لاکھوں ڈالرز کی وہ ’پرفیکٹ ڈکیتی‘ جس نے امریکی پولیس اور ایف بی آئی کو برسوں تک چکرائے رکھا،تصویر کا ذریعہGetty Images2 گھنٹے قبلآج سے ٹھیک 74 برس قبل یعنی 17 جنوری 1950 کو شام کے تقریباً سات بج رہے تھے اور امریکی ریاست میساچوسٹس کے شہر بوسٹن میں سکیورٹی فرم ’برنکس‘ کے ملازمین دن بھر کی ڈیلیوریز کے بعد بچ جانے والی نقدی کے تھیلے، چیک اور دیگر اشیا کو عمارت کی دوسری منزل پر موجود سیف میں رکھنے کی تیاری کر رہے تھے۔ اسی دوران فرم کے بیرونی دروازے کے باہر ایک ٹرک آ کر رکا اور اس میں سے پانچ افراد نیلے رنگ کے کوٹ، ڈرائیوروں والی مخصوص ٹوپیاں، دستانے اور ماسک پہنے باہر نکلے اور برنکس فرم کی عمارت میں داخل ہو گئے۔انھوں نے عمارت میں داخل ہوتے ہی وہاں موجود فرم کے ملازمین کو باندھا اور چند ہی منٹوں میں تقریباً 12 لاکھ ڈالر کیش اور 15 لاکھ ڈالر مالیت کے چیکس اور پے آڈر لے اڑے۔ وہ جاتے ہوئے اپنے پیچھے ایک ٹوپی، رسی کا ایک ٹکڑا اور ڈکٹ ٹیپ کے علاوہ کوئی اور ثبوت نہیں چھوڑ کر گئے تھے۔ اس وقت اخباروں میں شائع ہونے والی خبروں میں اس واردات کو ’پرفیکٹ ڈکیٹی‘ قرار دیا گیا۔

اس واردات کے اگلے چھ سال تک، امریکی پولیس اور ایف بی آئی سینکڑوں افراد سے ہزاروں زاویوں پر تفتیش کرتی رہی مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے میں ناکام رہے۔ بالآخر اس کیس کو بند کر دیے جانے میں صرف 10 دن باقی تھے جب ملزمان میں سے ایک، جوزف جیمز او کیف، جو کسی اور جرم کی پاداش میں سزا کاٹ رہے تھے، نے اعتراف جرم کرتے ہوئے اپنے باقی ساتھیوں کے نام ظاہر کر دیے اور اس طرح برسوں تک غیر حل شدہ رہنے والا کیس بالاخر اپنے انجام کو پہنچا۔ سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی ڈکیٹی کا منصوبہ کس نے بنایا اور اس کس طریقے سے سر انجام دیا گیا کہ برسوں تک پولیس اور ایف بی آئی، ملزمان کا سراغ کیوں نہ لگا سکی۔

