بٹ کوائن: قزاقستان کی نوجوان خاتون جو کرپٹو کرنسی مائننگ میں جانا مانا نام بن چکی ہیں
گذشتہ سال جب چین نے کرپٹوکرنسی کی مائننگ پر پابندی لگا دی تھی تو یہ صنعت ہمسایہ ملک قزاقستان میں تیزی سے پھلنے پھولنے لگی۔
اس وقت وسطی ایشیا کا یہ ملک امریکہ کے بعد دنیا میں کرپٹو مائننگ کرنے والا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے مگر ملک کے ڈیٹا سینٹر قزاقستان کے کوئلے کے پاور پلانٹس پر کافی دباؤ ڈال رہے ہیں اور کاربن کے اخراج کے حوالے سے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
ملدیر سبھاییوا ایک نئی قسم کی کاروباری خاتون ہیں جن کا تعلق قزاقستان میں کرپٹو مائننگ بزنس سے ہے۔ اپنی نئی بٹ کوائن مائن سے نکلتے ہوئے وہ ارد گرد کھڑے انجینیئروں اور مزدوروں سے کافی مختلف نظر آتی ہیں۔
ملدیر 35 سال کی ہیں اور اُن کی تیز سوچ ان کے کپڑوں سے عیاں ہے۔ ان کی عینک کے شیشے پیلے رنگ کے ہیں۔ باہر سڑک بن رہی رہے اور ویلڈنگ کا کام بھی جاری ہے۔
وہ قزاقستان کے دارالحکومت الماتے میں اپنی بٹ کوائن مائن کی تعمیر کے ہر عنصر پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
مردوں سے بھری صنعت میں ایک معروف عورت
عام طور پر مردوں سے بھری اس صنعت میں ملدیر سبھاییوا ایک معروف نام بن گئی ہیں۔ اپنی محنت سے انھوں نے اپنی کمپنی کو ملک کی سب سے بڑی کرپٹو مائنگ کمپنیوں میں سے ایک بنا لیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘میں نے اپنی زندگی کے گذشتہ چار سال صرف کام کیا ہے۔ کبھی کبھی تو میں دفتر میں ہی سوتی تھی۔‘
ملدیر کی بٹ کوائن میں دلچسپی پانچ سال قبل شروع ہوئی۔ انھوں نے اپنے بھائی کے ساتھ گھر میں بٹ کوائن مائننگ شروع کی، اور آہستہ آہستہ یہ معاملہ بڑی بڑی مائنز تک پہنچ گیا اور انھوں نے دیگر گاہکوں کو اپنی مائنز کرائے پر بھی دینی شروع کر دیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘میرا کاروبار قزاقستان اور اس صنعت میں گذشتہ ایک سال میں بہت زیادہ بڑھا ہے۔ میری ہر صبح بٹ کوائن کی قیمت چیک کر کے شروع ہوتی ہے۔ جب یہ 50 ہزار ڈالر کا تھا تو بہت خوشی کا وقت تھا۔‘
بٹ کوائن کی قیمت میں تیزی سے اتار چڑھاؤ آتا ہے۔ مارچ 2020 میں یہ 5000 کا تھا مگر ایک سال میں اس کی قیمت 65 ہزار ڈالر تک گئی۔ اب یہ قیمت گر چکی ہے اور ایک وقت تھا کہ یہ 35000 پر پہنچ گئی تھی۔
مگر ملدیر اور ان جیسے لوگوں کا ماننا ہے کہ مائننگ ابھی بھی ایک منافع بخش کاروبار ہے۔
ڈیجیٹل گولڈ
سوال یہ ہے کہ کرپٹو مائننگ ہوتی کیا ہے؟
کرپٹو مائننگ وہ عمل ہے جس سے تمام کرپٹو کرنسیاں جنریٹ کی جاتی ہیں۔ کسی حکومت یا بینک کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
ہر ادائیگی کو کمپیوٹرز کا ایک بڑا سا نیٹ ورک منظور یا رد کرتا ہے۔ ٹرانزیکشنز کی اس اکاؤنٹنگ کے لیے انتہائی طاقتور کمپیوٹر چاہیے ہوتے ہیں۔
اور جو لوگ اس کام کے لیے کمپیوٹر پاور میں حصہ ڈالتے ہیں انھیں بٹ کوائن کا انعام ملتا ہے۔
اس وقت قزاقستان کا کرپٹو کرنسی مائننگ کے عالمی نیٹ ورک میں حصہ تقریباً 18 فیصد ہے۔
قزاقستان میں کرپٹو مائننگ 2019 میں مقبول ہوئی۔ اس کی دو وجوہات تھیں، ایک سستی بجلی اور دوسری نرم حکومتی پالسیاں۔
مگر جب 2021 میں چین نے اس پر پابندی لگا دی تو قزاقستان میں یہ کاروبار تیزی سے بڑھنے لگا۔
ملک میں کرپٹو کمپنیوں کا سیلاب آ گیا اور انھوں نے بڑے بڑے کمپیوٹر لگانا شروع کر دیے۔ ملک میں پہلے سے موجود کرپٹو مائننگ کے مراکز طلب کو پورا نہ کر سکے تھے اور اس لیے مارکیٹ میں نیے کاروبار آنے لگے۔
