جاپان میں پھانسی دینے سے صرف چند گھنٹے قبل اطلاع دینے پر قیدیوں کا مقدمہ
جاپان میں سزائے موت کے دو قیدیوں نے سزائے موت سے صرف کچھ گھنٹے قبل ہی اطلاع دیے جانے کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے۔
قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروہ طویل عرصے سے اس طریقہ کار پر تنقید کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے قیدیوں کی صحت بہت متاثر ہوتی ہے۔
جو قیدی سزائے موت پر عملدرآمد کے منتظر ہوتے ہیں انھیں اس سے کچھ ہی گھنٹے پہلے مطلع کیا جاتا ہے کہ انھیں اب سزا دی جانے لگی ہے۔ یہاں سزائے موت پھانسی کے ذریعے دی جاتی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق قیدیوں کے وکیل یوتاکا ایدا کا کہنا ہے کہ سزا کے منتطر یہ قیدی ہر صبح اس خوف میں اٹھتے ہیں کہ آج ان کی زندگی کا آخری دن ہوگا۔
مقامی میڈیا کے مطابق ان قیدیوں ان کے وکیل نے کا کہنا ہے کہ اس طرح کا مختصر نوٹس نہایت غیر انسانی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
’مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ اس کا مقصد قیدیوں کو سزائے موت پر عمل درآمد سے پہلے کسی تکلیف سے بچانا ہے لیکن یہ معقول وجہ نہیں ہے۔ دیگر ممالک میں موجود قیدیوں کو زندگی کے اختتام پر غور کرنے اور ذہنی طور پر تیاری کرنے کی مہلت دی جاتی ہے۔‘
ان قیدیوں نے اوساکا شہر کی ضلعی عدالت میں جمعرات کو مقدمہ دائر کیا ہے۔ اس کے بارے میں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے جس میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ مختصر نوٹس اُنھیں کوئی اعتراض دائر کرنے کی مہلت نہیں دیتا۔
ان کے وکیل کے مطابق انھوں نے دو کروڑ 20 لاکھ ین (ایک لاکھ ساڑھے 93 ہزار ڈالر) کے برابر معاوضہ طلب کیا ہے۔
جاپان میں تقریباً 100 سے زیادہ لوگ موت کی سزا پر عملدرآمد کے منتظر ہیں لیکن تقریباً دو سال سے وہاں کسی کو موت کی سزا نہیں دی گئی۔
سرمد کھوسٹ نے 2018 میں سزائے موت کے ایک قیدی کی زندگی کے آخری 24 گھنٹے کا احوال ڈرامائی انداز میں پیش کیا تھا
Comments are closed.