میکسیکو کی سترنگی جھیل: تین ارب سال پرانے زندہ فوسلز والی جھیل کے پھیکے پڑتے رنگ
- ایما ایلزوردی
- بی بی سی فیوچر
میکسیکو کے مقامی سیاحتی معاون کلاڈیو ڈیل ویلے کے مطابق جھیل باکالار لاگون کی خوبصورتی اس کے حسین نیلے رنگ کی سات اقسام سے زیادہ گہری ہے جن میں روشن فیروزی اور گہرے کوبالٹ رنگ تک سب ہی شامل ہیں۔
کلاڈیو ڈیل ویلے کے مطابق جھیل میں 100 میٹر گہرائی پر موجود چونے کے پتھر کے فرش پر دنیا کی سب سے قدیم زندگی کی باقیات موجود ہیں۔ ڈیل ویلے کا کہنا ہے کہ بیلیز سرحد کے قریب موجود اس لمبی جھیل کا دورہ کرنے کی سب سے اہم شرط یہ ہے کہ آپ وہاں کوئی شواہد نہ چھوڑیں۔
انھوں نے گذشتہ کئی برسوں سے سیاحوں کو ایسے کئی دورے کروائے ہیں جن میں وہ جھیل پر سورج کی کرنیں پڑنے سے پہلے ہی کشتی میں بیٹھ جاتے اور رات کے گہرے رنگ کے پانیوں کے بعد آہستہ آہستہ ان میں چمک آنے لگتی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کشتی رانی کے باعث مجھے اس جھیل کے بارے میں مزید جاننے کا موقع ملا۔ یہ اتنا اچھوتا، اتنا خوبصوت اور انتہائی شاندار تھا۔ پانی کی شفافیت اس انوکھی رنگت کو نیلے سے سبز کر دیتی ہے، آپ اس کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔‘
لیکن ڈیل ویلے کا کہنا ہے کہ ’سات رنگوں کی جھیل‘ شدید خطرے سے دو چار ہے، جو نہ صرف جھیل کا رنگ مستقل طور پر تبدیل کر سکتا ہے بلکہ سٹرومیٹولائٹس (سبز نيلگوں کائی اور دريائی مٹی کی پرتوں کا بنا ہوا تودہ) کی ایک قدیم آبادی کو تباہ کرنے کا باعث بن سکتی ہے، جو ایک زندہ فوسل ہے جو انسانوں، ڈائنوسار اور یہاں تک کہ پودوں سے بھی قدیم ہے۔
ڈیل ویلے 7.1 شدت کے پیوبلا زلزلے کے بعد 2017 میں باکالار چلے گئے تھے، وہ صدمے کے بعد تناؤ کا شکار تھے۔
ایک ماہر نفسیات دوست کے مشورے پر، وہ ایک پرسکون ماحول کی تلاش میں اپنے گھر سان کرسٹبل ڈی لاس کاساس سے 700 کلومیٹر جنوب مغرب میں باکالار کے لیے روانہ ہوئے۔ جو کچھ انھوں نے پایا اس نے ان کے ہوش اڑا دیے۔ ’یہ جنت تھی‘، انھوں نے پہلی بار باکالار کی جھیل دیکھ کر کہا۔
’آپ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب پر یقین نہیں کر سکتے تھے، ہر ایک بہت منفرد تھا۔ لیکن اب میں دیکھ سکتا ہوں کہ کیا ہو رہا ہے۔ یہ میرا دل دکھا رہا ہے، یہ غلط ہے۔‘
میریڈا میں نیشنل آٹونومیس یونیورسٹی آف میکسیکو کے مائیکر وبیل ماحولیات کی ماہر ڈاکٹر لوئیسہ فالکن کے مطابق جھیل باکالار گذشتہ ایک دہائی سے ماحولیاتی تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔
نومبر 2015 میں، میکسیکو کی وفاقی ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی نے جھیل کے لیے آلودگی کا الرٹ جاری کیا تھا۔ یہ مسئلہ جون 2020 میں اس وقت انتہا کو پہنچ گیا جب جھیل باکالار کی بھرپور آبی رنگت بھوری ہو گئی۔ یہ ابھی تک مکمل بحال نہیں ہوئی۔
فالکن نے خبردار کیا ہے کہ اگر کچھ نہ کیا گیا تو یہ نقصان شاندار رنگ کے پانی کو تباہ کر سکتا ہے۔
باکالار دنیا میں میٹھے پانی کی سب سے بڑے مائکروبیلائٹ چٹانوں کا گھر ہے، ہزاروں جرثوموں کے بنائے ہوئے چٹان نما ڈھانچے جو کاربونیٹ معدنیات کو ٹھوس شکل میں تبدیل کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا، ’باکالار کے مائیکروبیلائٹس کی عمر کئی دہائیوں سے لے کر 9000 سال تک ہے لیکن یہ مائیکروبیلائٹ کا زندہ فوسل ہم منصب سٹرو میٹولائٹس ہے، جو کہ ’تقریباً ساڑھے تین ارب سال پرانا‘ ہے، جو باکالار کی آبادی کو زمین پر زندگی کا سب سے قدیم ثبوت بناتا ہے۔
سٹرومیٹولائٹس گوبھی سے ملتے جلتے ہیں، بڑے، تکیے والے خاکستری ڈھانچے جو جھیل کے چونے کے نیچے سے اوپر کی طرف بڑھتے ہیں۔ وہ پتھروں کی طرح نظر آتے ہیں، لیکن وہ دراصل زندہ چیزیں ہیں۔
