’لاپتا‘ وزیراعظم، گینگ کی سربراہی کرنے والا سابق پولیس افسر اور ہزاروں مجرموں کا فرار: وہ ملک جہاں لاقانونیت کا راج ہے،تصویر کا ذریعہReuters

  • مصنف, وینیسا بششلوٹر
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، لاطینی امریکہ اور کیریبین ایڈیٹر
  • 2 گھنٹے قبل

لاطینی امریکہ کے ملک ہیٹی کے دارالحکومت کے 80 فیصد علاقوں پر مختلف گینگز یعنی مسلح گروہوں کا قبضہ ہے جبکہ جیلوں پر اُن مسلح گروہوں کے کارندوں کے حملے کے نتیجے میں ہزاروں قیدیوں کو رہا کروا لیا گیا ہے۔ گینگ لیڈر ملک کے وزیر اعظم کو کُھلم کھلا دھمکیاں دے رہے ہیں اور اُن کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔دوسری جانب ہیٹی کی حکومت نے اتوار کے روز ملک میں ایک بڑی جیل پر مسلح گروہوں کے حملے کے بعد ملک میں تین روزہ ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ جیل پر حملے کے نتیجے میں کم از کم 12 افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً 3700 سے زیادہ قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے ہیںدوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ ملک کے وزیر اعظم ایریل ہنری کہاں اور کس مقام پر موجود ہیں، فی الحال اس کا علم نہیں ہے۔ ہیٹی کے مسلح گروہ اِس وقت دارالحکومت ’پورٹو پرینس‘ کے تقریباً 80 فیصد حصے پر قابض ہیں اور یہاں گینگز کے ہاتھوں ہونے والے تشدد نے پورے ملک کو برسوں سے متاثر کر رکھا ہے۔

ہیٹی سے سامنے آنے والے مناظر دنیا بھر کے لیے چونکا دینے والے ہیں۔یہاں ہم اس بات پر نظر ڈال رہے ہیں کہ کس طرح مسلح گروپس اس ملک کے دارالحکومت اور دیگر علاقوں کے بڑے حصے پر غلبہ حاصل کر رہے ہیں۔ہیٹی کی تاریخ میں مسلح گروہوں نے طویل عرصے سے خونی کردار ادا کیا ہے۔ہیٹی پر فرانسوا دووالیئر اور اُن کے بیٹے جین کلاڈ کا 29 سالہ پر محیط دور آمریت رہا ہے۔ آمریت کے اس 29 سالہ دور میں ’ٹونٹن میکاؤٹس‘ نامی ایک نیم فوجی دستہ تشکیل دیا گیا جس کا کام فرانسوا کے خلاف کسی بھی طرح کی مخالفت کا سر کچلنا تھا۔ اس نیم فوجی دستے نے آمریت کو قائم رکھنے اور مخالفوں کو ختم کرنے کے لیے تشدد کا بے دریغ استعمال کیا۔اگرچہ جین کلاڈ سنہ 1986 میں جلاوطنی پر مجبور ہوئے لیکن مختلف مسلح گروہوں نے مختلف درجات کی طاقت کا استعمال جاری رکھا ہے۔ بعض اوقات ان کی ایسے سیاستدانوں کی طرف سے حفاظت اور حوصلہ افزائی کی جاتی رہی جن کے ساتھ انھوں نے اتحاد کیا ہوا تھا۔لیکن حالیہ برسوں میں تشدد کی لہر اُس وقت پھوٹ پڑی جب سات جولائی 2021 کو صدر جووینل موئسی کو قتل کر دیا گيا اور گینگز کے ہاتھوں ملک میں کشت و خون کا بازار گرم ہو گیا۔

