لائٹ ہاؤس: ایک کوچنگ کمپنی جو لوگوں کی زندگیاں اور پیسہ کنٹرول کرنے والا گروہ بن گئی

جیف
،تصویر کا کیپشن

جیف لی جونز کو لائٹ ہاؤس کا حصہ بنے ہوئے ابھی صرف چند ہی ماہ ہوئے تھے کہ ان کی گرل فرینڈ ڈان نے محسوس کیا کہ کچھ عجیب ہو رہا تھا۔

  • مصنف, کیٹرن نائی، ناتالی ٹرسویل اور جیمی بارلیٹ
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

لائٹ ہاؤس بظاہر ایک ایسی کمپنی ہے جو لوگوں کو اپنے خوابوں کی تکمیل کرنے میں مدد فراہم کرنے کے لیے کوچنگ دیتی ہے لیکن بی بی سی کی 18 ماہ کی تفتیش میں دیکھا گیا کہ یہ تنظیم لوگوں کی زندگیوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتی ہے، ان کو اپنے پیاروں سے دور کرتی اور ناقدین کو ہراساں کرتی ہے۔

جیف لی جونز کو لائٹ ہاؤس کا حصہ بنے ہوئے ابھی صرف چند ہی ماہ ہوئے تھے کہ ان کی گرل فرینڈ ڈان نے محسوس کیا کہ کچھ عجیب ہو رہا تھا۔ ’جیف پہلے جیسا نہیں رہا تھا۔‘

جیف کمپنی میں اس ارادے سے شامل ہوئے تھے کہ ان کو اپنی زندگی کا نیا رخ متعین کرنے میں مدد ملے گی۔ ان کا ارادہ تھا کہ وہ قطب جنوبی کا تنہا سفر کریں گے اور ان کو امید تھی کہ کمپنی کی ٹریننگ سے ان کو نظم و ضبط پیدا کرنے میں مدد ملے گی لیکن پھر جیف نے پورا پورا دن خفیہ فون کالز پر بات کرتے گزارنا شروع کر دیا۔

انھوں نے اپنے دوستوں اور خاندان کو وقت دینا کم کر دیا۔ جیف نے کمپنی میں سرمایہ کاری کے لیے اپنا گھر تک بیچ دیا۔

ایک دن ڈان نے جیف کی ایک فون کال سن لی لیکن اس میں قطب جنوبی کا کوئی ذکر نہیں تھا بلکہ یہ کال ان کے بارے میں تھی۔ جیف کو کہا جا رہا تھا کہ ان کو لائٹ ہاؤس اور اپنے خاندان میں سے کسی ایک کو چننا ہو گا۔

نومبر 2021 میں ڈان نے بی بی سی سے رابطہ کیا۔ وہ پریشان تھیں۔ انھوں نے کہا ’لائٹ ہاؤس کوئی عام کوچنگ تنظیم نہیں بلکہ ایک گروہ ہے۔‘

ڈان

،تصویر کا کیپشن

ڈان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’لائٹ ہاؤس کوئی عام کوچنگ تنظیم نہیں بلکہ ایک گروہ ہے۔‘

برطانیہ میں لائف کوچنگ ایک مقبول ہوتی ہوئی انڈسٹری ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ 80 ہزار سے ایک لاکھ افراد اس شعبے میں کام کر رہے ہیں تاہم اس کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے صارفین کے مستقبل پر توجہ دیتے ہیں۔

کم از کم باتوں کی حد تک یہ بات درست ہے کہ وہ لوگوں کو یہ جاننے میں مدد دیتے ہیں کہ وہ دراصل زندگی سے کیا چاہتے ہیں اور اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے ان کو کیا کرنا چاہیے۔

حالیہ برسوں میں لائٹ ہاؤس، جو باضابطہ طور پر لائٹ ہاؤس انٹرنیشنل گروپ کہلایا جاتا ہے، نے لاکھوں ڈالر فیس وصول کی ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ہزاروں افراد کی مدد کی ہے۔

