قرض میں جکڑے ارجنٹینا کے متنازع سیاست دان جو امریکی ڈالر کو ملکی کرنسی بنا کر مہنگائی ختم کرنا چاہتے ہیں

ارجنٹینا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, پاسکل فلیچر
  • عہدہ, بی بی سی مانیٹرنگ، لاطینی امریکہ

ہاویئر میلی ایک اسٹیمشمنٹ مخالف سیاست دان ہیں جو گزشتہ ہفتے ارجنٹینا کے صدارتی انتخابات میں فتح سے ہمکنار ہوئے ہیں۔ تاہم اہم معاشی مسائل کے حل پر ان کے غیر روایتی بیانات اور تجاویز نے انھیں متنازع بنا دیا ہے۔

دو ہفتے بعد وہ ارجنٹینا، جو لاطینی امریکہ کی تیسری بڑی معیشت ہے، میں اقتدار سنبھال لیں گے اور ایسے میں بہت سے لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آیا ان کے تجویز کردہ حل حقیقت کا روپ دھار سکیں گے یا نہیں۔

مہنگائی کا حل وقت طلب معاملہ

ہاویئر میلی نے تجویز دی ہے کہ افراط زر یعنی مہنگائی کو ختم کرنے کے معیشت کو ڈالرائز کر دیا جائے اور ارجنٹینا کے مرکزی بینک کو ہی ختم کر دیا جائے۔

اس کا مطلب ہے کہ امریکی ڈالر ارجنٹینا کی ملکی کرنسی پیسو کی جگہ لے لے گی جس کی قدر ہاویئر کے مطابق ’وسطی سہارا کے صحرا میں برف کے بلاکس کی طرح پگھل رہی ہے۔‘

لیکن ایسا کرنے میں ایک رکاوٹ یہ ہے کہ مرکزی بینک کو ختم کرنے اور امریکی ڈالر کو ہی ملک کی کرنسی قرار دینے کے لیے ارجنٹینا کی کانگریس کی حمایت اور آئین میں ردوبدل درکار ہو گی۔

اگرچہ ہاویئر باآسانی صدارتی انتخابات میں فتحیاب ہوئے ہیں تاہم ان کی جماعت ارجنٹینا کی کانگریس میں اب بھی تیسری سب سے بڑی طاقت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کو مشکل مزاکرات سے دوچار ہونا ہو گا۔

ارجنٹینا

،تصویر کا ذریعہReuters

چند ماہرین میعشت نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ آیا ان کے منصوبے قابل عمل ہیں بھی یا نہیں۔ ان کے مطابق ان کی تجاویز پر عمل کرنے سے مقامی مالیاتی پالیسی پر حکومت کا کنٹرول کمزور ہو جائے گا۔

اگر وہ حقیقت میں امریکی ڈالر کو ارجنٹینا کی کرنسی بنا دیتے ہیں تو شرح سود کی پالیسی حقیقت میں امریکی فیڈرل ریزرو کے ہاتھ میں چلی جائے گی۔ یوں ارجنٹینا کی معیشت امریکی ڈالر کو کسی بھی بیرونی جھٹکے کی صورت میں براہ راست متاثر ہو گی۔ مثال کے طور پر تیل اور ایندھن کی عالمی قیمتوں میں اچانک اضافہ ملک کے اندر قیمتوں کو قابو میں رکھنے کو دشوار بنا دے گا۔

ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ ارجنٹینا کو پیسو کا متبادل بنانے کے لیے کافی زیادہ ڈالر کا اہتمام کرنا ہو گا۔ ماہرین کے مطابق تقریبا 35 سے 50 ارب ڈالر درکار ہوں گے جو قرض میں ڈوبے ملک کے پاس نہیں ہیں اور ان کا انتظام کرنا بھی آسان نہ ہو گا۔

ہاویئر ملی نے خود بھی اعتراف کیا ہے کہ معیشت کو سنبھلانے میں اور افراط زر پر قابو پانے میں دو سال لگ سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ ’کچھ اور کہنا جھوٹ کے سوا کچھ نہ ہو گا۔‘

موسمیاتی تبدیلی

ارجنٹینا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایک اور موضوع جس کی وجہ سے وہ شہ سرخیوں کا حصہ رہے ہیں، وہ موسمیاتی تبدیلی کا ہے۔ ہاویئر نے کہا ہے کہ ان کو موسمیاتی تبدیلی کے نظریے پر مکمل یقین نہیں یعنی وہ عالمی طور پر بڑھتے درجہ حرارت میں انسانی سرگرمیوں کے کردار کی نفی کرتے ہیں۔

گزشتہ ماہ ایک صدارتی مقابلے کے دوران انھوں نے کہا تھا کہ ’میں موسمیاتی تبدیلی کی نفی نہیں کرتا۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ زمین کی تاریخ میں درجہ حرارت کا ایک دائرہ ہے اور وہ تمام پالیسیاں جو موسمیاتی تبدیلی کا ذمہ دار انسانوں کو قرار دیتی ہیں جھوٹی ہیں۔‘

اس خطاب کے بعد ان کو کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ایک اور تجویز کے مطابق وہ حکومت میں آنے کے بعد وزارت ماحولیات کو بند کر دینا چاہتے ہیں۔

اس رویے کی وجہ سے خطرہ موجود ہے کہ وہ ان عالمی حکومتوں اور رہنماوں سے دور ہو سکتے ہیں جو دبئی میں اکھٹے ہو رہے ہیں تاکہ موسمیاتی تبدیلی کا حل تلاش کیا جا سکے۔

