لاؤس: ’تاریخ میں سب سے زیادہ بمباری کا شکار ملک‘ جہاں بچوں کو 50 سال بعد بھی باہر کھیلنے کی اجازت نہیں

لاؤس

،تصویر کا ذریعہMAG/BART VERWEIJ

لاؤس ایک نیوٹرل ملک تھا لیکن ویتنام کی جنگ میں اس ملک میں بہت تباہی ہوئی۔

پورشیا سٹریٹن لاوس میں مائنز ایڈوائزری گروپ کی ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’دنیا کی تاریخ میں لاؤس پر سب سے زیادہ بمباری کی گئی۔‘ ان کا ادارہ بارودی سرنگیں، بم اور دیگر ایسا مواد تلاش کر کے تلف کرتا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ 1964 سے 1973 تک تقریباً چھ لاکھ بمبار مشن کے ذریعے لاؤس پر 20 لاکھ ٹن اسلحہ پھینکا گیا جس کا حساب لگایا جائے تو اس مقدار کا مطلب ہے کہ نو سال تک ہر 24 گھنٹے کے دوران ہر آٹھ منٹ بعد ایک طیارہ بم گراتا تھا۔

ان میں کلسٹر بم بھی شامل تھے جن میں سے 30 فیصد پھٹنے میں ناکام رہے۔

اتنے وسیع پیمارے پر بمباری کرنے والا ملک امریکہ تھا۔ ویتنام کے ساتھ دو ہزار کلومیٹر طویل سرحد کی وجہ سے لاؤس کے لیے ویتنام کے تنازعے سے دور رہنا ناممکن تھا۔

اس کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ امریکہ مخالف جنوبی ویتنامی جنگجوؤں کی رسد کا راستہ لاؤس سے ہی گزرتا تھا۔

اس سال ویتنام سے امریکی انخلا کے 50 سال مکمل ہوئے۔ لاؤس پر بمباری کے اختتام کو بھی 50 سال ہو چکے ہیں لیکن اس ملک میں اب تک وسیع تعداد میں ایسے بم موجود ہیں جو پھٹ نہیں سکے تھے۔

لاؤس

،تصویر کا ذریعہMAG/BART VERWEIJ

چھپا ہوا خطرہ

1975 میں لاؤس کی خانہ جنگی ختم ہوئی تو اقتدار پیتھیٹ لاؤ کے ہاتھوں میں تھا۔ اس وقت سے لاؤس میں کمیونسٹ ریاست قائم ہے جس پر ایک ہی جماعت برسراقتدار ہے۔ کئی سال تک لاؤس باقی دنیا سے بالکل کٹا رہا۔

اسی لیے مائنز ایڈوائزری گروپ جیسی غیر سرکاری تنظیموں کو ملک میں کام کرنے کی اجازت حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔ 1994 میں آخرکار ان کو اجازت ملی۔

اس وقت تک ہزاروں افراد جنگ کے بعد باقی رہ جانے والے اسلحہ کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ جنگ کے خاتمے کے 50 سال بعد بھی یہ جان لیوا ہے۔

پورشیا کا کہنا ہے کہ 2021 میں ایسے واقعات میں اضافہ ہوا جبکہ 2020 میں 63 واقعات ہوئے۔

ان میں سے زیادہ تر واقعات لاؤس کے شمال مشرقی صوبے زینگ خوانگ میں ہوئے۔

پورشیا کہتی ہیں کہ ’متاثر ہونے والوں کی اکثریت کسانوں اور بچوں کی ہے۔ میں بہت سے خاندانوں سے ملی جو اپنے بچوں کو اسی ڈر سے باہر کھیلنے نہیں دیتے۔‘

61 سالہ یوا تھیانگ کا شمار ایسے ہی افراد میں ہوتا ہے جن کو روزانہ کی بنیاد پر اس خطرے سے نمٹنے پڑتا ہے کہ کہیں کوئی بم یا بارودی سرنگ ان کی جان نہ لے لے۔