اس کمپنی کو 2012 میں پال وا نے قائم کیا تھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ تنظیم دیگر کوچنگ کمپنیوں سے مختلف ہے۔

اس کمپنی کے بانی، جو جنوبی افریقہ میں پلے بڑھے، کا کہنا ہے کہ وہ 35 سال کی عمر میں ارب پتی بن گئے تھے اور انھوں نے لوگوں کی روحانی نشوونما کے لیے ایک انقلابی پروگرام تشکیل دیا۔

’مجھے ایک کامیاب شخص کی تلاش تھی‘

جیف نے لائٹ ہاؤس کو جے سنگھ کے ذریعے تلاش کیا جو اس تنظیم پر یقین رکھتے تھے اور ایک آن لائن بک کلب کا حصہ تھے۔

جیف کا کہنا ہے کہ ان کو کسی کامیاب شخص کی تلاش تھی جو ان کے لیے ایک مشعل راہ بن سکے اور جے میں ان کو وہ شخص مل گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس کو ان خیالات میں دلچسپی تھی جن میں میری دلچسپی تھی۔‘

جلد ہی دونوں روزانہ بات چیت کرنے لگے جو اکثر گھنٹوں تک جاری رہتی تھی۔ آہستہ آہستہ اس گفتگو کا مرکز جیف کی ذاتی زندگی بن گئی۔ ان کے ذاتی مسائل اور ماضی۔

جیف کہتے ہیں کہ ’آغاز میں یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا۔‘

انھوں نے ایک سال کے لیے 12 ہزار ڈالر کی فیس ادا کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں بہت متاثر ہوا تھا۔‘

چند ماہ بعد جے نے جیف کو پیشکش کی کہ وہ لائٹ ہاؤس کے ساتھ کام کریں۔ جیف بہت خوش ہوئے اگرچہ کہ ان کو 31 ہزار ڈالر اور دینا پڑنے تھے۔

جیف اور جے

،تصویر کا ذریعہLIGHTHOUSE AND YOUTUBE

،تصویر کا کیپشن

جیف اور جے

یہ کافی بڑی رقم تھی لیکن جے نے ان کو خبردار کیا کہ اگر انھوں نے فیصلہ کرنے میں دیر کی تو یہ رقم اور بڑھ جائے گی۔ جے نے ان سے کہا کہ ان کو یہ پیسہ واپس مل جائے گا کیونکہ کمپنی میں شامل ہونے کے بعد ان کو پیسہ بنانے کے بہت سے مواقع ملیں گے۔

جیف لائٹ ہاؤس کے الیکٹڈ ایسوسی ایٹ بن گئے۔ اس کا مطلب تھا کہ اب ان کو کمپنی میں شامل کاروباری شخصیات تک رسائی حاصل تھی اور وہ کمپنی کی روزانہ کی میٹنگ کا حصہ بن سکتے تھے اور کمپنی کی جانب سے ٹریننگ دینے والے بھی بن سکتے تھے۔

ان کو لائٹ ہاؤس کے باس پال وا کی جانب سے ہدایات بھی ملتیں۔ جے نے ان کو کہا کہ پال کے بل گیٹس اور وارن بوفے سے بھی روابط ہیں۔ جیف نے پیسہ لائٹ ہاؤس کے حوالے کر دیا اور کمپنی نے ان کی زندگی کا کنٹرول لینا شروع کر دیا۔

ہر صبح پانچ بجے جیف لائٹ ہاؤس کے کاروباری معاملات پر بات چیت کی تیاری کرتے۔ آغاز میں ہلکی پھلکی بات چیت ہوتی لیکن چھ ماہ کے اندر اس میٹنگ کا دورانیہ پانچ سے چھ گھنٹے پر جا پہنچا جس میں 30 لوگ شامل ہوتے۔

جیف ایک کمرے میں بند ہو کر لیپ ٹاپ پر نظریں مرکوز کرتے اور پال وا کے خیالات لکھتے۔ صبح پانچ سے رات دس بجے تک کا یہ شیڈول کسی اور کام کے لیے وقت نہیں دیتا تھا۔

