’قید تنہائی:‘ آدم بیزار نوجوان جو کئی سال اپنے کمرے سے بھی باہر نہیں نکلتے
یو سیونگ نے بتایا کہ وہ کالج گئے تھے کیونکہ ان کے والد ایسا چاہتے تھے لیکن ایک ماہ بعد انھوں نے کالج کو خیرآباد کہہ دیا
سنہ 2019 میں یو سیونگ گیو پہلی بار اس سٹوڈیو سے باہر نکلے، جہاں وہ پانچ برس سے مقیم تھے۔
30 برس کے یو سیونگ گیو نے سب سے پہلے اپنے بھائی کے ساتھ اپنے ’گندے اپارٹمنٹ‘ کو صاف کیا۔ اس کے بعد وہ اپنے ہی جیسے معاشرے سے کٹے ہوئے دیگر نوجوانوں کے ساتھ ماہی گیری کی مہم پر نکل گئے۔
یوسیونگ کی ان نوجوانوں سے ملاقات ایک خیراتی ادارے کے ذریعے سے ہوئی۔
اپنے اس تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے یو سیونگ نے کہا کہ ’سمندر میں ہونے کا ایک عجیب سا احساس تھا، لیکن ساتھ ہی یہ تنہائی کی زندگی گزارنے کے بعد بہت تازگی کا باعث بھی تھا۔ یہ احساس غیر حقیقی معلوم ہوتا تھا مگر یہ احساس اپنی جگہ موجود تھا۔‘
جنوبی کوریا میں نوجوانوں اور خاص طور پر نوعمر لڑکوں کی بڑی تعداد اپنے آپ کو سوسائٹی سے الگ تھلگ رکھ رہے ہیں، جس کی معاشرہ بھاری قیمت چکا رہا ہے۔
جنوبی کوریا میں، جو دنیا کی سب سے کم شرح پیدائش اور گرتی ہوئی پیداواری صلاحیت سے نبرد آزما ہے، یہ ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔
یہاں تک کہ حکام ان نوجوانوں کو گھروں سے نکالنے کے لیے آمادہ کرنے پر ایک مخصوص ماہانہ رقم کی پیشکش بھی کر رہے ہیں۔
کم آمدن والے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے اور نو سے 24 سال کی عمر کے درمیان والے افراد اپنی کفالت کے لیے ماہانہ 490 امریکی ڈالر کے برابر رقم کے اہل قرار دیے گئے ہیں۔
وہ صحت، تعلیم، مشاورت، قانونی مدد، ثقافتی سرگرمیاں، اور یہاں تک کہ اپنے چہرے پر دھبوں کے علاج سمیت متعدد دیگر خدمات کے لیے سبسڈی کے لیے بھی درخواست دے سکتے ہیں۔
جنوبی کوریا کی صنفی مساوات اور خاندان (جینڈر ایکیولٹی اینڈ فیملی) کی وزارت نے کہا ہے کہ اس کا مقصد ’خود ساختہ قید اختیار کرنے والے نوجوانوں کو اپنی روزمرہ کی زندگی دوبارہ شروع کرنے اور معاشرے میں دوبارہ ضم ہونے کے قابل بنانا ہے۔‘
یہ نوجوان جنھوں نے اپنے آپ کو طویل عرصے کے لیے ایک جگہ تک محدود رکھا ہوا ہے، بیرونی دنیا سے منقطع ہیں اور انھیں ایک عام زندگی گزارنے میں خاصی دشواری کا سامنا ہے۔
معاشرے سے الگ تھلگ ان نوجوانوں کا کہنا ہے کہ اس مسئلے پر قابو صرف پیسہ دینے سے ممکن نہیں۔
یو سیونگ اب ایک کمپنی چلاتے ہیں جو ’قید تنہائی‘ اختیار کرنے والے نوجوانوں کی مدد کرتی ہے۔
ایک وقت تھا جب یو سیونگ باتھ روم استعمال کرنے کے لیے بھی اپنا کمرہ نہیں چھوڑتے تھے لیکن اس قید سے نکلنے کا ان کا سفر اتار چڑھاؤ سے بھرپور ہے۔
انھوں نے سب سے پہلے 19 سال کی عمر میں معاشرے سے دوری اختیار کر لی۔ وہ دو سال کے لیے اپنی لازمی فوجی خدمات انجام دینے کے لیے وہ اس صورتحال سے باہر آئے اور پھر مزید دو سال کے لیے خود کو دوبارہ بند کر لیا۔
’یہ پیسے کا سوال نہیں‘
34 سالہ سابق ہرمیٹس پارک تائی ہانگ نے وضاحت کی کہ خود کو الگ تھلگ رکھنا کچھ لوگوں کے لیے ’تسلی بخش‘ ہو سکتا ہے۔
ہرمیٹس یا ’ہیکیکوماری‘ کی اصطلاح جاپان میں پہلی بار 90 کی دہائی میں استعمال ہوئی، یہ معاشرے سے انتہائی کٹ کر رہنے والے بیزار یا ناراض نوجوانوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
