لاپتہ ٹائٹن آبدوز کے کپتان سٹاکٹن رش جو فائٹر پائلٹ بننا چاہتے تھے

سٹاکٹن رش

،تصویر کا ذریعہReuters

’میں کیپٹن کرک (سٹار وارز فلم کا کردار) جیسا بننا چاہتا ہوں۔۔۔ زندگی کے نئے طریقے دریافت کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ میں پچھلی سیٹ کا مسافر نہیں بننا چاہتا۔‘

اوشیئن گیٹ ایکپیڈیشنز کے بانی سٹاکٹن رش نے 2022 میں ایک انٹرویو میں اپنی شخصیت کو ان الفاظ میں بیان کیا تھا۔ ان کی کمپنی نے ہی ٹائٹن نامی آبدوز تخلیق کی جو ٹائٹینک کے ملبے کے سیاحتی سفر کے دوران لاپتہ ہوئی۔

ایک سابق پائلٹ کا کاروبار کی جانب مائل ہونا حیران کن نہیں تھا۔ انھوں نے سٹار وارز کی افسانوی کہانی کے اپنے پسندیدہ کردار کی طرح اتوار کے دن اس آبدوز کے کپتان کی حیثیت سے چار مسافروں کے ساتھ ٹائٹینک کے ملبے کی جانب رخ کیا تھا۔

تاہم ایک جانب جہاں اس لاپتہ آبدوز کی تلاش جاری ہے وہیں ایسی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں جن میں ان خدشات کا اظہار کیا گیا کہ کاربن فائبر اور ٹائٹینیئم کے امتزاج سے تیار آبدوز سمندر کی گہرائی میں چار ہزار میٹر تک کے سفر کے لیے محفوظ نہیں تھی۔

خلا سے سمندر کی گہرائی تک کا سفر

61 سالہ سٹاکٹن رش امریکی شہری ہیں لیکن کوئی عام شہری نہیں۔ وہ رچرڈ سٹاکٹن اور بنجیمن رش کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جنھوں نے امریکہ کی جانب سے آزادی کے اعلان پر دستخط کیے تھے۔

1980 میں انھوں نے پرنسٹن یونیورسٹی میں ائیروناٹیکل انجینیئرنگ پڑھنے کے لیے داخلہ لیا۔ ساتھ میں انھوں نے کمرشل پائلٹ بننے کے سفر کا آغاز بھی کر دیا۔

1981 میں وہ دنیا میں ڈی سی ایٹ جیٹ کا لائسنس حاصل کرنے والے سب سے کم عمر شخص بن چکے تھے۔ تین سال انھوں نے مشرق وسطی میں ایک ایئر لائن کے ساتھ کام کیا۔

1984 میں سٹاکٹن مکڈونل ڈگلس کمپنی میں شامل ہوئے جو اب بوئنگ کمپنی کا حصہ ہے۔ وہ ایف 15 لڑاکا طیارے کے ٹیسٹ پائلٹ رہے اور اینٹی سیٹلائیٹ میزائل تیار کرنے والے ایک پروگرام میں بھی شامل رہے۔

امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ ’میں خلاباز بننا چاہتا تھا۔ میں اس ہجوم کا حصہ تھا جو اپولو میں شامل ہونا چاہتا تھا۔ اسی مقصد کے لیے میں نے فائٹر پائلٹ بننے کی کوشش کی لیکن میری نظر کمزور تھی۔‘

’پھر مجھے خیال آیا کہ دراصل یہ خلا میں جانے کا معاملہ نہیں بلکہ دریافت کا شوق تھا۔ اور مجھے خیال آیا کہ سمندر بھی ایک کائنات ہے۔ زندگی یہی ہے۔‘

2009 میں انھوں نے اوشیئن گیٹ کی بنیاد رکھی تھی۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

شکوک و شبہات

امریکی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ اوشیئن گیٹ کمپنی کو متعدد بار ٹائٹن آبدوز کے بارے میں خطرات سے آگاہ کیا گیا تھا۔

2018 میں کمپنی کے میری ٹائم آپریشنز کے ڈائریکٹر ڈیوڈ لوچرج نے ایک سخت رپورٹ پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ آبدوز کو مذید ٹیسٹ درکار ہیں۔