ایف بی آئی کی تحقیقات

،تصویر کا کیپشنملزمان ایک ٹوپی، رسی اور ڈکٹ ٹیپ کے علاوہ کوئی اور ثبوت چھوڑے بنا فرار ہوئے
ایف بی آئی کی تفتیش کے مطابق اس سارے منصوبے کا ماسٹر مائنڈ اطالوی نژاد انتھونی پنو تھا، جو ڈکیٹی اور رہزنی کی وارداتوں کی منصوبہ بندی کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔ اس نے اس کام کو سر انجام دینے کے لیے اپنے جیسے 10 جرائم پیشہ افراد کی مدد حاصل کی۔برنکس کو لوٹنے کے بارے میں پہلی بار 1947 میں اُس وقت سوچا گیا جب اس کا دفتر بوسٹن کی فیڈرل سٹریٹ میں واقع تھا۔ انتھونی پنو نے پہلے جوزف جیمز او کیف کے پرانے ساتھی سٹینلے گوسیورا کو اپنے ساتھ ملایا اور پھر اوکیف کو بھی اپنے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دی۔اس وقت بنائے گئے منصوبے میں ملزم ہنری بیکر کے علاوہ وہ سب لوگ شامل تھے جنھوں نے 1950 کی ڈکیٹی میں حصہ لیا۔ اس میں پنو، اوکیف اور گوسیورا کے علاوہ جیمز کوسٹا، جیمز اگنیٹس فاہرٹی، ایڈولف مافی، مائیکل ونسنٹ گیگن، تھامس فرانسس رچرڈسن اور جوزف سلویسٹر بین فیلڈ شامل تھے۔اس وقت ان کا ارادہ تھا کہ وہ برنکس کی عمارت میں داخل ہو کر پیسے لے جانے والی ایک گاڑی کو قبضے میں لے لیں گے۔ کئی مشکلات اور خطرات کے پیش نظر اس منصوبے پر کبھی عمل نہیں کیا گیا۔ایف بی آئی کی تفتیش کے مطابق دسمبر 1948 میں جب برنکس کا دفتر پرنس سٹریٹ منتقل ہوا تو اس گروہ نے فوراً دوبارہ منصوبہ بندی شروع کر دی اور کچھ ہی دنوں میں آس پاس کی عمارتوں کی چھت پر ڈیرے ڈال کر برنکس کے دفتر کی نگرانی شروع کر دی جس کے لیے انھوں نے دوربینوں کا استعمال کیا۔ ڈکیٹی سے پہلے تمام ملزمان نے برنکس کے دفتر کے احاطے سے اچھے سے واقفیت حاصل کر لی تھی۔ کئی مواقعوں پر ملازمین کے جانے کے بعد، ملزمان نے عمارت میں داخل ہو کر پوری عمارت کی اچھے سے ریکی کی۔ ان ہی دخل دراندازیوں کے دوران، ملزمان ایک ایک کر کے عمارت کے پانچ دروازوں کے تالے کھول کر لے جاتے اور پنو ان کی چابیاں بنوا لیتا۔ عمارت کے اندر داخل ہو کر ملزمان نے برنکس کے نظام الاوقات اور کیش کی ترسیل کے بارے مکمل تفصیل حاصل کر لی تھی۔ دفتر کے اندر کے معمولات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا کہ اندر کتنی روشنی ہے۔ انھیں اس بات کا بھی پتا تھا کہ دن کے کسی وقت دفتر میں کتنے ملازمین ہوتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesڈکیٹی سے مہینوں پہلے اوکیف اور گوسیورا بوسٹن میں ایک الارم کمپنی کے اندر داخل ہو کر برکس کی عمارت کے سکیورٹی پلان کی نقل حاصل کر لی مگر جب یہ نقشہ ان کے کسی کام نہ آیا تو انھوں نے اسے جا کر واپس بھی رکھ دیا تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔ہر چھوٹی چیز پر توجہ دی گئی حتیٰ کہ جب ڈکیٹی کے بعد سامان لے کر بھاگنے کے لیے سواری کی بات آئی تھی، تو یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس کے لیے ایک نئے ٹرک کی ضرورت ہو گی کیونکہ پرانی گاڑی کے راستے میں خراب ہونے کا خدشہ تھا اور اس کے لیے چوروں نے نومبر 1949 میں بوسٹن سے ایک نیا فورڈ ٹرک چوری کیا۔ جنوری 17 کو کی جانے والی ڈکیٹی سے پہلے کئی مرتبہ اس منصوبے پر عملدرآمد کی کوشش کی گئی مگر ہر دفعہ کسی نہ کسی وجہ سے عملی جامہ پہنایا نہ جا سکا۔ ہر مرتبہ کارروائی کی کوشش سے پہلے، کوسٹا کو قریبی عمارت پر دوربین دے کر نگرانی کے لیے کھڑا کر دیا جاتا۔ جنوری 17 کو بھی کوسٹا قریبی عمارت سے نگرانی کر رہا تھا اور دوسری طرف بین فیلڈ ٹرک چلا رہا تھا جب کہ باقی ملزمان بشمول بیکر گاڑی کی پچھلی جانب سوار تھے۔ اس ہی دوران پنو نے سب میں نیلے کوٹ اور ڈرائیوروں والی ٹوپیاں بانٹیں اور جب کوسٹا کی جانب سے انھیں سگنل ملا تو ملزمان نے ماسک پہنے اور پہلے سے حاصل شدہ چابیاں استعمال کرتے ہوئے عمارت میں داخل ہوئے۔بنا وقت ضائع کیے وہاں موجود افراد کو باندھ کرزیر کر لیا اور آدھے گھنٹے سے کم وقت میں سارا پیسہ لوٹ کر وہاں سے نکل گئے۔ بین فیلڈ ٹرک سیدھا وہاں سے روکسبری میں واقع مافی کے والدین کے گھر لے گئے جہاں لوٹا ہوا مال اتارنے کے بعد ٹرک کو لے جا کر چھپا دیا گیا تھا۔ گیگن، پنو اور فاہرٹی وہاں سے چلے گئے جبکہ باقی افراد وہیں لوٹا ہوا مال گننے رک گئے۔ کچھ دیر بعد بین فیلڈ جوزف میک گینس کے ساتھ لوٹ آئے۔ میک گینس اس کارروائی کا حصہ نہیں تھے۔