روحانی مراحل

لائٹ ہاؤس میں جو چیز سب سے اہم سمجھی جاتی ہے وہ روحانی مرحلے ہیں۔ پال وا نے امریکی ماہر نفسیات سکاٹ پیک کے خیالات کو مستعار لیا اور دعویٰ کیا کہ ہر شخص روحانی نشوونما کے سفر میں کسی ایک مرحلے پر کھڑا ہے۔

پہلا مرحلہ ایک بچے جیسا ہے جبکہ چوتھا مرحلہ ایک ایسی شخصیت کا جو کسی قسم کی قید اور خوف سے آزاد ہو جاتا ہے۔

پال نے اپنی کال میں کہا کہ کامیابی کی کنجی چوتھے مرحلے تک رسائی حاصل کرنے میں ہے۔ جیف کو بتایا گیا کہ ان کو اس مقام تک پہنچنے کے لیے ہفتوں محنت کرنا ہو گی لیکن ہفتے مہینوں میں بدل گئے اور مہینے ایک سال میں۔

پال وا

،تصویر کا کیپشن

پال وا

جب جیف مایوس ہوتے تو جے ان کو اور محنت کرنے پر اکساتے اور سستی سے باز رہنے کا کہتے۔

دراصل لائٹ ہاؤس میں صرف ایک ہی شخص چوتھے مرحلے پر موجود تھا اور وہ خود پال واہ تھے۔ باقی سب پہلے مرحلے پر ہی پھنسے ہوئے تھے اور اس کی وجہ بقول پال واہ یہ تھی کہ ان کے گرد منفی اثرات بہت تھے۔

پال نے بعد میں کہا کہ کمپنی کے چند اعلی عہدیداران چوتھے مرحلے تک پہنچ چکے ہیں۔

لائٹ ہاؤس نے اس سوچ کو بھی پروان چڑھایا کہ ترقی کے اس سفر میں سب سے بڑی رکاوٹ عام طور پر کسی شخص کے دوست اور خاندان ہوتے ہیں۔

جیف کہتے ہیں کہ ہر خاندان میں مشکلات ہوتی ہیں اور لائٹ ہاؤس ان کو ڈھونڈ نکالتا ہے۔ ’وہ آپ کی تربیت کے دوران یہ باتیں تلاش کر لیتے ہیں۔‘

ایرن بھی ایک ملتی جلتی کہانی سناتی ہیں۔ وہ طلاق کے بعد کمپنی کا حصہ بنی تھیں اور ان کو ایک نئے کیریئر کی تلاش تھی۔

ایرن نے تربیت کے دوران اپنے استاد، جسے ’مینٹور‘ کہا جاتا ہے، کو بتایا کہ 13 سال کی عمر میں ان کے خاندان کے ایک فرد نے ان کو جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا تھا۔

لائٹ ہاؤس نے ان سے کہا کہ وہ اپنے والدین کے خلاف مقدمہ کریں اور ان سے بہتر خیال نہ کرنے پر ہرجانہ وصول کریں۔

ایرن کا اب ماننا ہے کہ یہ سب زیادہ پیسہ حاصل کرنے کا طریقہ تھا جو ان سے لائٹ ہاؤس میں سرمایہ کاری کروانے کے لیے استعمال کیا جاتا۔

پال وا نے ایرن کو ایک فون کال میں کہا کہ ’تم اپنا غصہ ان پر کیوں نہیں نکالتی؟ تم انصاف حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہی؟‘

’دی باس‘

ہم نے ایسے 20 افراد سے بات کی جو لائٹ ہاؤس چھوڑ چکے ہیں۔ ان لوگوں نے بھی کمپنی میں نئے کیریئر کی تلاش میں شمولیت اختیار کی اور آغاز میں وہ کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار تھے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ان کو یہ بتایا گیا کہ ان کو اپنے خاندان والوں سے دور رہنا ہو گا۔

