’قرض کا جال، عالمی معیشت کا مستقبل اور معدنیات‘: چین افریقہ میں اتنی بھاری سرمایہ کاری کیوں کر رہا ہے؟
- مصنف, جیریمی ہوویل
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
- ایک گھنٹہ قبل
گذشتہ دو دہائیوں میں چین نے افریقہ کے ساتھ اپنی تجارت کو بہت بڑے پیمانے پر بڑھایا ہے اور پورے براعظم میں سڑکوں، ریلوے اور بندرگاہوں کی تعمیر پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔یہ ساری سرمایہ کاری فورم برائے چین-افریقہ تعاون (ایف او سی اے سی – FOCAC) کے ذریعے کی گئی ہے جس کا اجلاس ہر تین سال بعد منعقد کیا جاتا ہے کہ چین اور افریقی ممالک کس طرح بہترین طریقے سے مل کر کام کر سکتے ہیں۔اس سال ایف او سی اے سی کا اجلاس بدھ کے روز بیجنگ میں شروع ہوا جو جمعے تک جاری رہے گا اور چینی صدر شی جن پنگ کانفرنس سے خطاب کریں گے۔حال ہی میں، چین نے افریقہ میں اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے اور اب وہ افریقی ممالک کو اپنی ہائی ٹیک اور ’گرین (ماحول دوست) اکانومی‘ کی زیادہ مصنوعات پیش کر رہا ہے۔
سب سے زیادہ قرض دینے والا ملک
پچھلے 20 برس میں چین افریقہ کا نہ صرف سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن کر ابھرا ہے بلکہ افریقی ممالک میں سرمایہ کاری کرنے والا اور انھیں سب سے زیادہ قرض دینے والا ملک بھی بن گیا ہے۔سنہ 2022 میں چین نے افریقی ممالک کے ساتھ 250 ارب ڈالر سے زیادہ کی تجارت کی۔ اس دوران چین نے افریقہ سے زیادہ تر تیل اور معدنیات جیسے خام مال درآمد کیے جبکہ اس کی برامدات میں زیادہ تر تیار شدہ مصنوعات شامل تھیں۔چین نے 2022 میں افریقی معیشتوں میں پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ بنیادی طور پر اس سرمایہ کاری کا مرکز ٹرانسپورٹ اور توانائی کے منصوبے اور نئی کانیں شامل ہیں۔بدلے میں چینی کمپنیوں نے ان منصوبوں سے 2022 میں تقریباً 40 ارب ڈالر کمائے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق افریقہ میں اب 3,000 چینی کاروبار ہیں۔افریقی ممالک چین کے 134 ارب ڈالر مقروض ہیں۔ اس میں وہ رقوم بھی شامل ہے جو چین نے افریقی ممالک کو ترقیاتی کاموں کے لیے بطور قرضہ دیا تھا۔افریقی ممالک کے باقی دنیا کو واجب الادا قرضوں میں سے چین کا حصہ تقریباً 20 فیصد ہے۔ تاہم، حال ہی میں چین کی جانب سے افریقہ میں سرمایہ کاری اور نئے قرضوں کی فراہمی میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔لندن یونیورسٹی کے سکول آف اوریئنٹل اینڈ افریقن سٹڈیز کے پروفیسر سٹیو سانگ کی نظر میں اس کی وجہ یہ ہے کہ اب بہت سی افریقی ریاستوں کو اپنے ملک میں چینی انفراسٹرکچر منصوبوں کی تعمیر کی غرض سے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی میں دشواری کا سامنا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس سے قبل چین بخوشی افریقہ میں ریلوے جیسے منصوبوں کے لیے سرمایہ کاری کرنے پر راضی تھا۔ یہ ایسے منصوبے ہوتے تھے جن کے لیے مغربی ممالک اور ورلڈ بینک فنڈ نہیں دیتے تھے کیونکہ ان پراجیکٹس کا کوئی تجارتی مقصد نہیں ہوتا ہے۔’