پارک تائی ہانگ کے مطابق جب آپ نئی چیزوں کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں تو یہ پرکشش نظر آتا ہے لیکن جب آپ صرف اپنے کمرے میں ہوتے ہیں تو آپ کو تھکاوٹ اور اضطراب کی مخصوص سطحوں سے بھی نمٹنا پڑتا ہے۔
کوریا انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ سوشل افیئرز کے مطابق ملک میں 19 سے 39 سال کی عمر کے تقریباً تین لاکھ چالیس ہزار افراد، یا اس عمر کے تین فیصد افراد خود کو معاشرے سے تنہا یا الگ تھلگ سمجھتے ہیں۔
تحقیق سے جنوبی کوریا میں ایک فرد والے گھرانوں کے بڑھتے ہوئے تناسب کا بھی اندازہ لگایا گیا، جو سنہ 2022 میں تمام گھرانوں کا تقریباً ایک تہائی تھا لیکن پیسہ یا اس کی کمی ان نوجوانوں کو الگ تھلگ رہنے کی ترغیب نہیں دے رہی۔
پارک تائی کا کہنا ہے کہ ’وہ مختلف قسم کے معاشی پس منظر سے آتے ہیں۔ ’میں حیران ہوں کہ حکومت تنہائی کو مالی حیثیت کے ساتھ کیوں جوڑتی ہے۔
ان کے مطابق تمام تنہائی اختیار کرنے والے نوجوان مالی طور پر جدوجہد نہیں کرتے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’جن افراد کو پیسوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے وہ خود کو معاشرے کے مطابق ڈھالنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ ایسے بہت سے کیس ہیں۔‘
مثال کے طور پر وہ اور یوسیونگ دونوں نے اپنے والدین سے مالی مدد حاصل کی، جب وہ تہنائی کی زندگی بسر کر ہے تھے۔
’شرم کی ثقافت‘
’ہرمیٹس‘ افراد میں یہ چیزعام ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ معاشرے یا اپنے خاندان کے کامیابی کے معیار پر پورا نہیں اترے۔ کچھ لوگ غلط محسوس کرتے ہیں کیونکہ وہ روایتی کرئیر کی پیروی نہیں کر رہے ہیں جبکہ دوسروں کو ناقص تعلیمی کارکردگی کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
یو سیونگ نے کہا کہ وہ کالج گئے تھے کیونکہ ان کے والد ایسا چاہتے تھے لیکن ایک ماہ بعد انھوں نے کالج کو خیرآباد کہہ دیا۔
انھوں نے کہا کہ ’یونیورسٹی جانے سے مجھے شرمندگی ہوئی۔‘ انھیں یہ بھی نہیں لگتا تھا کہ وہ اس موضوع پر اپنے والدین سے بات کر سکتے ہیں۔
یوسیونگ نے کہا کہ ’کوریا میں شرم کا ’کلچر‘ ہرمیٹس کے لیے اپنے مسائل کے بارے میں بات کرنا زیادہ مشکل بنا دیتا ہے۔‘
ان کے مطابق وہ ایک دن اس نتیجے پر پہنچے کہ میری زندگی غلط سمت کی طرف جا رہی ہے اور انھوں نے پناہ کی تلاش شروع کر دی۔
اپنی تنہائی کے دوران، وہ باتھ روم استعمال کرنے کے لیے بھی باہر نہیں نکلتے تھے کیونکہ وہ اپنے خاندان کا سامنا نہیں کرنا چاہتے تھے۔
پارک نے اس بارے میں بتایا کہ ’میری ماں اور باپ اکثر بچپن سے لڑتے آ رہے تھے۔ اس چیز نے میری سکول کی زندگی کو بھی متاثر کیا۔ کوریا میں سکول بہت مشکل ہوتا ہے اور مجھے یہ مشکل لگتا تھا۔ میں اپنی دیکھ بھال کرنے کے قابل نہیں تھا۔‘
انھوں نے سنہ 2018 میں تھراپی سیشن لینا شروع کیے جب وہ 28 سال کے تھے اور اب آہستہ آہستہ اپنی سماجی زندگی کو بہتر بنا رہے ہیں۔
34 سالہ پارک تائی ہانگ نے وضاحت کی کہ خود کو الگ تھلگ رکھنا کچھ لوگوں کے لیے ’تسلی بخش‘ ہو سکتا ہے
ایک روایتی معاشرے کی توقعات
سیڈ نامی تنظیم کے مینیجر کم سو جن نے کہا کہ جنوبی کوریا میں نوجوانوں میں ’مظلومیت‘ کا احساس پایا جاتا ہے کیونکہ معاشرہ لوگوں سے توقع کرتا ہے کہ جب وہ ایک خاص عمر کو پہنچ جائیں تو وہ ایک خاص طریقے سے برتاؤ کریں۔