واضح رہے کہ کوچنگ انڈسٹری نفسیات کی طرح نہیں اور کوئی بھی کوچ بن سکتا ہے۔

پال وا کا کہنا ہے کہ ’اصل میں تو تجربہ ہوتا ہے۔ مینٹورنگ کوئی قابلیت نہیں۔‘

غلط ہاتھ

لیکن غلط ہاتھوں میں یہ تجربہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ لائٹ ہاوس میں شمولیت سے قبل 30 سالہ انتھونی چرچ ڈپریشن کے مریض تھے اور خودکشی کی کوشش کر چکے تھے۔

لیکن جے سنگھ کے ساتھ تربیتی کلاس کا ان کو فائدہ محسوس ہوا اور انھوں نے اپنی آدھی جمع پونجی جو چھ ہزار ڈالر تھی جے کے حوالے کر دی۔

کچھ عرصہ بعد جے نے ان کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ اپنی دوائی کی مقدار کم کردیں اور ان کو یہ بھی بتایا کہ وہ ڈاکٹروں سے کیا کہیں کہ ان کو یقین ہو جائے کہ ان کی ذہنی صحت بہتر ہوئی ہے۔

ان فون کالز کی ریکارڈنگ بی بی سی کو موصول ہوئی ہیں جن میں جے انتھونی سے کہتا ہے کہ ’دوائی کوئی طویل المدتی حل نہیں کیونکہ یہ انسان کو خود سے فیصلہ کرنے میں مدد نہیں کرتیں۔‘

 انتھونی چرچ

،تصویر کا کیپشن

انتھونی چرچ

جب ایک ڈاکٹر نے ان کی دوا کی مقدار کم کر دی تو انتھونی کو مسائل کا سامنا ہوا۔ جے نے ان سے کہا کہ یہ دوا چھوڑنے کے عمل کا حصہ ہے۔

برطانوی ماہرین نفسیات کی تنظیم کی صدر کیرولین جیسپر نے ان فون کالز کو سن کر کہا کہ اگر ان کی تنظیم کا کوئی رکن ایسی بات کرتا تو اس کی تفتیش ہوتی۔

پیسے کی واپسی

لائٹ ہاؤس کا حصہ بن جانے والوں کو پیسے کے بارے میں مختلف وضاحتیں دی گئیں تاہم ان سب سے کہا گیا کہ اس رقم کے بدلے ان کی زندگی بدل جائے گی۔

اکثر ان سے کہا گیا کہ ان کو یہ پیسہ نئے کاروباری خیالات کی شکل میں واپس مل جائے گا۔ ان سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ لائٹ ہاؤس کے خیراتی کام میں مدد کر رہے ہیں۔

سابق ارکان نے بتایا کہ ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی کہ وہ ادھار کی رقم سے کورس مکمل کریں۔ ایرن کا کہنا ہے کہ جے سنگھ کے کہنے پر انھوں نے کریڈٹ کارڈ بھی بنوا لیا۔

لائٹ ہاؤس کے ساتھ کام کرنے کے لیے جیف نے اپنا گھر بیچ ڈالا اور ایک لاکھ 63 ہزار ڈالر کی سرمایہ کاری کی لیکن جن لوگوں سے ہم نے بات کی، کسی کو بھی پیسے واپس وصول نہیں ہوئے۔

ناقدین پر حملے

دو سال بعد جیف کے ذہن میں شکوک پیدا ہونا شروع ہو گئے تاہم وہ جانتے تھے کہ لائٹ ہاؤس اپنے ناقدین کے لیے کافی بے رحم ثابت ہوتا ہے۔

جب انتھونی نے سوال کیا کہ آیا لائٹ ہاؤس واقعی ان کی مدد کر رہا تھا تو جے نے ان سے کہا کہ وہ دوا چھوڑنے کی وجہ سے ٹھیک سے سوچ نہیں پا رہے۔

جب انھوں نے کمپنی کو چھوڑ دیا اور اس کے بارے میں باقی لوگوں کو بتایا تو جے نے دھمکی دی کہ وہ پولیس کو فون کر دے گا۔