یہ بھی پڑھیے

ساتھیوں سے بدلے لینے کی سوچ نے واردات کا بھانڈا پھوڑا

،تصویر کا ذریعہFBI

،تصویر کا کیپشنایف بی آئی کی تفتیش کے مطابق اس سارے منصوبے کا ماسٹر مائنڈ اطالوی نژاد انتھونی پنو تھا، جو ڈکیٹی اور رہزنی کی وارداتوں کی منصوبہ بندی کا ماہر سمجھا جاتا تھا
ایف بی آئی کے مطابق پنو، رچرڈسن اور کوسٹا، تینوں نے 20،20 ہزار ڈالرز لیے۔ ڈکیتی کے اگلے دن، اوکیف اور گوسیورا نے ایک ایک لاکھ ڈالرز لوٹے ہوئے مال سے لیے جو انھوں نے اوکیف کی گاڑی میں چھپا دیے مگر اس کے کچھ روز بعد ہی اوکیف کو گرفتار کر لیا گیا تو اس نے جیل سے میک گینس سے کہا کہ وہ اس کے حصے کے پیسے نکال کر اپنے پاس رکھ لے۔ لیکن بعدازاں جب اوکیف کو پیسے واپس ملے تو اس میں 2,000 ڈالرز کم تھے۔ چونکہ اوکیف کے پاس ان پیسوں کو حفاظت سے رکھنے کی جگہ نہیں تھی تو اس نے وہ پیسے بطورِامانت مافی کو دے دیے مگر اس کو وہ پیسے کبھی واپس نہیں ملے۔ مافی کا کہنا تھا کچھ پیسہ چوری ہو گیا تھا جبکہ بقیہ اوکیف کے کیسز کی پیروی میں خرچ ہو گئے۔اوکیف اس تمام معاملات کی وجہ سے کافی غصہ تھے، پہلے تو پیسوں میں غبن، پھر ان کو اس بات کا بھی غصہ تھا کہ میک گینس، بین فیلڈ، پنو اور کوسٹا نے واردات میں حصہ نہیں لیا اور اس کے باوجود ان کو لوٹے ہوئے مال میں حصہ دیا گیا۔اوکیف نے جب اس غصے کا اظہار کیا تو اس کے بعد اس پر تین بار جان لیوا حملے ہوئے۔ پہلے دو حملوں میں بچنے کے بعد، تیسرے حملے میں اوکیف زخمی ہو گئے۔ جنوری 1956 میں اوکیف جیل میں تھا جب اس کو لگا کہ اس کی زندگی جیل میں گزر جائے گی اور اس کے باقی ساتھی لوٹی ہوئی دولت سے عیاشی کی زندگی جی رہے ہیں۔ اپنے ساتھیوں سے بدلہ لینے کی خاطر، اوکیف نے ایف بی آئی کو سب بتا دیا۔اوکیف کی گواہی کے بعد، 12 جنوری 1956 کو ایف بی آئی نے بیکر، کوسٹا، مافی، میک گینس اور پنو کو گرفتار کر لیا جبکہ اوکیف اور گوسیورا پہلے ہی دوسرے جرائم کی پاداش میں جیل میں تھے۔ دوسری طرف بین فیلڈ تب تک مر چکا تھا جبکہ فاہرٹی اور رچرڈسن گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوش ہو گئے تھے۔ بالآخر وہ دونوں بھی 16 مئی 1956 کو پکڑے گئے اور اس طرح یہ کیس اپنے انجام کو پہنچا۔ تاہم گرفتاریوں کے باوجود، ڈکیٹی میں لوٹی جانے والی رقم میں سے تقریباً 11 لاکھ ڈالرز کا آج تک سراغ نہیں لگ سکا۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}