’جب وہ ان توقعات پر پورا نہیں اتر سکتے، تو وہ سوچتے ہیں کہ ’میں ناکام ہو گیا ہوں، میں پہلے ہی دیر کر چکا ہوں۔‘ اس قسم کا سماجی ماحول ان کی خود اعتمادی کو متاثر کرتا ہے اور بالآخر انھیں معاشرے سے الگ تھلگ کر سکتا ہے۔‘
سیڈ نامی یہ تنظیم ایک ایسا سینٹر بھی چلاتی ہے، جہاں ہرمیٹس آرام کرنے، پرسکون وقت گزارنے اور مشورہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سینٹر کے دروازے آمدن سے قطع نظر سب کے لیے کھلے ہیں۔
کم کا کہنا ہے کہ ایک ایسا معاشرہ جہاں نوجوانوں کو مختلف قسم کی ملازمتیں اور تعلیمی مواقع مل سکتے ہیں، الگ تھلگ افراد کے لیے زیادہ خوش آئند ہو گا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’نوجوان ہرمیٹس ایک کام کی جگہ چاہتے ہیں جہاں وہ سوچ سکیں کہ اوہ، میں یہ کر سکتا ہوں، یہ اتنا مشکل نہیں۔ مجھے لگتا ہے میں یہاں مزید سیکھ سکتا ہوں اور پھر حقیقی دنیا میں جا سکتا ہوں۔‘
پارک کو یہ بھی امید ہے کہ ایک دن کوریائی معاشرہ ان نوجوانوں کے بارے میں زیادہ سمجھدار ہو جائے گا جن کی دلچسپیاں غیر روایتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’فی الحال ہم انھیں صرف مطالعہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ بہت یکساں ہے۔ ہمیں نوجوانوں کو ایسی چیزیں تلاش کرنے کی آزادی دینا ہو گی جو وہ پسند کرتے ہیں اور ان میں اچھے ہیں۔‘
رہائشی الاؤنس اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک ’پہلا قدم‘ ہو سکتا ہے لیکن نوجوانوں کا کہنا ہے کہ اس رقم کو بہتر طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ان کا خیال ہے کہ فنڈنگ کرنے والی تنظیمیں اور پروگرام جو الگ تھلگ نوجوانوں کے لیے کام کرتے ہیں، انھیں مشاورت یا ملازمت کی تربیت کی پیشکش کرتے ہیں، اس سے بہت زیادہ اثر پڑے گا۔
’پی آئی ای فار یوتھ‘ نامی تنظیم کی چیف ڈائریکٹر کم ہائے نے کہا کہ ’اگلا مرحلہ ایسے نوجوانوں کے لیے اعلیٰ معیار کے اور مفت قومی پروگراموں کی تیاری ہونا چاہیے۔ فی الحال، بہت ہی محدود تعداد میں ایسے پروگرام اور مراکز ہیں جہاں ایسے نوجوان حصہ لے سکتے ہیں اور ان میں اپنائیت کا جذبہ پیدا ہو سکتا ہے۔‘
’پی آئی ای فار یوتھ‘ ایک ایسی تنظیم ہے جو ان نوجوانوں اور ان کی دیکھ بھال کرنے والوں کے لیے مختلف پروگرام چلاتی ہے تاہم وہ پر امید ہیں کہ جنوبی کوریا کی حکومت اس مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ان کے مطابق ’یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ (نئے اقدامات) نوعمروں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’نوجوانی تنہائی کو روکنے کا سنہری وقت ہے کیونکہ زیادہ تر نوجوان ایک کمیونٹی کا حصہ ہیں، جیسے ایک سکول۔ اس کے بعد ان لوگوں کو تلاش کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔‘
یوسیونگ نے وضاحت کی کہ وہ بتدریج اپنی تنہائی سے باہر آچکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ایک بار جب مجھے دوسروں سے مدد ملی، میں نے محسوس کرنا شروع کر دیا کہ یہ صرف میرا مسئلہ نہیں بلکہ معاشرے کا مسئلہ ہے۔ اور آخر کار میں آہستہ آہستہ اپنی تنہائی سے باہر آنے میں کامیاب ہو گیا۔‘
Comments are closed.