ایک اور شخص نے، جو سکول میں پڑھاتے تھے، اپنے تجربات ایک آن لائن فورم پر بتائے تو لائٹ ہاؤس کے ایک رکن نے ان کے سکول فون کیا اور کہا کہ وہ بچوں کے لیے خطرہ ہیں۔

لائٹ ہاؤس

جب ایرن نے اپنے پیسے کے بارے میں پوچھا تو پال نے ان کو یاد دلایا کہ ان کی جنسی ہراسانی کے انکشافات کی ٹیپ اس کے پاس ہیں۔

ایرن کہتی ہیں کہ ’میں بہت برا محسوس کر رہی تھی۔‘

جب آخر کار انھوں نے لائٹ ہاؤس کو خیر آباد کہا تو پال نے اپنی دھمکی کو ایرن کا نام لے کر ایک یو ٹیوب ویڈیو میں عملی جامہ پہنا دیا۔

لیکن بعد میں جب پال کو خبردار کیا گیا کہ جنسی ہراسانی کے جرم کا شکار ہونے والوں کی مرضی کے بغیر ان کی شناخت ظاہر کرنا ایک جرم ہے تو انھوں نے ایرن کا نام ہٹا دیا۔

جیف کے لیے وہ لمحہ اہم تھا جب وہ اپنے والد سے ملنے امریکہ گئے۔ لائٹ ہاوس سے دوری نے ان کو مختلف انداز میں سوچنے کا وقت دیا۔

ان کو یاد آیا کہ ایک بار جب وہ پال کے ساتھ گولف کھیل رہے تھے تو ایک رکن ان کے پیچھے سامان اٹھائے بھاگ رہا تھا اور ایک مقام پر اس نے پال کے جوتے کے تسمے بھی خود باندھے۔

جیف نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تو پال نے ان پر پیغامات کی بوچھاڑ کر دی۔ ان میں سے کچھ دوستانہ تھے لیکن کچھ میں ان پر اپنا فیصلہ واپس لینے کے لیے دباؤ بھی ڈالا گیا۔

لائٹ ہاوس نے ان سے کہا کہ ان کو اپنی سرمایہ کاری کے لیے دو سال انتظار کرنا ہو گا اور اگر انھوں نے کوئی تنازعہ کھڑا کیا تو وہ اس پیسے سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ناقدین پر حملہ کرنا اس گروپ کی حکمت عملی کا حصہ لگتا ہے۔ جب ہم نے ان الزامات کے ساتھ پال اور لائٹ ہاؤس کا سامنا کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ ڈیٹا پروٹیکشن قوانین کی وجہ سے جواب نہیں دے سکتے۔

انھوں نے بی بی سی پر الزام لگایا کہ وہ کمپنی کو بدنام کرنے کی سازش کا حصہ ہیں اور انھوں نے ایسے لوگوں کو نشانہ بنایا جن کا ہم نے انٹرویو کیا تھا۔

ٹوئٹر نے لائٹ ہاوس سے منسلک متعدد اکاوئنٹ معطل کیے کیونکہ ان کی جانب سے نفرت انگیز مہم چلائی جا رہی تھی۔

لائٹ ہاؤس کا خوف

پال وا

،تصویر کا کیپشن

پال وا

ہم نے تقریبا 40 افراد سے بات چیت کی جو ماضی میں لائٹ ہاؤس سے منسلک رہے ہیں۔ وہ سب ہی بات کرنے سے ڈر رہے تھے تاہم سب کا کہنا تھا کہ ان کو وہ زندگی نہیں مل سکی جس کا پال نے وعدہ کیا تھا۔

ان سب لوگوں نے کہا کہ لائٹ ہاؤس ایک گروہ کی طرح ہے۔ ہم نے امریکہ برطانیہ اور کینیڈا میں ایسے گروہوں پر کام کرنے والے 10 مختلف افراد سے بات کی۔

ان میں پی ایچ ڈی ماہر بھی شامل تھے جن میں سے سات نے کہا کہ ان کے خیال میں لائٹ ہاوس واقعی ایک گروہ ہے۔