پوپ کیخلاف بیان

منتخب ہونے سے قبل ہاویئر نے ارجنٹینا سے تعلق رکھنے والے پوپ فرانسس کی ذات پر حملہ کیا اور کہا کہ وہ ’کمیونزم کو فروغ‘ دے رہے ہیں اور ’زمین پر شیطان کے نمائندے ہیں۔‘

ان کے ایسے بیانات کی وجہ سے مقامی کیتھولک چرچ کے ساتھ ساتھ ویٹیکن سے بھی تعلقات میں دراڑ پیدا ہوئی ہے۔

ارجنٹینا

،تصویر کا ذریعہReuters

تاہم ان کا یہ رویہ فتح کے چند دن بعد ہی غائب ہو گیا جب انھوں نے کہا کہ پوپ سے ان کی دوستانہ بات چیت ہوئی ہے اور ہاویئر نے پوپ کو ارجنٹینا کا دورہ کرنے کی دعوت بھی دی۔

جب ان سے اس تبدیلی کی وجہ ایک حالیہ انٹرویو میں پوچھی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ’جب آپ صدر ہوں تو ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن میں عملیت پسندی درکار ہوتی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

چین اور برازیل

انتخابات سے قبل ہاویئر نے عندیہ دیا تھا کہ وہ ارجنٹینا کے دو قریبی تجارتی شراکت داروں برازیل اور چین سے تعلقات کو کم کر سکتے ہیں کیوں کہ وہ کمیونسٹ سے معاہدہ نہیں کرتے۔

انھوں نے کہا تھا کہ ’میں امریکہ، اسرائیل اور فری ورلڈ کا ساتھ دوں گا۔‘

یہ حیران کن نہیں تھا کہ ان کے اس بیان نے چین اور برازیل کے ساتھ ساتھ ارجنٹینا میں بھی لوگوں کو خفا کیا۔

چین کی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ ’ایسا کرنا ارجنٹینا کی بڑی سفارتی غلطی ہو گی۔‘

ارجنٹینا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ہاویئر میلی سے قبل ارجنٹینا کے صدر البرٹو فرنینڈیز نے چین سے تعلقات بہتر کیے ہیں اور برکس میں شامل ہونے کی دعوت کو خوش آئند قرار دیا ہے جس میں برازیل، روس، انڈیا اور جنوبی افریقہ بھی شامل ہیں۔

ماہرین نے ایک ایسا تعلق ختم کرنے کی عقل مندی پر سوال اٹھایا ہے جس کا فائدہ صرف چین کو ہی نہیں بلکہ ارجنٹینا کو بھی ہوا ہے کیوں کہ چین سویا بین، گوشت اور دالوں کی ایک بڑی منڈی ہے جو ارجنٹینا برآمد کرتا ہے۔

چین نے ارجنٹینا کے بیرونی ذخائر بڑھانے میں بھی مدد کی ہے جو آئی ایم ایف کا مقروض ہے۔

انتخابات کے چند دن بعد یہ واضح تھا کہ تعلقات میں کسی قسم کی کمی نہیں ہونے والی۔ ہاویئر کو چینی صدر شی جن پنگ کی جانب سے مبارکباد کا خط موصول ہوا اور ہاویئر نے خود سوشل میڈیا پر شی جنگ پنگ کا شکریہ ادا کیا۔

ہاویئر کی جانب سے وزیر خارجہ کے عہدے کے لیے نامزدکردہ ڈیانا مونڈینو نے بھی چین اور برازیل سے تجارتی تعلقات میں کسی قسم کی کمی کو رد کیا ہے۔

دوسری جانب برازیل میں ہاویئر کی جانب سے سابق صدر بولسونارو کو اپنی تقریب حلف برداری میں مدعو کرنے کے دعوت نامے کو موجودہ بائیں بازو کے صدر کی جانب غیر دوستانہ رویے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔

تاہم ہاویئر نے بعد میں کہا کہ اگر موجوہ برازیلی صدر لولا بھی اس تقریب میں شامل ہونا چاہیں تو ان کو خوش آمدید کہا جائے گا۔

آمریت

ہاویئر اور ان کی نائب صدر کی امیدوار وکٹوریا نے مہم کے دوران ارجنٹینا میں فوجی آمریت پر جو موقف اپنایا وہ بھی ایک تنازعے کی وجہ بنا۔

گزشتہ 40 سال سے حکومتوں اور معاشرے کے موقف کیخلاف جاتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ 1970 کی آمریت کے دور میں اغوا اور غائب ہونے والوں کی درست تعداد 30ہزار نہیں بلکہ نو ہزار تھی۔

ارجنٹینا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انھوں نے کہا تھا کہ ارجنٹینا میں 1970 کی دہائی میں جو ’سیاسی تشدد کی لہر اٹھی وہ دو اطراف کے درمیان جنگ تھی جس میں ریاستی فورسز نے زیادتیاں کیں لیکن دہشت گردوں نے بھی انسانیت کیخلاف جرائم کیے۔‘

یہ ایک اور طریقہ تھا جس سے ہاویئر نے ارجنٹینا میں سیاست کے جمود کو ہلا کر رکھ ڈالا لیکن اگلے چار برس میں ثابت ہو گا کہ کیا وہ ایسا کرنے کی صلاحیت واقعی رکھتے ہیں یا یہ سب بیانات کی حد تک محدود تھا۔

BBCUrdu.com بشکریہ