جو افراد ابیڈوس میں تدفین کے متحمل نہیں تھے وہ اپنے ناموں، لقبوں اور دعاؤں کی تختیاں وہاں لگاتے تھے۔عالمی ثقافتی ورثہ کی سائٹ کے مطابق ابیڈوس فرعونوں کے لیے ایک زیارت گاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔یہ جگہ مصر کی جانب سے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیے جانے کی عارضی فہرست کا حصہ ہے۔ابیڈوس کو پہلی مصری سلطنت کے زمانے سے ایک مقدس شہر کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اس آثارِ قدیمہ کے نمونے میں شہر کی باقیات، ملکہ تیتیشیری کا اہرام، جنازہ گاہ، سرکوفگی، اور چھتوں والا مندر شامل ہے۔اس کے علاوہ ام القعاب میں شاہی مقبرے بھی دریافت ہوئے ہیں۔
اوسیرس کی عبادت
ابیڈوس مصر کے صوبہ سوہاگ کے شہر البلینا کے قریب واقع ہے۔ اس شہر کو قدیم مصری زبان ’ہیروگلیفکس‘ میں ’عبدجو‘ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ یہ ایک بڑا مذہبی مرکز ہواکرتا تھا جو اوسیرس کے لیے وقف تھا جسے قدیم مصری موت کے بعد کی زندگی کا خدا مانتے تھے۔ابیڈوس کی ابتداء مصر کے پہلے شاہی خاندان کے دور سے پہلے کی ہے۔ اس زمانے میں اسے ایک مقامی مذہبی مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔مصر کے اتحاد اور پہلی سلطنت کے قیام کے ساتھ ہی ابیڈوس فرعونوں کے لیے ایک اہم مقام بن گیا۔ یہاں ’ام القعاب‘ کے مقبرے بھی ہیں جن میں پہلی اور دوسری سلطنتوں کے بادشاہ دفن ہیں۔انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق ام القعاب کے مقبروں سے مٹی کے برتن، شاہی نشانات، ہاتھی دانت سے بنی چیزیں اور پہلی سلطنت سے قبل کے بادشاہوں کے نام بھی موجود ہیں۔یہاں کندہ شدہ نشانات سے پتا چلتا ہے کہ قدیم مصری زبان ابتدائی عرصے میں ہی اعلیٰ درجے تک پہنچ گئی تھی۔صحرا کے نزدیک مٹی کی اینٹوں سی بنی عمارتوں کو پہلی اور دوسری سلطنتوں کے بادشاہوں کے جنازہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ یہاں سے سفید مٹی کی اینٹوں سے ڈھکی لکڑی کی کشتیاں بھی دریافت ہوئی ہیں جو اس دور میں آخری رسومات کی اہمیت کی نشاندہی کرتی ہے۔ابیڈوس کی زیارت کی رسم کا آغاز مصر کی قدیم ترین بادشاہت کے دور سے شروع ہو گیا تھا اور ہر دور کے ساتھ اس کی اہمیت بڑھتی گئی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا ذریعہGetty Images
دوسری دنیا کا راستہ
مصریوں کا خیال تھا کہ ابیڈوس موت کے بعد کی زندگی کے لیے ایک ’گیٹ وے‘ ہے اور وہاں مدفن اوسیرس قیامت اور ابدی زندگی کو یقینی بنا سکتا ہے۔ان آخری رسومات کا مقصد اوسیرس کو مطمئن کرنا اور مر چکے افراد کو موت کے بعد کی زندگی میں امید دلانا تھا۔ابیڈوس کی زیارت قدیم مصریوں کے لیےموت کے بعد کی زندگی میں ان کے عقائد کی عکاسی کرتی ہے۔وہاں مندر تعمیر کروا کر ہر دور کے فرعون اپنی حکمرانی کو جواز بخشنے اور دیوتاؤں کی اولاد کے طور اپنی حیثیت کی تصدیق کرنے کی کوشش کرتے تھے۔پرانی بادشاہت (اولڈ کنگڈم) میں قبروں کا سرپرست گیدڑ دیوتا کھینٹی آئمینٹیو تھا۔ پانچویں سلطنت کے قیام کے ساتھ دیوتا اوسیرس کی عبادت میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا گیا اور اس طرح ابیڈوس اس دیوتا کی عبادت کا ایک بڑا مرکز بن گیا۔