٹس سردار طارق، جسٹس اعجازالاحسن اور اٹارنی جنرل بھی شریک تھے۔
الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کا فریق بننے کا فیصلہ
لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں نے فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، مسلم لیگ (ن)، استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) اور مسلم لیگ ق نے لاہور ہائیکورٹ کے عام انتخابات کے کیس میں فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آصف زرداری نے فوری طور پر پٹیشن فائل کرکے فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ عام انتخابات کے بروقت انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے ن لیگ نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کا فیصلہ کیا۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ ن لیگ لاہور ہائیکورٹ کے آر اوز سے متعلق فیصلے کیخلاف لارجر بینچ میں فریق بنے گی، مسلم لیگ (ن) کی لیگل ٹیم نے پٹیشن تیار کرنا شروع کر دی۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثناء اللّٰہ نے بھی اس حوالے سے سوشل میڈیا پر اپنا پیغام جاری کردیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ق نے بھی لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ استحکام پاکستان پارٹی نے بھی فیصلے کے خلاف فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے۔
فردوس عاشق اعوان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ جہانگیر خان ترین ،عبد العلیم خان نے پٹیشن فائل کرکے کیس میں فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے۔
پی ٹی آئی کی پٹیشن پر لاہور ہائیکورٹ کا لارجر بینچ تشکیل
عام انتخابات کے لیے بیوروکریسی کی خدمات کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر لاہور ہائیکورٹ کا لارجر بینچ تشکیل دے دیا گیا۔
جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ 18 دسمبر کو سماعت کرے گا۔
سنگل بینچ نے انتخابات کیلئے بیورورکریسی کی خدمات لینے کا الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے لارجر بینچ تشکیل دینے کی سفارش کی تھی۔
Comments are closed.