دو نے مختلف نام لیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ ان کو اس کمپنی کے بارے میں تشویش ہے۔ ایک ماہر نے رائے دینے سے انکار کیا۔

’کیٹالسٹ‘ ایک خیراتی ادارہ ہے جس کا کہنا ہے کہ ان کو لائٹ ہاؤس کے بارے میں 30 سے زیادہ لوگوں نے رابطہ کیا جن کو مدد کی ضرورت تھی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے گروہ موقع پرست ہوتے ہیں اور ان کو اس نگاہ سے جانچا جاتا ہے کہ وہ اپنے رکن کی زندگی، وقت اور پیسے حتی کہ سوچ کو کس حد تک کنٹرول کرتے ہیں۔

کرینا کے بھائی کرس بھی لائٹ ہاؤس کا حصہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچپن میں ان کا تعلق اچھے دوستوں جیسا تھا۔ لیکن گذشتہ سال جب کرینا نے لائٹ ہاوس سے متعلق اپنے خدشات کا اظہار کیا تو کرس نے پولیس کو فون کر دیا۔

کرینا کہتی ہیں کہ ’یہ پاگل پن ہے۔‘

لائٹ ہاؤس پر مقدمہ

رواں سال فروری میں برطانوی حکومت نے لائٹ ہاؤس کی کمپنی لائٹ ہاوس انٹرنیشنل گروپ ہولڈنگ کو بند کرنے کی درخواست کی۔

جون 2022 میں کامرس سیکرٹری نے کہا کہ یہ کمپنی عوامی مفاد کے خلاف کام کر رہی ہے۔

حکومتی تفتیش کاروں کی جانب سے عدالت میں جمع کرائی گئی دستاویزات کے مطابق لائٹ ہاؤس نے تفتیش میں تعاون نہیں کیا جس کی وجہ سے ان کے کاروبار کی اصل معلومات حاصل کرنا ممکن نہیں تھا۔

پال وا نے پانچ بار تفتیش میں شامل ہونے سے انکار کیا۔ بعد میں پتا چلا کہ مارچ 2018 سے جولائی 2022 تک پال کو 1.4 ملین ڈالر وصول ہوئے جو کمپنی کی آمدن کا نصف ہے۔ یہ کمپنی بظاہر کسی قسم کا ٹیکس نہیں ادا کرتی۔

پال کا مؤقف ہے کہ یہ رقم ان کو اس لیے ملی کیونکہ وہ کمپنی کا زیادہ تر خرچہ خود چلاتے ہیں اور کمپنی میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری بھی ان کی ہی ہے۔

29 مارچ کو لندن میں مقدمے کی سماعت ہوئی جہاں حکومتی تفیش کاروں نے عدالت کو بتایا کہ یہ واضح نہیں کہ لائٹ ہاؤس کیا کرتی ہے۔ جج شیرل جونز نے فیصلہ کیا کہ اس کمپنی کو بند کر دینا عوامی مفاد میں ہو گا۔

جب پال عدالت سے نکلے تو انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ کچھ وقت کے لیے لائٹ ہاؤس کو بند کریں گے لیکن گروپ اپنا کام نہیں چھوڑے گا کیونکہ اب یہ عالمی سطح پر کام کرے گا۔ پال نے تمام الزامات کی تردید کی۔

تنقید کا شکار ہونے کے بعد اس گروپ نے کوشش کی ہے کہ اپنی ساکھ کو بحال کرے اور اس کام کے لیے مذہب کا سہارا لیا جا رہا ہے۔

جیف کہتے ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے کہ جو لوگ اب بھی لائٹ ہاؤس کا حصہ ہیں وہ سوچتے ہوں گے کہ ان کو پال کی حفاظت کرنی ہے۔‘

جس دن جج نے ان کی کمپنی کو بند کیا، پال نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’میں نے جج سے کہا کہ ہماری پرانی کمپنی کو بند کر دیں۔‘

ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ ایک ماسٹر سٹروک تھا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