اس تنقید کی قیمت لوچرج کو اپنی نوکری کی شکل میں ادا کرنا پڑی۔ تاہم ایک مقدمے کی وجہ سے ان کی رپورٹ ورجینیا سٹیٹ کی ایک عدالت میں پہنچ گئی۔

لوچرج نے حالیہ واقعے پر بیان دینے سے انکار کیا ہے۔

آبدوز شعبے کے کئی دیگر ماہرین بھی سٹاکٹن پر تنقید کر چکے ہیں کہ انھوں نے مخصوص کمپنیوں سے وہ ٹیسٹ کروانے سے انکار کیا جن کی مدد سے سمندر کی گہرائی میں ٹائٹن کے محفوظ سفر کی ضمانت مل سکتی۔

کہا جاتا ہے کہ سٹاکٹن نے ان خدشات پر کان نہیں دھرے۔ نیو یارک ٹائمز اخبار کے مطابق وہ ان خدشات کو جدت کی راہ میں رکاوٹ تصور کرتے تھے۔ اخبار نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ 2021 میں جب ٹائٹن آبدوز نے پہلی بار ٹائٹینک کے ملبے تک کا سفر کیا تو ایک واقعہ پیش آیا جس میں بیٹری میں مسئلہ پیدا ہوا۔

ٹائٹن

،تصویر کا ذریعہMEAN PA

پریشان کن بیانات

سٹاکٹن کے کئی بیانات بھی پریشان کن ہیں۔

2022 کے انٹرویو میں انھوں نے اعتراف کیا تھا کہ جن پرزوں کی مدد سے آبدوز بنائی گئی وہ کیمپنگ سٹورز سے حاصل ہوئے اور یہ کہ اس آبدوز پر جو کیمرے نصب ہوئے وہ انٹرنیٹ پر باآسانی دستیاب ہیں۔

اس وقت انھوں نے کہا تھا کہ ’ہم نے بوئنگ، ناسا اور واشنگٹن یونیورسٹی کے ساتھ کام کیا ہے۔‘

انھوں نے یقین دہانی کروائی تھی کہ ’مرکزی کمپارٹمنٹ متاثر نہیں ہو گا۔ تھرسٹرز کام کرنا چھوڑ سکتے ہیں، بتیاں بند ہو سکتی ہیں، باقی سب کچھ فیل بھی ہو جائے تو آبدوز میں سوار مسافر محفوظ رہیں گے۔‘

تاہم ان کا انٹرویو کرنے والے صحافی کے لیے ان کی یقین دہانی کافی نہیں تھی جس نے اصرار کیا کہ وہ آبدوز کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔

سٹاکٹن اس بات پر چڑ گئے اور انھوں نے جواب دیا کہ ’سکیورٹی وقت کا ضیاع ہے۔ اگر آپ محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو بستر سے باہر مت نکلیں۔ گاڑی سے باہر مت نکلیں۔ کچھ مت کریں۔‘

ٹائٹن

،تصویر کا ذریعہMEAN PA

اس موقع پر انھوں نے کھل کر اعتراف کیا تھا کہ ان کا واحد خدشہ یہ ہے کہ آبدوز کے مسافروں کا سر کسی چیز سے ٹکرا نہ جائے یا یہ کہ سمندر میں موجود مچھلیاں پکڑنے والے جال آبدوز کی واپسی کے سفر میں رکاوٹ نہ بنیں۔

ان تمام باتوں کے باوجود ان کو قریب سے جاننے والوں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی ان کی ترجیحات میں شامل تھی۔

ان کے ایک دوست فریڈ ہیگن نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’وہ کافی محتاط ہیں اور انھوں نے خطرات کو کم کرنے کی کوشش کی۔‘

تاہم انھوں نے تسلیم کیا کہ ایسی مہمات کافی پرخطر ہوتی ہیں اور ٹائٹن کا عملہ یہ بات جانتا تھا۔

ٹائٹینک کی باقیات دیکھنے کے شوقین سیاح، جو اس آبدوز میں سفر کرنے کے خواہش مند ہوتے تھے، ان کو کمپنی کی جانب سے خبردار کیا جاتا تھا کہ ’ٹائٹن ایک تجرباتی آبدوز ہے جس کی کسی اتھارٹی نے منظوری نہیں دی ہوئی۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