قدیم روایت ’بیسا‘: جب البانوی مسلمانوں نے یہودیوں کو ہٹلر سے بچایا
البانیہ اُن چند یورپی ممالک میں سے ایک تھا جہاں بہت کم یہودی آباد تھے لیکن دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر یہاں یہودیوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہو گیا تھا۔
البانوی خاندان جن میں زیادہ تر مسلمان تھے، نے اپنے گھروں میں ان کو خوش آمدید کہا اور جرمنی اور آسٹریا جیسے ممالک سے ہزاروں یہودی پناہ گزینوں کی حفاظت کی جو نازی حکومت کے ظلم و ستم سے فرار ہو کر وہاں پہنچ رہے تھے۔
سنہ 1938 میں جنگ شروع ہونے سے ایک سال پہلے ہی البانیہ کے بادشاہ زوگ اول نے 300 سے زائد یہودیوں کو سیاسی پناہ دینے کی پیشکش کی تھی حتّیٰ کہ انھیں البانیائی شہریت بھی دے دی تھی لیکن یہ شاہی تحفظ زیادہ دیر نہیں چل سکا۔
سنہ 1939 میں اٹلی نے البانیہ پر حملہ کرتے ہوئے خود کو البانیہ کا محافظ قرار دیا اور بادشاہ زوگ اول کو ملک سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا۔ اٹلی کے فاشسٹ رہنما بینیٹو مسولینی کے زیرِ قبضہ آنے کے بعد البانیہ میں یہودیوں کا داخلہ مزید مشکل ہو گیا۔
تاہم سنہ 1945 میں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے تک البانیہ میں یہودی پناہ گزینوں کی تعداد 3,000 سے زیادہ ہو چکی تھی۔ اتنی زیادہ تعداد کی وجہ اس کے شہریوں کی روایتی یکجہتی اور ’بیسا‘ نامی ضابطہ اخلاق ہے۔
(یہ روایت پاکستان کے شمال مغربی خطوں میں آباد پشتونوں کے ضابطے ’پشتون ولی‘ سے بہت مشابہت رکھتی ہے جس میں دیگر اقدار کے علاوہ، مہمان نوازی کرنا یا پناہ دینا پشتون اپنی لیے باعثِ عزت سمجھتے ہیں۔)
شرلی کلوئیس ڈیو گارڈی، البانیہ سے امریکہ تک ’امریکن سوک لیگ‘ کی ایک رہنما کہتی ہیں کہ ’البانیوں نے یہودیوں کو اپنے خاندانوں میں سمو لیا، انھیں کھانا کھلایا، انھوں نے ان کی دیکھ بھال کی اور انھیں چُھپایا۔ جوں جوں حالات زیادہ خطرناک ہوتے گئے البانیہ کے مسلمان خاندانوں نے یہودی پناہ گزینوں کو دوسری جگہوں پر منتقل کرنے کے طریقے تلاش کرنا شروع کردیے۔‘
اسکوپجے، مقدونیہ سے تعلق رکھنے والا یہودی پناہ گزین خاندان، ایک البانی خاندان کے ساتھ جس نے 1943 میں ترانہ، البانیہ میں ان کا خیر مقدم کیا تھا
پناہ گزینوں کی مدد کرنے والوں میں سے بہت سے ایسے لوگ تھے جو سیاست یا سماجی تحریکوں میں شامل نہیں تھے لیکن ان میں صرف انسانی ہمدردی کا جذبہ تھا۔
پوڈ کاسٹ ہسٹری پر سیکریٹ ہیروز (خفیہ ہیروز) پر پروگرام پیش کرنے والی ہیلینا بونہم کارٹر کے مطابق، یہ کہانی ایک فوڈ مرچنٹ ارسلان رزنیقی کی ہے جس نے سینکڑوں یہودی پناہ گزینوں کو بچانے کے لیے اپنی اور اپنے خاندان کی جان کو خطرے میں ڈالا تھا۔
ارسلان کا خاندان مسلمان تھا، البانیہ میں اکثریتی مذہب اسلام ہے، جہاں کی آبادی کا صرف 17 فیصد مسیحی ہے، لیکن وہ اپنے آپ کو البانوی کمیونٹی کا سب سے پہلا اور سب سے اہم حصہ سمجھتی تھی، البانیوں کا یہ طبقہ اپنی انسانیت دوست فطرت پر فخر کرتا تھا اور یہ آج بھی ’بیسا کوڈ‘ پر عمل پیرا ہے۔
’بیسا‘، البانیہ کا اخلاقی ضابطہ
’بیسا اخلاقی ضابطہ‘ ان اصولوں کا ضابطہ ہے جس کی بنیاد دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور رواداری پر قائم ہے۔ بیسا کا مطلب ہے ’عزت و غیرت کا عہد‘ اور آپ کو اس کی اصلیت تلاش کرنے کے لیے 15ویں صدی کی زبانی روایات میں واپس جانا پڑتا ہے، یہ البانیوں میں اب بھی برقرار ہے۔
ڈیو گارڈی کہتے ہیں کہ ’بیسا ذاتی عزت کو دوسروں کے ساتھ احترام اور مساوات سے جوڑتا ہے۔ اس کی اہم اقدار میں سے ایک مہمان کا غیر مشروط تحفظ ہے، جو اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے تک بھی جا سکتا ہے۔‘
’بیسا‘ کا اخلاقی ضابطہ نسل در نسل منتقل ہوتا چلا آرہا ہے۔
اورجسٹ باقری نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ روایت صدیوں سے ’کنون‘ روایت کے حصے کے طور پر چلی آ رہی ہے، جو کہ 15ویں صدی میں شمالی البانیہ کے قبائل پر حکومت کرنے کے لیے غیر تحریری انداز میں تشکیل دیے گئے تھے، یہ اپنی مرضی کے مطابق قوانین کا ایک مجموعہ ہے۔