صدر کی ہلاکت کے بعد تشدد میں اضافہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنصدر موئسی کے قتل کے بعد مسلح گروپوں کے تشدد میں اضافہ
ہیٹی کے صدر کو کولمبیا کے کرائے کے فوجیوں کے ایک گروہ نے اُس وقت ان کے گھر پر گولی مار کر ہلاک کر دیا جب انھوں نے ہیٹی کے اندر موجود ’تاریک قوتوں‘ کی مذمت کرنا شروع کی۔اگرچہ اس قتل میں استعمال ہونے والے حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے لیکن صدر کے قتل کی تحقیقات میں ابھی تک یہ بات سامنے نہیں آ سکی ہے کہ صدر کے قتل کا حکم کس نے دیا تھا۔صدر موئسی کے دور میں بھی گینگز کی جانب سے تشدد عروج پر تھا لیکن اُن کے قتل سے پیدا ہونے والے طاقت کے خلا نے ان گروہوں کو مزید علاقوں پر قبضہ کرنے اور زیادہ بااثر بننے کا موقع دیا۔اس کے بعد سے بس اتنا ہی نہیں کہ صرف صدر کا عہدہ خالی ہے بلکہ پارلیمان کے انتخابات کے انعقاد میں بار بار تاخیر کی وجہ سے تمام منتخب عہدیداروں کی مدت ختم ہو چکی ہے اور ملک کے ادارے بدنظمی کا شکار ہیں۔صدر موئسی کے قتل کے بعد سے ملک پر ایریل ہنری کی حکومت ہے لیکن وہ عوامی طور پر منتخب ہو کر نہیں آئے ہیں۔صدر موئسی نے ایریل ہنری کو اپنے قتل سے کچھ عرصہ قبل اپنا وزیر اعظم نامزد کیا تھا۔ اور ان کے منتخب نہ ہو کر اس عہدے پر تعینات ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ اُن کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔اس کے بعد سے ایریل ہنری کی مخالفت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کیونکہ انھوں نے جو انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تھا وہ پورا نہیں ہو سکا۔ان سب کے ساتھ عدم تحفظ میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ہیٹی کے لاکھوں باشندے اپنے گھروں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنوزیر اعظم ایریل ہنری کا کینیا کے دورے کے بعد سے کچھ اتا پتا نہیں ہے

وزیر اعظم کے سب سے بڑے ناقد

مسٹر ہنری کے سب سے بڑے ناقدوں میں سے ایک جمی چیریزیئر ہیں۔ وہ ایک سابق پولیس افسر تھے اور پولیس فورس سے نکالے جانے کے بعد وہ گینگ لیڈر بن گئے۔انھیں ’باربی کیو‘ کے عرفی نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ سابق پولیس اہلکار ’جی-9 نامی‘ مسلح گروہوں کی تنظیم کی قیادت کرتے ہیں۔ یہ تنظیم سنہ 2020 میں قائم ہونے والے نو جرائم پیشہ گروہوں کا اتحاد ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے سابق صدر موئسی کی سیاسی پارٹی سے روابط ہیں۔’باربی کیو‘ شروع سے ہی وزیر اعظم ہنری کی مخالفت کرتے آ رہے ہیں۔انھوں نے موئسی کے قتل کو استعمال کرتے ہوئے اپنے پیروکاروں کو تشدد پر اُکسایا اور وہ اسے ’جائز تشدد‘ کہتے ہیں۔اس کے بعد سے دارالحکومت پورٹو پرینس اور بطور خاص اُن علاقوں میں جہاں جمی چیریزیئر کے گروہ کا اثر و رسوخ ہے، وحشیانہ حملے اور لوٹ مار شروع ہو گئی۔اکتوبر 2021 میں ایریل ہنری کو ایک یادگار پر پھولوں کے ہار چڑھانے سے اس وقت روک دیا گیا جب جمی کے گینگ اراکین اچانک وہاں آ گئے اور انھوں نے بھاری ہتھیاروں سے ہوائی فائرنگ کی۔اپنے گروہ کے آدمیوں کے درمیان چمکیلے سفید سوٹ میں ملبوس جمی آگے آئے اور انھوں نے یادگار پر پھولوں کا ہار چڑھایا۔ یہ اُن کی طاقت کا ایک غیر معمولی مظاہرہ تھا۔ان کے جی-9 گینگ کی اپنے حریف گینگ جی-پیپ کے ساتھ بھی ایک عرصے سے خونریز جنگ جاری ہے۔ دو گروہوں کے درمیان علاقے میں فائرنگ اور لڑائیاں عام ہیں اور یہ غریب محلوں سے نکل کر اب پورٹو پرینس کے مرکز تک پھیل گئی ہیں۔

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشنہیٹی میں پرتشدد کارروائیوں کے باعث شہری بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے لیے مجبور ہوئے ہیں

