قطر پہلا مسلم ملک ہے جسے فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کا موقع ملا تو اس نے اس موقع کو صرف معاشی استحکام کے لیے ہی نہیں بلکہ دین کی تعلیمات عام کرنے کے لیے بھی استعمال کر رہا ہے۔
قطری حکام نے فیفا ورلڈ کپ کے میچز کے لیے عالی شان ہوٹلز، مستقل و عارضی اسٹیڈیمز، بازار وغیرہ کے ساتھ ساتھ خوبصورت و عظیم الشان مساجد کی تعمیرات اور ان کی تزئین و آرائش پر بھی زور دیا، جو سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔
گیس کی دولت سے مالا مال اس وطن نے دنیا بھر سے آئے ہوئے مہمانوں کی ایسی مہمان نوازی کی کہ ان کا رویہ، ان کا حسن سلوک دیکھ کرکئی غیرمسلم نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرنے کا ارادہ کیا اور کئی نے اس پر عمل بھی کیا۔
ایسے ہی ایک کینیڈین جوڑے(ڈورینیل اور کلارا پوپا) نے دوحہ کے کٹارا ثقافتی ضلع میں عثمانی طرز کی مسجد ، جسے موزیک کے استعمال کے باعث نیلی مسجد بھی کہا جاتا ہے، میں اذان سنی تو ان کی اسلام اور اسکی تعلیمات کے حوالے جستجو بڑھ گئی۔
ایک گائیڈ نے اس جوڑے کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ کیا تو مذکورہ جوڑا یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگیا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب رکھتے تھے اور اب ان کے خیالات اب بدل گئے ہیں۔
قطر گیسٹ سینٹر جس کی نگرانی میں نیلی مسجد بھی ہے، اس نے دنیا بھر سے درجنوں مسلمان مبلغین کو اس ٹورنامنٹ کے لیے مدعو کیا۔
انہوں نے اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ ٹورنامنٹ کے دوران مختلف قومیت ، رنگ و نسل اور زبان سے تعلق رکھنے والے تمام سیاحوں کو ان کی زبان میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے حوالے سے کتابچے، عربی کافی اور کھجوروں تحفتاً دیئے جائیں۔
فیفا ورلڈ کپ میں رضاکارانہ ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے نوجوانوں نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سیاحوں اور شائقین کی اسلام کے حوالے سے غلط فہمیوں کو دور کرنے کی خاطر انہوں نے مختلف مقامات پر’آسک می اباؤٹ قطر‘ نامی ڈیسک قائم کی ہے، جہاں وہ انہیں مدعو کرتے ہیں اور انہیں اسلام کے حوالے جاننے کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔
ان رضاکاروں کے مطابق بیشتر افراد جو اسلام کے حوالے سے جاننا چاہتے ہیں، ان کے زیادہ تر سوالات ’اسلام میں خواتین پر ہونے والے مظالم، پردہ، ایک سے زائد شادیاں، ہم جنس پرستی کی ممانیت وغیرہ ‘ کے حوالے سے ہوتے ہیں۔
جبکہ ہم انہیں اسلام میں اخلاقیات، خاندانی کی اہمیت، پڑوسیوں اور غیر مسلمانوں کے حقوق اور ان کے احترام کے حوالے سے آگاہی دیتے ہیں اور ساتھ میں انہیں عربی کافی بھی پیش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں 5 منٹ کا اسلامک ورچوئل رئیلٹی کا ٹور بھی کرواتے ہیں۔
قطری حکام نے مختلف مالز، کیفے اور ریسٹوران میں بھی اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ وہاں بھی اسلام کی ترویج کے حوالے سے پوسسٹرز آویزاں ہوں جن پر مخلتف احادیث اور آیات تحریر ہیں، اس کے ساتھ مختلف پیمفلٹ بھی تقسیم کررہے ہیں جس میں یہ پیغام درج ہے کہ ’اگر آپ خوشی اور سکون کی تلاش میں ہیں، تو یہ دین اسلام میں ملے گا‘۔
ایک مقامی پروفیسر سلطان بن ابراہیم الہاشمی کے مطابق قطر کا اسلامک ثقافتی سینٹر 12 گھنٹے کھلا رہتا ہے، جبکہ کئی مسلم رہنما اس موقعے کو شائقین فٹ بال کے اسلام قبول کرنے کے لیے بھی استعمال کررہے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کسی سے اسلام جبراً قبول نہیں کروایا جاسکتا، بلکہ اسلامی تعلیمات کی تبلیغ اور عمل سے غیر مسلم کو متاثر کرکے ان سے انکی مرضی کے مطابق تبدیل کروایا جاسکتا ہے، اور کئی مبلغین اس میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک اچھا موقع ہے جب ہم اسلام کے حوالے سے دنیا کا نظریہ تبدیل کرسکتے ہیں، اور ہمارا مقصد بھی اسلام مخالف رویوں ، نظریات و خیالات کا خاتمہ کرنا ہے نہ کہ شائقین کو اسلام قبول کروانا، جو اسلام قبول کررہا ہے وہ اپنی مرضی سے کررہا ہپے۔
واضح رہے کہ یہاں قطری حکام کا مقصد فیفا ورلڈ کپ 2022 کے میچز دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے آنے والے غیر مسلم شائقین کا مذہب تبدیل کرنا نہیں بلکہ اسلامو فوبیا کو دور کرنا ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل قطری حکام نے اسلامی اسکالر ذاکر نائیک کو اسلام کی تبلیغ اور مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے کئے گئے بھارتی میڈیا کے دعوؤں کی تردید کی تھی۔
بھارتی میڈیا کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا تھا کہ قطر نے فیفا ورلڈ کپ 2022 کے دوران اسلامی مبلغین بالخصوص اسلامی اسکالر ذاکر نائیک کو اسلام کی تبلیغ کے لیے سرکاری سطح پر مدعو کیا تھا۔
Comments are closed.