جب کہ انہی روایات کو بیسا کا اصل ماخذ سمجھا جاتا ہے، بہت سے لوگ دلیل دیتے ہیں کہ ’کنون‘ کہلانے والی روایت درحقیقت اس سے بھی پرانی ہے اور یہ کہ ’کنون‘ نامی روایات محض قدیم قبائلی روایات تھیں۔
یوگوسلاویہ سے یہودی پناہ گزین خاندان ہولوکاسٹ سے بچ کر البانیہ آئے
البانیہ پہنچنے والے زیادہ تر یہودی چھوٹے شہروں اور پہاڑوں میں پناہ لے کر چھپ گئے تھے یہاں البانیائی برادری کا ایک بڑا حصہ رہتا تھا لہٰذا اس بات کا امکان بہت کم تھا کہ حکام انھیں تلاش کر لیں گے۔ پناہ گزین زیر زمین بنکروں اور پہاڑی غاروں میں چھپے ہوئے تھے۔
لیکن جب نازیوں نے البانیہ پر قبضہ کیا تو انھوں نے البانیہ کے حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ انھیں ملک میں آباد یہودیوں کی فہرستیں فراہم کریں تاکہ انھیں جلاوطن کیا جائے۔ لیکن مقامی حکام نے انکار کر دیا۔
البانوی ’امریکن سوک لیگ‘ کے ساتھ کام کرنے والی شرلی ڈیو گارڈی نے لاوارث گھروں میں چھپے ہوئے یہودیوں کی بے شمار کہانیاں دیکھیں تھیں۔ اس لیے یہودیوں کو دی جانے والی امداد کو قومی غیرت کا مسئلہ سمجھا جاتا تھا۔
البانیوں کے انسانی کردار کی یہ پہچان ہے کہ ہولوکاسٹ کے متاثرین کے لیے اسرائیل کی یاد واشم یادگار تقریباً 25,000 ’نیک و متقی لوگوں‘ کو خراج تحسین پیش کرتی ہے جنھوں نے یہودی برادری کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈال دیں۔
اگرچہ دوسری جنگ عظیم ان مشکل ترین امتحانات میں سے ایک تھی جس کا اس سماجی ضابطہ کو سامنا کرنا پڑا، لیکن نازی حکومت کے مظالم نہ تو پہلا واقعہ تھے اور نہ ہی آخری چیلنج۔
ایک اصول جس میں کوئی استثنا نہیں تھا
البانیہ کے ایک پہاڑی قصبے میں قائم مسجد
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے چاہے زمانے اور اس کے ہونے والے شکار بدل جائیں۔ کئی سال بعد سنہ 1990 کی دہائی میں 500,000 سے زیادہ مہاجرین سرب فوجی دستوں سے بچنے کے لیے کوسوو چھوڑ کر البانیہ چلے گئے۔
ایک مہاجر خاندان کو بچانے والی البانوی خاتون کی پوتی نیویلا موکا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’البانی خاندان کوسوو کے پناہ گزین کیمپوں میں جاتے، کسی ایک خاندان کو ڈھونڈتے اور پھر انھیں گھر لے جاتے۔ وہ رشتہ دار یا دوست نہیں تھے، وہ اجنبی تھے، لیکن البانوی ان کا استقبال کرتے، انھیں کھلاتے، کپڑے پہناتے، ان کے ساتھ ایسا سلوک کرتے جیسے وہ ان کے خاندان کا حصہ ہوں۔‘
جب نیویلا سے پوچھا گیا کہ وہ کیوں سوچتی ہے کہ ان کی دادی نے ایسا کیوں کیا، تو وہ کندھے اچکا کر جواب دیتی ہے کہ ’یہ البانیائی طریقہ ہے۔ یہ ایک بیسا ہے۔‘
موکا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بیسا‘ البانیوں کے لیے ایک ضابطہ ہے یعنی ’اگر کوئی آپ کے پاس مدد کے لیے آتا ہے تو آپ اسے رہنے کے لیے جگہ دیتے ہیں۔‘
اگرچہ بیسا کے کچھ زیادہ سخت پہلو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو گئے ہیں، تاہم البانوی معاشرے میں فرض اور مہمان نوازی کی عمومی اقدار برقرار ہیں۔
البانیہ اب ایک بار پھر مشرق وسطیٰ سے سفر کرنے والوں کو پناہ دینے کی پیشکش کر رہا ہے۔
افغانستان سے امریکہ کے انخلا اور طالبان کے ملک پر قبضے کے بعد درجنوں افغان البانیہ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔
البانیہ کے وزیر خارجہ اولٹا زہکا نے سوشل میڈیا پر کہا کہ البانیہ ’خیر سگالی کے جذبے کے اظہار کے طور پر 4,000 افغان مہاجرین کی فخر کے ساتھ میزبانی کرے گا۔ یہ کبھی بھی بڑے اور امیر ممالک کی امیگریشن مخالف پالیسیوں کا مرکز نہیں بنے گا۔‘
اس طرح البانیہ جو کہ عظیم یورپی اقوام میں سے ایک چھوٹا اور غریب ملک ہے، نے اپنی پوری تاریخ میں ایک سے زیادہ مواقع پر ان لوگوں کی مہمان نوازی کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھولے جو ظلم و ستم کا شکار ہو کر اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
Comments are closed.