- مصنف, جنگ من چوئی
- عہدہ, بی بی سی کورین
- 46 منٹ قبل
شمالی کوریا سے فرار ہو کر جنوبی کوریا میں آباد ہونے والے افراد ہر سال کچھ رقم اپنے گھر والوں کے لیے بھیجتے ہیں۔ لیکن اب ان کا گھر والوں کو رقم بھیجنا خطرناک ہوتا جا رہا ہے کیونکہ دونوں ممالک کی حکومتیں رقم کی غیر قانونی منتقلی کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہیں۔ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جنوبی کوریا میں بروکری یا رقم کا لین دین کرنے والے ہوانگ جی سنگ کہتے ہیں کہ شمالی کوریا کے لیے ’رقم کی منتقلی کسی جاسوسی فلم کی طرح ہے، اور اس کے لیے لوگ اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔‘ہوانگ جی سنگ خود شمالی کوریا سے بھاگ کر جنوبی کوریا پہنچے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ کام کتنا پیچیدہ اور مشکل ہے۔ اس کے لیے جنوبی کوریا کے ساتھ چین اور شمالی کوریا میں بروکرز اور کورئیر کے وسیع خفیہ نیٹ ورک کی ضرورت ہوتی ہے۔رقم کی منتقلی کے لیے چین سے سمگل کیے گئے فون کا استعمال کرتے ہوئے دور دراز کے علاقے سے کال کی جاتی ہے۔ اس کے لیے خفیہ نام (کوڈ لینگویج) کا استعمال کیا جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کے باوجود اس میں بہت زیادہ خطرہ ہے۔ اگر پکڑے جائیں تو شمالی کوریا کے باشندوں کو ملک کے بدنام زمانہ سیاسی قیدی کیمپ کوان-لی-سو میں بھیجا جا سکتا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ گذشتہ برسوں میں یہاں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ڈیٹا بیس سینٹر فار نارتھ کورین ہیومن رائٹس نے سنہ 2023 میں ایک سروے کیا جس میں شمالی کوریا سے راہ فرار اختیار کرنے والے تقریباً 400 افراد سے بات کی گئی۔سروے میں پتا چلا ہے کہ 63 فیصد لوگوں نے شمالی کوریا میں رہنے والے اپنے خاندانوں کو پیسے بھیجے ہیں۔لیکن سنہ 2020 کے بعد سے شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے شمالی کوریا میں رقم کی آمد اور جنوبی کوریا سے آنے والے ’رجعت پسند نظریے اور ثقافت‘ کو روکنے کے لیے بروکرز کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ہوانگ کی بیوی جو سو یون بھی ایک بروکر ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ‘شمالی کوریا میں بروکرز کی تعداد میں گذشتہ چند سالوں کے مقابلے میں 70 فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے۔’،تصویر کا ذریعہJUNGMIN CHOI / BBC KOREAN
جنوبی کوریا کی جانب سے پابندی
جنوبی کوریا نے بھی اس طرح سے رقم کی منتقلی پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اگرچہ پہلے قدرے نرمی تھی لیکن اب اس میں تبدیلی آ رہی ہے۔ گذشتہ سال اپریل میں پولیس نے سیول کے قریب صوبہ گیانگی میں رہنے والے ہوانگ اور ان کی اہلیہ جوسو کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔ ان پر فارن ایکسچینج ٹرانزیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی کا الزام تھا۔جوسو کا نام شمالی کوریا کو رقم بھیجنے کے لیے استعمال ہونے والے بینک اکاؤنٹ پر درج ہے، اس لیے انھیں اس لین دین کے الزامات کا سامنا ہے۔ان کے علاوہ سات دیگر بروکرز سے بھی تفتیش جاری ہے۔اگرچہ یہ بروکرز کیمرے کے سامنے بات کرنے سے گریز کرتے ہیں لیکن مس جوسو نے بی بی سی سے بات کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ اپنا کیس سب کے سامنے لانا چاہتی ہیں۔پولیس نے اس معاملے پر بی بی سی کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔جنوبی کوریا کے حکام نے ہوانگ کو بتایا کہ شمالی کوریا میں کسی بھی رقم کی منتقلی ’مجاز بینکوں‘ کے ذریعے ہونی چاہیے۔وہ پوچھتے ہیں کہ ’اگر کوئی (مجاز بینک) ہے تو، براہ کرم ہمیں بتائیں!‘ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں اس لیے شمالی کوریا میں کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے جو قانونی طور پر جنوبی کوریا سے آنے والی رقم قبول کر سکے۔سنہ 2020 میں شمالی کوریا نے مشترکہ رابطہ دفتر بند کر دیا تھا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مسلسل خراب رہے ہیں۔حال ہی میں کم جونگ اُن نے یہاں تک کہا کہ جنوب کے ساتھ اتحاد کا آئین میں مقررہ ہدف قابل حصول نہیں۔،تصویر کا ذریعہJUNGMIN CHOI / BBC
خفیہ کال
،تصویر کا ذریعہJUNGMIN CHOI / BBC
پکڑے جانے پر 15 سال قید
