لاگر سلٹ: بربریت کی مثال قائم کرنے والا بدنام زمانہ کیمپ جو جرمنی نے برطانیہ کی زمین پر بنایا
- مصنف, پالا روساس
- عہدہ, بی بی سی نیوز ورلڈ
’ہم اپنے جزیرے کا دفاع کریں گے، چاہے قیمت جو بھی ہو، ہم ساحلوں پر لڑیں گے، ہم کھیتوں اور گلیوں میں لڑیں گے، ہم پہاڑوں پر لڑیں گے، ہم کبھی ہار نہیں مانیں گے۔‘
1940 کی اس مشہور تقریر میں برطانیہ کے وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے وعدہ کیا تھا کہ وہ نازی جرمنی کو برطانیہ کی سرزمین پر قدم نہیں رکھںے دیں گے لیکن یہ وعدہ مکمل طور پر پورا نہیں ہو سکا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مغربی اتحادی نازی جرمنی کو انگلش چینل کی دوسری جانب محدود رکھنے میں کامیاب ہوئے لیکن جرمن فوجی برطانوی زمین پر قدم رکھنے میں بھی کامیاب ہوئے۔
فرانس کے ساحل سے 20 کلومیٹر دور، چینل جزائر کے چھوٹے سے خطے پر ساحل پر کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔
یہ برطانیہ کے زیر تسلط واحد علاقہ تھا جہاں ایڈولف ہٹلر دوسری عالمی جنگ کے دوران قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے اور یہاں ہزاورں مزدوروں کو جبری طور پر رکھا گیا جن سے جرمنی نے اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کا کام لیا۔
آلڈرنی ایک ایسا ہی دور دراز جزیرہ تھا جہاں لاگر سلٹ نامی کیمپ میں مشرقی یورپ کے سیاسی قیدیوں سمیت چار سو سے زیادہ قیدیوں کو رکھا گیا۔ ان میں سے زیادہ تر زندہ نہیں بچے۔
اس بدنام زمانہ کیمپ کی باقیات آج بھی جزیرے کے جنوب مغربی حصے میں جھاڑیوں تلے چھپی ہیں جہاں 2008 میں یہاں مرنے والوں کے خاندانوں اور چند زندہ بچ جانے والوں کی درخواست پر نصب ہونے والا ایک یادگاری پلر ہی یہاں کی کہانی سنتا ہے۔
اس جگہ جرمنی نے قبضہ کیسے کیا؟
1940 میں جرمنی کی فوج برق رفتاری سے مغربی یورپ پر حملہ آور ہوئی۔ چند ماہ میں ڈنمارک، ناروے، نیدر لینڈز، بیلجیئم اور فرانس پر قبضہ ہو چکا تھا اور برطانیہ دو لاکھ اتحادی فوجیوں کا انخلا کرنے پر مجبور ہوا۔
ہٹلر کا اگلا ہدف برطانیہ پر حملہ کرنا تھا۔
فرانس سے اس قدر قریب چینل جزائر کا دفاع ناممکن تھا اس لیے برطانیہ کے فوجیوں کو یہاں سے پسپا ہونا پڑا۔ ہٹلر کے لیے یہ پروپیگینڈا کے لیے بہترین موقع تھا۔
گلی کار کیمبرج یونیورسٹی میں آثارقدیمہ کے پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’برطانیہ واحد جانب دار یورپی ملک تھا جس پر قبضہ نہیں ہوا اور کسی برطانوی پولیس والے کی ایک نازی سپاہی کی کار کا دروازہ کھولتے ہوئے تصویر یا پھر کسی برطانوی سے وہ کروانا جو جرمن چاہتے ہیں، اس کی بہت اہمیت تھی۔‘
جرمنی کے حملے سے قبل ان جزائر کے حکام نے آبادی کا انخلا یقینی بنایا اور گوئرنسی جزیرے سے 17500 جبکہ جرسی سے چھ ہزار لوگ برطانیہ روانہ ہو گئے۔ جو لوگ پیچھے رہ گئے، انھوں نے 1945 تک جرمنی کے زیر تسلط زندگی گزاری۔