سیٹی اول کا مندر انیسویں سلطنت کی سب سے نمایاں نشانیوں میں سے ایک ہے۔ اس مندر کی دیواریں نفیس ڈیزائن سے مزین ہے جن میں ایٹی اول اور اس کے بیٹے میسس دوم کی جانب سے دی جانے والی قربانیوں کا ذکر ہے۔مصر میں امریکن ریسرچ سینٹر کی ویب سائٹ کے مطابق یہ مندر عام مندروں کی مستطیل شکل میں نہیں ہے بلکہ اسے انگریزی حرف ’L‘ کی شکل میں بنایا گیا تھا۔ اس کی تعمیر میں چونے کا پتھر استعمال کیا گیا ہے۔یہ مندر سیٹی اول کی موت کے بعد اس کے بیٹے رمیسس دوم کے دور حکومت میں مکمل ہوا۔سیٹی اول کے مندر کے عقب میں ایک اور چھوٹا سا مندر ہے جسے اوسیریون کہا جاتا ہے۔ یہ اوریسس کا ایک علامتی مقبرہ ہے۔ اس میں ایک زیر زمین ہال ہے جس میں 10 ستونوں پر کھڑا ایک پلیٹ فارم موجود ہے جس کے چاروں اطراف پانی ہوا کرتا تھا۔ یہ مندر ایک تعمیراتی معجزہ ہے جو قدیم مصریوں کی انجینئرنگ میں مہارت کی عکاسی کرتا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
ابیڈوس کی مذہبی اور ثقافتی اہمیت
ابیڈوس میں کھدائی نے شہر کی طویل تاریخ اور مذہبی مرکز کے طور پر اس کے کردار کو اجاگر کیا ہے۔ ام القعاب کے مقبروں میں ابتدائی خاندان کے بادشاہوں میں سے ایک ڈیجر کے مقبرے کی دریافت سے شاہی تدفین اور مصری ریاست کی ابتدائی تشکیل کے بارے میں بہت سی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔سنہ 2014 میں یہیں فرعون سینبیکائی کی قبر دریافت ہوئی تھی۔ ان کے سلطنت کے بارے میں ماہرِ آثارِ قدیمہ کو پہلے کچھ خاص معلومات نہیں تھی۔ یہ ابیڈوس کی اہمیت اور مصری تاریخ میں اس کے کردار کو واضح کرتی ہے۔ابیڈوس قدیم مصر کی مذہبی اور ثقافتی دولت تاریخ کا حصہ اور اس کے مندر، مقبرے اور داستانیں قدیم مصریوں کے لیے اس جگہ کی روحانی اہمیت کی عکاسی کرتی ہے۔ابیڈوس کا ثقافتی اور علامتی ورثہ مصری فن، ادب اور مذہبی طریقوں تک پھیلا ہوا ہے۔ مصر بھر میں مندروں اور مقبروں میں اوسیرس، آئسس اور ہورس کی تصاویر مصری ثقافت میں ابیڈوس کے افسانے کی مرکزیت کی عکاسی کرتی ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesیہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قدیم تہذیبوں میں اس طرح کی کئی رسومات پائی جاتی تھیں۔ بابل تہذیب میں نیپور شہر کو اہم مذہبی مرکز کی حیثیت حاصل تھی جہاں لوگ انلل کے مندر کی زیارت کرتے تھے۔ سمیری تہذیب میں اُر شہر میں واقع دیوی نانا کا مندر بھی ایسی ہی اہمیت رکھتا ہے۔قدیم یونان میں، ڈیلفی کی زیارت سب سے مشہور مذہبی سفروں میں سے ایک تھا۔ ڈیلفی کی زیارت کے دوران قربانیاں پیش کی جاتیں اور پائیتھیان گیمز میں شرکت کی جاتی تھی۔ پائیتھیان گیمز کا میلہ ہر چار سال بعد منعقد کیا جاتا تھا۔قدیم روم میں ویسٹا کے مندر، مشتری کے مندر، اور ڈیمیٹر کے مندر جیسے مقامات کی زیارتیں رومی مذہبی رسومات کا حصہ تھیں۔تمام قدیم تہذیبوں میں، زیارتوں کو ہمیشہ سے اہمیت حصل رہی ہے۔ اس کو ایسی عبادت سمجھا جاتا جو لوگوں کو دیوتاؤں سے جوڑتی اور روحانی و سماجی روابط کو مضبوط کرتی۔ مقدس مقامات کے دوروں میں شامل مختلف رسومات ہر تہذیب کے مذہبی عقائد کی عکاسی کرتی تھیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.