نقل مکانی

انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے مطابق سنہ 2023 میں اس صورتحال کے باعث سکولوں اور ہسپتالوں کو بند کرنا پڑا اور 100,000 سے زیادہ لوگوں نے اپنے گھروں سے راہ فرار اختیار کیا۔ہلال احمر کی بین الاقوامی کمیٹی نے بی بی سی کو بتایا کہ ہیٹی میں شہریوں کو امداد پہنچانے کے لیے اس کے عملے کو سینکڑوں مسلح گروہوں سے بات کرنی پڑتی ہے۔اپنی طاقت کے مزید مظاہرے میں جی-9 گینگ نے سنہ 2022 میں ویریوکس ایندھن کے ٹرمینل کو بند کر دیا جس سے ملک میں ایندھن کی قلت پیدا ہوئی، اس کے ساتھ ادویات اور پینے کے پانی جیسی بنیادوں چیزوں کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔سنہ 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق ایک کروڑ دس لاکھ کی آبادی والے ملک ہیٹی میں قومی پولیس فورس میں فعال ڈیوٹی افسران کی تعدد محض نو ہزار ہے۔ یہ تعداد ان گروہوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے جو امریکہ سے سمگل کیے گئے اعلیٰ معیار کے ہتھیاروں سے لیس ہیں۔اقوام متحدہ کی انسانی ہمدردی کی کوآرڈینیٹر الریکا رچرڈسن کے مطابق دارالحکومت کا اسی فیصد حصہ اب ان گینگز کے کنٹرول میں ہے اور ان علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو ’غیر انسانی‘ سطح کے تشدد کا سامنا ہے۔مز رچرڈسن نے کہا کہ سنہ 2022 اور 2023 کے درمیان جنسی تشدد میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے خاص طور پر خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو گینگز کے ارکین کی جانب سے نشانہ بنایا گیا ہے۔مسٹر ہنری نے متعدد بار تشدد سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کا مطالبہ کیا ہے لیکن ابھی تک صرف بہاماس، بنگلہ دیش، بارباڈوس اور چاڈ نے اقوام متحدہ کو باضابطہ طور پر بتایا ہے کہ وہ سکیورٹی اہلکار بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔لیکن ابھی تک کوئی سکیورٹی اہلکار ان کی مدد کو نہیں پہنچا ہے۔،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنگینگ لیڈر جمی ’باربی کیو‘ چاہتے ہیں کہ انھیں انقلابی کہا جائے

انتشار اور مطالبے

تشدد میں تازہ ترین اضافے کے دوران ہی ہیٹی کے وزیراعظم ہنری کینیا کے دورے پر گئے تاکہ وہاں کے حکام کے ساتھ لابنگ کریں اور ہیٹی میں مزید 1,000 پولیس افسران کی تعیناتی کے اپنے وعدے کو پورا کر سکیں۔جہاں ہیٹی کے شہری مزید سکیورٹی کے لیے بے چین ہیں وہیں کچھ لوگ غیر ملکی سکیورٹی اہلکاروں کی اپنے ملک میں تعیناتی کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ہیٹی سنہ1791 کی کامیاب غلام بغاوت کے بعد فرانس سے آزاد ہوا، لیکن یہ سنہ 1915 سے 1934 تک امریکہ کے قبضے میں رہا۔ اس کے بعد 1994 اور 2004 کے درمیان یہاں امریکی فوجی مداخلتیں دیکھی گئیں۔ اس مداخلتوں نے بھی بہت سے لوگوں کو بیرونی ’مداخلت‘ کے معاملے میں محتاط کر دیا ہے۔مسٹر ہنری کے کچھ ناقدین کو خدشہ ہے کہ وہ کینیا کی پولیس فورس کو اپنی طاقت بڑھانے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔جمی ’باربی کیو‘ ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے ایریل ہنری پر غیر ملکی سکیورٹی اہلکاروں کو مدعو کر کے اپنی طاقت کو مستحکم کرنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا ہے۔سنہ 2022 میں گینگ لیڈر نے ’امن‘ کے لیے اپنا منصوبہ پیش کیا تھا جس میں یہ تجویز کیا کہ ان کے گینگ کے اراکین کو معافی کی پیشکش کی جائے اور ہیٹی کے 10 علاقوں کے نمائندوں کے ساتھ ایک کونسل بنائی جائے۔اس وقت انھوں نے اپنی گینگ کے بعض اراکین کو کابینہ میں عہدے دینے کا مشورہ بھی دیا تھا۔اس وقت سے ہی وہ دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ خود کو ایک ’انقلابی‘ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان سب کے پیچھے ان کا مقصد اپنے آپ کو ’ناجائز‘ لیڈر کی بدنامی سے نکالنا ہے۔یکم مارچ کو گینگ لیڈر ’باربی کیو‘ نے کہا کہ وہ ’ایریل ہنری سے لڑتے رہیں گے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک اس کی ضرورت ہے۔فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ ہیٹی کے وزیراعظم ہنری کہاں ہیں لیکن ہزاروں قیدی فرار ہونے کے ساتھ جی-9 کے طاقتور رہنما نے کھلے عام ان سے استعفے کا مطالبہ کر دیا ہے اور اس صورتحال کے باعث ملک میں فوری طور پر نظم و ضبط بحال کرنے کی کوشش اور بھی مشکل میں پڑ گئی ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}