’یہ پیسے کی آواز ہے، ڈیجیٹل پیسے کی‘
جب آپ الماتی سے اکبستوز شہر کی جانب 1300 کلومیٹر کا سفر کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں کرپٹو مائننگ کی صنعت کتنی بڑی ہے۔ اس سفر کے دوران آپ کو دنیا کی سب سے بڑی کرپٹو مائن نظر آتی ہے جو کہ انگکس نامی کمپنی نے لگائی ہے۔
یہاں جس چیز کی طرف سب سے پہلے دھیان جائے گا وہ ہے یہاں کی آواز۔ ہزاروں کمپیوٹر چل رہے ہیں اور ان کے ساتھ لگے چھوٹے چھوٹے کمپیوٹرز کے پنکھوں کی آواز گونچ رہی ہے۔
ان کے علاوہ جن ہالز میں یہ کمپیوٹرز رکھے جاتے ہیں ادھر بڑے بڑے پنکھوں کی آوازیں بھی گونج رہی ہیں۔
اس کرپٹو مائن کے مالک 34 سالہ یربولسن ہیں۔ وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘مشینوں کی آواز مجھے خوش کرتی ہے، کیونکہ یہ پیسے کی آواز ہے، ڈیجیٹل پیسے کی۔‘
یہ بھی پڑھیے
ملدیر کی طرح یربولسن نے بھی کچھ سال قبل چھوٹے پیمانے پر کرپٹو مائننگ شروع کی تھی۔ انھوں نے اپنی کمپنی اپنے گیراج میں شروع کی۔ آج ان کی مائن میں 30 کروڑ ڈالر کی مشین 24 گھنٹے چل رہی ہیں جس کو چلانے کے لیے 150 لوگ ملازم ہیں۔
ان میں درجنوں انجینیئر ہیں اور ان لوگوں کو صحرا میں بنے اس سینٹر میں 15 دن رہنا پڑتا ہے۔ وہ 12 گھنٹوں کی شفٹوں میں کام کرتے ہیں۔
الماز مگاز یہاں ایک سال سے کام کر رہے ہیں۔ ان کا کام مشینوں سے مٹی صاف کرنا ہے۔ انھیں شفٹ کے دوران زیادہ آرام نہیں ملتا۔ وہ مانتے ہیں کہ شروع میں انھیں نہیں معلوم تھا کہ یہ مشینیں کیا کرتی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں آنے سے پہلے مجھے زیادہ معلوم نہیں تھا کہ بٹ کوائن کیا ہوتا ہے۔ میں نے اس کا کبھی سنا بھی نہیں تھا۔‘
یربولسن الماز اور اپنے دیگر عملے پر الماتے سے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے نظر رکھے ہوئے ہیں۔
یربولسن کہتے ہیں کہ ‘ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ قزاقستان کرپٹو کرنسی کے حوالے سے دنیا میں اتنا اہم ہو گیا ہے۔ ہم محب الوطن لوگ ہیں اور ہم اپنے ملک کا وقار مزید بڑھانا چاہتے ہیں۔‘
ماہرینِ ماحولیات کی تنقید
لیکن ایسا نہیں ہے کہ ملک میں ہر کوئی قزاقستان کی اس کامیابی سے خوش ہے۔ ماہرینِ ماحولیات اکثر ان کرپٹو کرنسی مائنز پر بے تحاشہ بجلی استعمال کرنے پر تنقید کرتے ہیں۔
کیمبرج یونیورسٹی بٹ کوائن بجلی کی کھپت کا انڈیکس چلاتی ہے۔ اس کے مطابق بٹ کوائن کی مائننگ یوکرین یا ناروے کی کُل بجلی کی کھپت سے زیادہ بجلی خرچ کرتی ہے۔
یہ تو معلوم نہیں ہے کہ اس میں سے کتنی بجلی قابل تجدید ذرائع سے حاصل ہوتی ہے لیکن ڈانا یرمولینوک جیسے ماہر ماحولیات کا کہنا ہے کہ قزاقستان جیسے ممالک میں صرف دو فیصد بجلی غیر روایتی ذرائع سے آتی ہے۔
‘یہاں توانائی کا بنیادی ذریعہ کوئلہ ہے، خاص طور پر گرمی پیدا کرنے اور بجلی کے لیے۔‘
دانا قزاقستان کے شہر کاراگندا میں رہتی ہیں۔ اس میں ملک کے سب سے بڑے کوئلے کے ذخائر ہیں۔ وہ ماحولیاتی نقصان کی قیمت پر کرپٹو مائننگ کے نام پر ملک میں آنے والی خوشحالی پر تشویش کا اظہار کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں، ‘ہر روز جب میں اپنے گھر سے باہر نکلتی ہوں تو مجھے آلودگی نظر آتی ہے۔ سردیوں میں حالت ایسی ہوتی ہے کہ میں اپنے پڑوسی کا گھر بھی نہیں دیکھ پاتی۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں اس فضا میں کیوں سانس لے رہی ہوں؟‘



Comments are closed.