پنجاب کے شہر ملتان کے نشتر اسپتال سے ملنے والی لاشوں کے معاملے نے ہر کسی کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔
لاوارث لاشوں کو اسپتال سے لے جانے کا کیا طریقہ کار ہوتا ہے؟ اور اس حوالے سے کیا قانونی عمل استعمال کیا جاتا ہے؟
اس حوالے سے جیو نیوز کراچی کے بیورو چیف فہیم صدیقی کا کہنا ہے کہ کراچی میں عام طور پر 48 سے 72 گھنٹے کے دوران ایک سے دو لاشیں سرکاری اسپتالوں میں لائی جاتی ہیں جن کی ماہانہ تعداد 15 سے 20 بنتی ہے، کراچی میں تین ایسے اسپتال ہیں جہاں پر میڈیکو لیگل آفیسر تعینات ہیں۔
فہیم صدیقی نے بتایا کہ متعلقہ تھانے کی پولیس لاشوں کی ذمہ دار ہوتی ہے، سرکاری اسپتال کا ایم ایل او تھانے کو آگاہ کرتا ہے اور جو پولیس افسر آتا ہے وہ دفعہ 174 کے تحت قانونی کارروائی کرتا ہے جس کے بعد اسی کی ذمہ داری ہوتی کہ وہ ان لاوارث لاشوں کو امانتاً کہاں رکھتا ہے؟ کیونکہ امانتاً اسے ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی دیا جاتا ہے، قانون یہ ہے کہ اگر ایک ماہ تک لاش کا کوئی والی وارث نہیں آتا تو ان لاشوں کو ایدھی کے قبرستان میں امانتاً دفن کر دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نشتر اسپتال میں ایسا کیوں ہوا اس کے بارے میں تو معلوم نہیں لیکن کراچی میں عام طور پر میڈیکل کالجز جب لاشیں مانگتے ہیں تو اس کا باقاعدہ ایک طریقہ کار ہے، کالجز پولیس اور محکمہ داخلہ کے ذریعے درخواست دیتے ہیں اور وہ لاشیں انہیں دے دی جاتی ہیں۔
فہیم صدیقی نے مزید کہا کہ مگر اب یہ طریقہ کار بھی کافی عرصے سے اختیار نہیں کیا جا رہا، اسپتالوں میں ڈمی باڈیز پر بچوں کو تعلیم دینے کا طریقہ اپنایا جا رہا ہے۔
بیورو چیف کراچی نے کہا کہ اگر کوئی ماہر ڈاکٹر طلبا کو کسی پیچیدہ چیز کے بارے میں بتانا ضروری سمجھتا ہے تو 24 گھنٹے یا اس سے بھی کم وقت کے لیے لاش کو لے کر جایا جاتا ہے اور پھر اسے امانتاً واپس کر دیا جاتا ہے۔
Comments are closed.