آلڈرنی کے چھوٹے سے جزیرے پر صرف ایک خاندان باقی بچا تھا۔ جزیرے کی جرمنی سے آزادی کے بعد ان سے اور چند زندہ بچ جانے والے قیدیوں سے حاصل ہونے والی معلومات کی وجہ سے اس بربریت کا اندازہ ہوا جو جرمن نازیوں نے یہاں برپا کی۔
الڈرنی صرف تین میل لمبا اور ڈیڑھ میل چوڑا جزیرہ ہے جہاں کثرت سے دفاعی تنصیبات بنائی گئیں۔
کیون کولز سٹیفورڈ شائر یونیورسٹی میں فرانزک ماہر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم نے معلوم کیا کہ الڈرنی میں 27 قومیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے جن سے جبری کام کروایا گیا۔ ان میں سیاسی مخالفین اور جرمن حکومت کے دشمن تصور کیے جانے والے لوگ بھی تھے جن کو وہ انسان نہیں سمجھتے تھے۔ ان میں یہودی بھی شامل تھے۔‘
یہ کہنا مشکل ہے کہ لاگر سلٹ نامی کیمپ اور دیگر تین کیمپوں میں کتنے لوگ رہے۔ یہ چار کیمپ مزدور فراہم کرنے کے لیے تیار ہوئے تھے۔
1943 میں لاگر سلٹ کیمپ ایس ایس کے حوالے کر دیا گیا۔ یہ نازی پیرا ملٹری فورس اپنی بربریت کی وجہ سے پہچانی جاتی تھی۔
ایس ایس کے آنے کے بعد 1942 میں پانچ بیرکس سے چند عرصے میں ہی یہاں 25 عمارات بن گئیں۔
قیدی سیاہ اور سفید پاجامے پہنتے تھے اور چھوٹے چھوٹے کیبن میں رہتے ہیں جہاں فی فرد ڈیڑھ سکوئر فٹ جگہ رکھی گئی تھی۔
تاریخی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایس ایس نے خوراک کو بھی کنٹرول کے لیے استعمال کیا۔ ایک زندہ بچ جانے والے قیدی ولہیلم، نے بتایا کہ ایک ایس ایس افسر نے باورچی کو اس لیے گلا گھونٹ کر مار دیا کیونکہ اسے اس کا بنایا ہوا کھانا پسند نہیں تھا۔
الڈرنی میں آغاز میں تقریبا ایک ہزار قیدی بھجوائے گئے تھے اور ان میں سے 500 روسی اور یوکرینی، 180 جرمن، 130 پولش، 60 ڈچ، 20 سے 30 چیک اور 20 فرانسیسی شہری تھے۔
کولز اور دیگر مورخین نے الڈرنی پر شائع ہونے والی تحقیق میں لکھا کہ اس کیمپ میں یہودی بھی تھے اگرچہ ان کی تعداد معلوم نہیں ہو سکی۔
مجموعی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ اس کیمپ سے جرمنی کے قبضے کے دوران چھ سے سات ہزار قیدی گزرے ہوں گے۔
بربریت
اس کیمپ میں رہائش کے حالات بہت خراب تھے۔ موسم سرما میں اس جزیرے پر مسلسل یخ بستہ ہوائیں چلتی ہیں۔ جس مقام پر کام کیا جا رہا تھا وہ خطر ناک تھا لیکن کیون کولز کہتے ہیں کہ جرمن جانتے تھے کہ ان کے پاس مزدوروں کی کافی تعداد ہے اس لیے وہ خوراک کی کمی یا برے برتاؤ کی وجہ سے مر بھی گئے تو ان کا متبادل مل جائے گا۔
کئی قیدیوں نے آزادی کے بعد بتایا کہ یہ کیمپ بدترین جگہ تھی اور یورپ کے بدنام زمانہ کیمپوں سے آنے کے باوجود یہاں کی بربریت اور حالات کہیں برے تھے۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کیمپ میں کتنی اموات ہوئیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کسی قیدی کی موت ہوتی تو ایک دستاویز ڈاکٹر کو دی جاتی جس میں موت کی وجہ دل کا دورہ یا کچھ اور لکھا دیا جاتا۔ سرکاری رجسٹری کے مطابق لاگر سلٹ میں 103 اموات ہوئیں لیکن محققین کا کہنا ہے کہ یہ تعداد کم ہے۔