لاؤس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

وہ اپنی زمین کو جلا کر کاشت کاری کے لیے تیار کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک موقع پر ان کو ایک دھماکہ خیز مواد ملا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ بہت سے کسان ایسے ہی ہلاک ہو چکے ہیں۔

لاؤس میں بہت زیادہ کلسٹر بم پھینکے گئے تھے اس لیے اس بات کا کافی امکان ہوتا ہے کہ اگر آپ کو ایک بم ملا ہے تو قریب ہی اور بم بھی موجود ہو سکتا ہے۔

اسی لیے جب یوا تھیانگ کا سامنا دھماکہ خیز مواد سے ہوا تو انھوں نے مائنز ایڈوائزری گروپ کو خبردار کیا جس کی ٹیم نے موقع پر پہنچ کر ان کی زمین کا جائزہ لیا۔

ان کو ٹینس کی گیند کے حجم کا بی ایل یو 26 میونیشن ملا جو زنگ آلود ہو چکا تھا اور پتوں کے ڈھیر میں چھپا ہوا تھا۔

آبادی کو بچانے کے لیے مائنز ایڈوائزری گروپ کے نمائندے سکولوں میں جا کر طلبا کو خطرات سے آگاہ کرتے ہیں اور ان کو بتاتے ہیں کہ ان کو کیا کرنا چاہیے۔

اس مہم کے دوران سکول میں بچوں کو ویڈیو دکھائی جاتی ہے کہ جہازوں سے بم کیسے پھینکے گئے اور جنگ کے لاؤس پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔ پھر ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ دیوار پر چسپاں ایک چارٹ کے ذریعے مختلف قسم کے بموں کی شناخت کریں تاکہ ان کو علم ہو سکے کہ زمین پر موجود کس قسم کی اشیا کو چھونے سے گریز کرنا چاہیے۔

لاؤس

،تصویر کا ذریعہMAG/BART VERWEIJ

ترقی پر اثر

لاؤس ایسے بموں کی وجہ سے کافی متاثر ہوا۔ لاؤس میں امریکی سفیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سب سے پہلے تو جان کا نقصان ہے کیونکہ لوگ ہلاک ہوتے ہیں اور زخمی ہوتے ہیں لیکن وہ لوگ بھی ہیں جن کو نفسیاتی طور پر اثر ہوتا ہے اور پھر لوگ اپنی زمین استعمال نہیں کر سکتے۔‘

’اس سے کاشت کاری پر اثر پڑتا ہے۔ لاؤس کی معیشت دیہی زراعت پر منحصر ہے اور آبادی کا بڑا حصہ متاثرہ علاقوں میں کاشت کاری سے جڑا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’متاثرہ علاقوں میں زمین کو صاف کرنے کا اضافہ خرچہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہاں کچھ بھی تعمیر کرنے کے لیے، سڑک، سکول یا سرکاری عمارت، آپ کو اضافی پیسہ درکار ہوتا ہے کیونکہ زیر زمین دھماکہ خیز مواد کو ہٹانا ہوتا ہے۔‘

گذشتہ سال امریکی حکومت نے لاؤس کے لیے 45 ملین ڈالر رقم مختص کی تاکہ ایسا دھماکہ خیز مواد تلف کیا جا سکے۔ اسی امداد کے ذریعے مائنز ایڈوائزری گروپ جیسی تنظیموں کو بھی وسائل فراہم کیے گئے۔

لاؤس کی حکومت کا کہنا ہے کہ 2030 تک وہ ایسے تمام مواد کا خاتمہ چاہتی ہے تاکہ ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کو دور کیا جا سکے۔

ماہرین کی رائے میں یہ سب اتنی جلدی ممکن نہیں ہو سکے گا۔

امریکی کانگریشنل ریسرچ سروس کے ایک تجزیے کے مطابق موجودہ تناسب سے لاؤس کو اس خطرے سے پاک ہونے کے لیے ایک صدی درکار ہو گی۔

BBCUrdu.com بشکریہ