قطر: انڈین اہلکاروں کی گرفتاری کے بعد دفاعی کمپنی کے تمام انڈین شہریوں کی ملازمت ختم
- مصنف, شکیل اختر
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دلی
قطر میں انڈین بحریہ کے آٹھ سابق اہلکاروں کے خلاف مبینہ جاسوسی کے معاملے میں مقدمے کی آئندہ سماعت دوحہ میں بدھ تین مئی کو ہو گی۔’ظاہرہ العالمی‘ نامی دفاعی کمپنی میں کام کرنے والے ان اہلکاروں کے قریبی عزیزوں کو حال میں ان سے ملنے کی اجازت دی گئی تھی۔
گرفتار کیے جانے والے اہلکاروں کے رشتہ داروں کے ہوائی سفر اور قطر میں ان کے قیام کا انتظام کمپنی نے خیر سگالی کے جذبے کے تحت کیا ہے۔یہ کمپنی دوحہ میں اپنی تمام سروسز 31 مئی سے بند کر رہی ہے اور انڈیا سے تعلق رکھنے والے ملازمین کو بتا دیا گیا ہے کہ ان کی ملازمت ختم کر دی جائے گی۔
خبروں کے مطابق دوحہ میں قائم ’ظاہرہ العالمی‘نے انڈین قومیت کے اپنے تمام ملازموں سے کہا ہے وہ مستعفی ہو جائیں ۔ کمپنی میں انڈین شہریت رکھنے والے ملازمین کی تعداد 75 ہے جن میں اکثریت انڈین نیوی کے سابق اہلکاروں کی ہے ۔ ان تمام ملازمین کو اپریل میں بتا دیا گیا ہے کہ ان کی ملازمت کا آخری دن 31 مئی ہوگا۔ معاہدے کے مطابق ان کی ملازمت کی مدت سنہ 2029 تک تھی۔
جن آٹھ انڈین اہلکاروں پر جاسوسی کا الزام عائد کیا گیا ہے انھیں پہلے ہی ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے اور ان کی ملازمت ختم ہونے پر ملنے والی رقوم وغیرہ بھی طے پا چکی ہیں۔
برطانیہ کے اخبار گارڈین نے خبر دی ہے کہ ’ایڈوانسڈ سروسز اینڈ مینٹیننس’ نامی کمپنی ظاہرہ العالمی کی عمارت ، کنٹریکٹ اور غیر انڈین ملازمین سمیت اس کے تمام اثاثوں کو اپنی ملکیت میں لے رہی ہے۔ قطر کی ’اے ایس ایم ‘ نامی اس کمپنی کے سربراہی دو فرانسیسی افسران کے ہاتھ میں ہے ۔ قطری بحریہ کے عملے کو تربیت دینے کا کام اب اس کمپنی کے برطانوی ، فرانسیسی اور اومانی شہری کریں گے۔
انڈین نیوی کے سابق اہلکاروں کو انڈیا اور قطر کے درمیان ایک معاہدے کے تحت ملازمت دی گئی تھی
انڈین بحریہ کے آٹھ اہلکاروں کو ستمبر کے اوائل میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر جاسوسی کی فرد جرم مارچ میں مقدمے کی پہلی سماعت کے موقع پر عائد کی گئی تھی، تاہم قطر کی حکومت نے ان الزامات کی تفصیل سے انڈین حکومت کو اگاہ نہیں کیا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ گرفتار کیے گئے اہلکاروں کے رشتے داروں کو بدھ کو دوسری سماعت میں شرکت کی اجازت دی جا سکتی ہے اور انھیں الزامات کی تفصیلات بھی دی جا سکتی ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق آٹھوں اہلکاروں اور کمپنی کے سربراہ خمیص العجمی پر لگائے گئے کچھ الزامات مشترک ہیں اور کچھ الزامات مخصوص نوعیت کے ہیں۔ خمیص العجمی اومان کی شاہی فضائیہ کے سبکدوش سکواڈرن لیڈر ہیں۔ انڈین اہلکاروں کے ساتھ انھیں بھی گرفتار کیا گیا تھا لیکن گزشتہ نومبر میں انھیں رہا کر دیا گیا۔
گرفتار کیے گئے انڈین اہلکاروں اور ان کے رشتے داروں نےان الزامات سے انکار کیا ہے۔
انڈین میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے مطابق بحریہ کے ان سابق اہلکاروں پر الزام ہے کہ انھوں نےمبینہ طور پر اطالوی ساختہ جدید ترین آبدوزیں خریدنے سے متعلق قطر کے خفیہ پروگرام کی تفصیلات اسرائیل کو فراہم کی ہیں۔ قطر کی خفیہ ایجنسی کا دعوی ہے کہ ان کے پاس اس مبینہ جاسوسی کے بارے میں الیکٹرانک ثبوت موجود ہیں ۔انڈین بحریہ کے یہ سابق اعلی جس نجی دفاعی کمپنی (ظاہرہ العالمی) کے لیےکام کرتے تھے وہ قطری بحریہ کے عملے کو مختلف نوعیت کی تربیت فراہم کرتی ہے۔ اس کمپنی نے بحریہ کے ان سابق اہلکاروں کو انڈیا اور قطر کے درمیان ایک معاہدے کے تحت ملازمت دی تھی۔
انڈیا کی حکومت نے اس معاملے میں انتہائی محتاط رویہ اختیار کر رکھا ہے اور وزارت خارجہ کے ترجمان آرندم باگچی نے گزشتہ ہفتے وزارت خارجہ کی بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’ حکومت اس معاملے کو بہت اہمیت دیتی ہے۔ وہ متعلقہ افسروں کے رشتےداروں سے ربطے میں ہے ۔ اب جب کہ اس معاملےمیں قانونی عمل شروع ہو چکا ہے ، حکومت اس پر گہری نظر رکھے گی۔‘
ستمبر میں انڈین اہلکاروں کی گرفتاری کے بعد ان کے بعض قریبی رشتے داروں نے ان کی رہائی کے لیے سوشل میڈیا پر مہم چلائی تھی، لیکن رفتہ رفتہ سب نے خاموشی اختیار کر لی ہے۔ ان میں سے بعض عزیز تین مئی کی سماعت کے میں شرکت کے لیے دوحہ پہنچ چکے ہیں۔
Comments are closed.