اب بہت سے افریقی ممالک کو لگ رہا ہے کہ انھیں ان منصوبوں سے اتنا فائدہ نہیں ہو رہا ہے کہ وہ اس سے قرضوں کی ادائیگی کر پائیں۔‘ڈاکٹر ایلکس وائنس لندن کے تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب قرض مہیا کرنے والے چینی ادارے بھی افریقی ممالک کو قرض دیتے ہوئے زیادہ احتیاط سے کام لے رہی ہیں۔ ان کے مطابق اب وہ زیادہ منافع بخش منصوبوں کی تلاش میں ہیں۔چین اب افریقی ممالک کو سڑکوں، ریلوے اور بندرگاہوں جیسے بڑے افراسٹرکچر منصوبوں کے بجائے ہائی ٹیک منصوبے جیسے کہ 4G اور 5G ٹیلی کام نیٹ ورکس، خلائی سیٹلائٹ، سولر پینلز اور الیکٹرک گاڑیاں (ای وی) فراہم کرنے کی پیشکش کر رہا ہے۔ڈاکٹر ایلکس کہتے ہیں کہ ’یہ چین کے لیے اپنی نئی، جدید ترین گرین ٹیکنالوجی برآمد کرنے کا ایک طریقہ ہے۔‘
کیا چین کی مدد سے افریقہ کو فائدہ ہوا یا نقصان؟
چینی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے ’گوئنگ آؤٹ‘ حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے چین نے 1999 سے افریقی ممالک کے ساتھ بڑے کاروباری روابط کا آغاز کیا۔ ایف او سی اے سی کا پہلا اجلاس 2003 میں منعقد ہوا۔ اب یہ چین اور 53 افریقی ریاستوں کے درمیان شراکت داری کا پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ڈاکٹر ایلکس کے مطابق ابتدا میں چین کی توجہ افریقہ سے زیادہ سے زیادہ خام مال درآمد کرنے پر تھی تاکہ وہ دنیا بھر میں برآمد کرنے کے لیے سامان تیار کر سکے۔’چین نے تیل کی سپلائی حاصل کرنے کے بدلے انگولا کو انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے خطیر رقم مہیا کی۔‘وہ کہتے ہیں کہ ان منصوبوں کے نتیجے میں چینی شہریوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے۔ ’ایک موقع پر انگولا میں 170,000 چینی کام کر رہے تھے۔‘چین کا کہنا ہے کہ اس کی افریقہ میں سرمایہ کاری دونوں فریقین کی جیت ہے۔تاہم پروفیسر سانگ اس سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چین کی جانب سے افریقہ میں مکمل کیے جانے والے تعمیراتی منصوبوں سے مقامی لوگوں کو بہت کم فائدہ ہوا ہے اور اس سے لوگوں میں ناراضگی پیدا ہوئی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ چینی کمپنیاں زیادہ تر اپنے ملازمین لے کر آتی ہیں اور مقامی افراد کو زیادہ نوکریاں فراہم نہیں کرتی ہیں۔ پروفیسر سانگ کے مطابق مقامی افراد میں یہ احساس بھی پایا جاتا ہے کہ چینی کمپمنیاں مقامی کارکنوں کو صرف سخت مشقت والے کاموں کے لیے ہی بھرتی کرتی ہیں۔چین کی جانب سے 2013 میں افریقہ اور ایشیا میں تجارت کے نیٹ ورک کو بہتر بنانے کے لیے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کا آغاز کیے جانے کے بعد سے افریقی ممالک کے قرضوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ 2016 میں قرضوں کا مجموعی حجم 28 ارب ڈالرز تک پہنچ گیا تھا۔چین پر الزام ہے کہ وہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت افریقی حکومتیں کو بھاری رقوم بطور قرض لینے پر آمادہ کرتا ہے۔ اور جب ان ممالک کو قرضوں کی واپسی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو چین رعایتوں کا مطالبہ کرتا ہے۔چیتھم ہاؤس کے اعداد و شمار کے مطابق انگولا 18 ارب ڈالر، زیمبیا 10 ارب ڈالر اور کینیا چھ ارب ڈالر کے مقروض تھے اور ان کے لیے یہ رقوم واپس کرنا مشکل ثابت ہو رہا تھا۔چین اکثر افریقی ریاستوں کو دیے گئے قرضوں کو ان کے خام مال کی برآمدات سے ہونے والی کمائی سے منسلک کر دیتا ہے۔ ان معاہدوں سے چین کو کانگو جیسے ممالک میں معدنی کانوں کا کنٹرول حاصل کرنے میں مدد ملی ہے۔خبر رساں ادارے اے پی سے بات کرتے ہوئے افریقی ترقیاتی بینک کے سربراہ اکینوومی اڈیسینا نے بتایا ہے کہ حکومتوں کو اس قسم کے قرضوں سے گریز کرنا چاہیے۔ان کا کہنا ہے کہ ’اس قسم کے معاہدے اس لیے ٹھیک نہِں کیونکہ وہ ان اثاثوں کی صحیح مالیت نہیں لگاتے ہیں۔‘’اگر آپ کے پاس زیرِ زمین معدنیات یا تیل ہے، تو آپ طویل مدتی معاہدے کے لیے اس کی قیمت کیسے لگائیں گے؟ یہ ایک چیلنج ہے۔‘تاہم، ڈاکٹر ایلکس کے مطابق چین کی ’قرض کے جال کی ڈپلومیسی‘ دراصل موجود نہیں ہے۔وہ کہتے ہیں کہ کبھی کبھار چین کمزور ریاستوں کے ساتھ کسی شکاری کے انداز میں کام کرتا ہے لیکن مضبوط حکومتیں زیادہ مقروض ہوئے بغیر بھی اس کے ساتھ باآسانی کاروبار کر سکتی ہیں۔
مستقبل میں افریقہ کے لیے چین کے کیا منصوبے ہیں؟
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesلندن سکول آف اکنامکس کی ڈاکٹر شرلی زی یو کے مطابق بدھ کے روز بیجنگ میں شروع ہونے والی ایف او سی اے سی کانفرنس افریقی ممالک اور کسی بھی عالمی طاقت کے درمیان سب سے زیادہ جامع اور مربوط شراکت داری کا پلیٹ فارم ہے۔ہر تین سال بعد اس کانفرنس میں نئے اہداف اور ترجیحات کا تعین کیا جاتا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ یہ ایک حکمت عملی ہے کہ چین کو افریقہ کے بیرونی پارٹنر کے طور پر بہترین انداز میں کیسے شامل کیا جا سکتا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ، ’صدی کے آخر تک دنیا کی 40 فیصد آبادی افریقہ میں مقیم ہو گی۔‘ ان کے مطابق اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افریقہ عالمی معیشت کا مستقبل ہے۔ڈاکٹر ایلکس کہتے ہیں کہ افریقہ میں چین کے مفادات نہ صرف تجارتی ہیں بلکہ سیاسی بھی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ 50 سے زیادہ افریقی ممالک اقوام متحدہ کے رکن ہیں۔ ان کے مطابق چین نے ’ان میں سے تقریباً ہر ایک کو تائیوان کو بطور ریاست تسلیم نہ کرنے پر آمادہ کیا ہے۔‘پروفیسر سانگ کا کہنا ہے کہ ’اب واضح طور پر دکھ رہا ہے کہ چین افریقہ سے کیا چاہتا ہے۔‘ان کے خیال میں چین گلوبل ساؤتھ کا چیمپئن بننا چاہتا ہے، اور وہ اس پوزیشن کو اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ ’چین کی خواہش ہے کہ افریقی ممالک اس کی ’سپورٹنگ کاسٹ‘ بنیں۔‘پروفیسر سانگ کے مطابق ایف او سی اے سی برابر کی میٹنگ نہیں ہے۔’اگر آپ چین سے اتفاق کرتے ہیں تو آپ خوش آمدید ہیں۔ کوئی بھی نہیں کہے گا کہ وہ اس کے کسی منصوبے سے اختلاف کرتے ہیں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.