2008 میں نصب ہونے والی یادگار میں چار سو اموات کا ذکر کیا گیا۔
زندہ بچ جانے والے قیدیوں نے مار پیٹ، کتوں کے حملوں اور سزائے موت کی تفصیلات سنائیں۔ ایک شخص نے بتایا کہ ایک روسی شخص کو اس نے کیمپ کے دروازے پر مردہ لٹکتے ہوئے دیکھا۔
اس کی چھاتی پر تحریر تھا: ’بریڈ چرانے کے لیے۔‘
یہ بھی پڑھیے
آزادی
جب 1945 میں جزیرے کو آزاد کروایا گیا تو برطانوی حکومت نے ماہرین کی ایک ٹیم کو جنگی جرائم کی تفتیش کے لیے بھجوایا جس نے تین ہزار لوگوں کے انٹرویو کیے تاہم یہ تفتیش مکمل نہیں ہوئی اور اس کے نتائج بھی غیر واضح ہیں۔
کول کہتے ہیں کہ ’مثال کے طور پر کہا گیا کہ لونگلی کومنز میں مرنے والے روسی تھے تاکہ ذمہ داری روس پر ڈال دی جائے۔‘
1960 تک کچھ نہیں ہوا۔ اس وقت جرمنی کے ایک کمیشن نے جزیرے پر جرمنی کے فوجیوں کی قبر کشائی کی تاکہ ان کی لاشیں فرانس لے جا کر ایک قبرستان میں دفن کی جائیں۔
گلی کار کہتے ہیں کہ چند مزدوروں کی لاشیں بھی لے جائی گئیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جرسی اور گوئیرنسی میں لوگ رہ رہے تھے اور انھوں نے یہ سب ہوتے ہوئے دیکھا لیکن آلڈرنی میں کوئی عینی شاہد نہیں تھا۔‘ ان کا ماننا ہے کہ یہ چیز بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ بنی ہو گی۔
کیمپ کی آزادی کے بعد بھی تمام قیدیوں کی زندگی آسان نہیں ہوئی۔
ان جزائر پر موجود یہودیوں کو بعد میں جرمنی لے جایا گیا۔ ان کے علاوہ 2300 برطانوی بھی لے جائے گئے لیکن گلی کار کے مطابق باقی آبادی کو زیادہ تنگ نہیں کیا گیا۔
یوں ہزاروں کو جرمنی منتقل کر دیا گیا جبکہ روس واپس جانے والوں کو بھی قید کا سامنا کرنا پڑا۔
کیون کولز بتاتے ہیں کہ ’جرمنی کے ہاتھوں قیدی بن جانے والے روسی فوجیوں کو خوش آمدید نہیں کہا جاتا تھا۔ ان کو غدار سمجھا جاتا تھا۔‘
تنازع
ان جزائر کی یہ بھیانک تاریخ بہت عرصے تک عوامی نظروں سے اوجھل رہی لیکن آلڈرنی میں ہر کوئی یہاں جو کچھ بھی ہوا اس کو یاد بھی نہیں رکھنا چاہتا۔
آبادی کی اکثریت اس ماضی کو بھلا دینا چاہتی ہے جس کی وجہ سے کولز جیسے محققین کا کام مشکل ہو جاتا ہے۔
وہ یہاں زمین کی کھدائی نہیں کر پائے اور ان کو باقی تکنیک کی مدد سے دستیاب دستاویزات کا ہی سہارا لینا پڑا۔
کولز کہتے ہیں کہ ’لوگ نہیں چاہتے تھے کہ ہم زمینی تحقیق کریں کیونکہ ان کے خیال میں اس سے ایک مشکل ماضی زندہ ہو جاتا جو قابل فہم بات ہے لیکن اس جزیرے پر بہت سے لوگ مرے جو اپنی کہانی نہیں سنا سکتے۔ ہم ان کی کہانی بتانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
Comments are closed.