ہوانگ کے تقریباً 800 گاہک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا ایسے خاندانوں سے بھی واسطہ پڑا جنھوں نے پیسے لینے سے انکار کر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ پیسے لینے سے انکار کرنے والوں کو ’یہ ڈر تھا کہ یہ سکیورٹی پولیس کا بچھایا ہوا جال ہے اور اسی کے تحت وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم غداروں سے پیسے نہیں لیتے۔‘بروکرز رقم پہنچانے کے بدلے 50 فیصد تک کمیشن لیتے ہیں۔ہوانگ نے بتایا کہ ’شمالی کوریا کے بروکرز ہر لین دین پر پانچ سے چھ لاکھ وان کمانے کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے ہیں۔‘اور یہ رقم آج کل کے شرح تبادلہ کے مطابق 375 سے 450 ڈالر یعنی (105000 سے 125000 روپے) ہے۔وہ کہتے ہیں ’اگر اس معاملے میں ان دنوں آپ کو کوئی سکیورٹی افسر گرفتار کرتا ہے اور آپ مجرم قرار پاتے ہیں تو آپ کو 15 سال کی قید ہوسکتی ہے اور اگر جاسوسی کا الزام ثابت ہوا تو آپ کو کوان-لی-سو جیل بھیج دیا جائے گا۔‘ہوانگ ہمیں شمالی کوریا کے ان لوگوں کی جانب سے بھیجے گئے پیغامات سناتے اور دکھاتے ہیں جنھیں اپنے دلالوں کے ذریعے رقم موصول ہوئی۔ایک بوڑھی عورت روتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ میں روز بھوکی سوتی تھی اور میں نے بھوک مٹانے کے لیے گھاس تک کھائی ہے۔ جنگلوں میں خوراک کی تلاش کے دوران میرے ہاتھ زخمی ہوگئے تھے۔ اسی ویڈیو میں ایک اور خاتون نے کہا کہ ’یہاں حالات بہت مشکل ہیں اور میں آپ کا 100 بار شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔‘مس جوسو کا کہنا ہے کہ وہ جب بھی ایسی ویڈیوز دیکھتی ہیں تو ان کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ ’کچھ لوگ اپنی ماؤں اور بچوں کو پیچھے چھوڑ کر آئے ہیں۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان کا خاندان شمالی کوریا میں زندہ رہے تاکہ ایک دن وہ مل سکیں۔‘جوسو کہتی ہیں کہ شمالی کوریا میں تین افراد کے ایک خاندان کی سال بھر کی کفالت کے لیے 10 لاکھ وان کافی ہیں۔ہوانگ کا کہنا ہے کہ ایسی رقم پانے والوں کو شمالی کوریا میں ’ہالاسان سٹیم‘ کہا جاتا ہے۔ہالاسان سے مراد ماؤنٹ ہالہ ہے، جو جنوبی کوریا کے خوبصورت جیجو جزیرے پر واقع ایک مشہور آتش فشاں ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’ہالاسان سٹیم فیملی سے آنے والے شخص کو کمیونسٹ پارٹی کے ارکان سے بھی زیادہ شادی کا اہل سمجھا جاتا ہے۔‘،تصویر کا ذریعہHANDOUT
لائف لائن
یہ واضح نہیں ہے کہ جنوبی کوریا نے اس طرح کے لین دین کے خلاف کریک ڈاؤن کیوں شروع کیا ہے۔ لیکن شمالی کوریا سے منحرف ہونے والوں کو قانونی مدد فراہم کرنے والی ایک وکیل پارک وون-یوآن کا خیال ہے کہ اس کی وجہ حد سے زیادہ جوش ہو سکتا ہے کیونکہ رواں سال قومی سلامتی کے مسائل پیدا ہوئے ہیں اور مقدمات کی تفتیش نیشنل انٹیلی جنس سروس سے پولیس کے حوالے کر دی گئی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’اگر پولیس جاسوسی کے الزامات کو ثابت نہیں کر سکتی، تو وہ فارن ایکسچینج ٹرانزیکشن ایکٹ کے سیکشن لگاتی ہے۔‘اگر دونوں حکومتیں سخت موقف اپناتی ہیں تو شمالی کوریا میں رہنے والے خاندانوں کے لیے لین دین کی یہ لائف لائن منقطع ہو سکتی ہے۔ہوانگ کی اہلیہ کو اگر سزا ہوتی ہے تو وہ ان کا کیس سپریم کورٹ میں لے جانے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ شمالی کوریا سے آنے والے لوگوں کی طرف سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر صرف پیسے کی بات نہیں ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’شمالی کوریا کو بغیر لڑے نیچے لانے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ پیسے کے ساتھ یہ خبر بھی آتی ہے کہ جنوبی کوریا کتنا امیر اور خوشحال ہے۔۔۔ اور یہ وہ چیز ہے جس سے کم جونگ ان بہت خوفزدہ ہیں۔‘کِم کا خیال ہے کہ شمالی کوریا سے آنے والے ان جیسے لوگ اپنے پیاروں کو پیسے بھیجنا بند نہیں کریں گے، چاہے دونوں طرف کی انتظامیہ اسے روکنے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر رہی ہو۔انھوں نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ ذاتی طور پر چین جا کر رقم بھیجیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے ایک ایسا خطرہ مول لیا کہ شاید میں اب اپنے بچوں کو نہ دیکھ سکوں، لیکن یہ احساس کیا کم ہے کہ کم از کم ان کی زندگی تو اچھی ہو گی۔‘کِم جنوبی کوریا میں ٹرک ڈرائیور ہیں اور ہفتے میں پانچ دن اپنی گاڑی میں ہی سوتے ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ رقم بچاتے ہیں تاکہ وہ شمالی کوریا میں اپنی بیوی اور بچوں کو ہر سال 40 لاکھ وان بھیج سکیں۔وہ اپنے خاندان کی طرف سے موصول ہونے والے آڈیو پیغامات کو بار بار سنتے ہیں۔ایک پیغام میں ان کے بیٹے کو کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’ابا، آپ کیسے ہیں؟ آپ کو کتنی پریشانی کا سامنا ہے؟ ہمارے مسائل آپ کے مسائل کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.