گوبھی نما سٹرو میٹولائٹس ابھی بھی دنیا میں صرف چند مقامات پر موجود ہیں اور باکالار کی آبادی وقت کے ساتھ منجمد ہونے والی تاریخ کو ظاہر کرتی ہے، جیسے درجہ حرارت یا لاکھوں سال پہلے پانی کی جیو کیمیکل ساخت۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دراصل پانی کی فزیوکیمیکل حالات کو اپنے ناقابل یقین حد تک سست گارے یا تلچھٹ کے عمل میں محفوظ رکھتے ہیں۔
خاص طور پر سٹرومیٹولائٹس عناصر کو ری سائیکل کرنے میں بھی مدد کرتے ہیں۔ مائیکروبس جو کہ سٹرومیٹولائٹ بناتے ہیں کاربن کو کاربن ڈائی اکسائڈ سے ہوا میں لیتے ہیں اور اسے ذخیرہ کرنے کے لیے جھیل کے فرش کے کاربونیٹ میں ڈال دیتے ہیں۔ درختوں کی طرح سٹرو میٹولائٹس فعال طور پر ہمارے ماحول کو بہتر بناتے ہیں۔
سٹرو میٹولائٹس کو دوہرے مسائل درپیش ہیں۔ اس جھیل میں زیر زمین چلنے والے 450 کلو میٹر طویل دریا سے پانی آتا ہے جو یوکاٹن جزیرہ نما میں دنیا کی سب سے بڑی پانی کی غار اور سرنگوں کے نظام کا حصہ ہے۔
یہ درحقیقت سٹرو میٹولائٹس کے لیے اچھا ہے، خیال کیا جاتا ہے کہ سرنگوں کی کاربونیٹ چٹان ان کو معمول سے زیادہ بڑی بناتی ہے، جو کہ تالاب کی سطح پر پھنس جاتی ہے۔ لیکن کارسٹک ماحولیات جہاں زمینی پانی دراڑوں اور غار کے نظاموں کے ذریعے بہتا ہے، اور آبی ذخائر کو آپس میں جوڑتا ہے، یہ سٹرومیٹولائٹس کو بھی اوپری بہاؤ کی تبدیلیوں کے خطرہے سے دوچار کر دیتا ہے۔
فالکن کا کہنا ہے کہ پچھلے عشرے میں لاگون سے اوپر کی طرف بارانی جنگلات کی کٹائی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے تلچھٹ یعنی گارا، کیڑے مار ادویات اور کھادیں برسات کے موسم میں پانی میں مل جاتی ہیں۔
نائٹروجن اور امونیم کی بہت زیادہ مقدار لاگون میں خاص طور پر قصبے کے قریبی علاقے میں ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ پانی کی ہیئت بدل رہی ہے، کائی اور مولسکس تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ابھی تک، کسی تحقیق سے یہ ثابت نہیں ہوا کہ مائیکروبیلائٹ کمیونٹیز کو پہنچنے والا ماحولیاتی نقصان مختصر مدت میں ٹھیک ہو سکتا ہے۔
مقامی سیاحت کی صنعت نے باکالار کی تنزلی میں کردار ادا کیا ہے۔ ’ایک سیاحتی مقام کے طور پر باکالار نے بہت زیادہ توجہ حاصل کی ہے لیکن وہاں ضروری شہری منصوبہ بندی نہیں ہے، جس میں سیوریج کے مناسب انتظام اور سینیٹری کی سہولیات شامل ہیں۔‘
فالکن کے شریک مصنف کے مطابق انسانی آنت میں پائے جانے والے بیکٹیریا فرمکیوٹس کی بڑی مقدار لاگون میں پائی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ ڈی ویلے کا کہنا ہے کہ جھیل پر ایک بے تحاشا بڑھتی سیاحت کی صنعت، بشمول کشتیاں، کیئکس، جیٹ سکی، لنگر اندازی، فِن ککس اور یہاں تک کہ لاگون کے کنارے کھڑے لوگ بھی سٹرومیٹولائٹس کی سطح کو ٹوٹتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
جب ان کی سطح کو پنکچر کیا جاتا ہے، تو وہ مر جاتے ہیں بالکل مرجان کی چٹانوں کی طرح۔
ان کا کہنا تھا ’بہت سارے ہوسٹل، ہوٹل، ایئربی این بیز ہیں، بہت سے لوگوں کو سٹرومیٹولائٹس اور مینگرووز کی پرواہ نہیں ہے جو کہ تالاب کے قدرتی وسائل کو دوبارہ پیدا کرنے میں مدد دیتے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
مقامی محقق اور ماہر حیاتیات سلوانا ایبرا جو باکالار ایکویفر اور لاگون سسٹم کی بحالی اور تحفظ کے لیے کام کرنے والی سٹیزن اینڈ سائنٹیفک کونسل کی رکن ہیں، وہ بھی اس بات سے متفق ہیں۔
ان کا کہنا تھا ’باکالار میں سیاحوں کی تعداد گذشتہ تین سال میں 600 فیصد بڑھی ہے اور یہاں میزبان اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ لیکن پچھلے 12 مہینوں میں سیاحوں کی سست روی نے جھیل کے 42 کلومیٹر طویل پھیلاؤ کو ٹھیک ہونے کا موقع دیا ہے۔
ایبرا کہتی ہیں ’یہ مسائل ایک دہائی قبل شروع ہوئے تھے اور دو سال قبل یہ بدترین ہو گئے۔ لیکن کورونا کی وبا کے دوران اس میں بہتری دیکھی گئی حتیٰ کہ ہم نے دریائی اود بلاؤ سمیت جانوروں کو دیکھا۔‘
اس سست سیاحتی سرگرمی نے لاگون کے رنگوں کو دوبارہ زندہ ہونے کا موقع دیا ہے۔
مزید پائیدار سیاحت کے ساتھ باکالار جھیل اپنی بحالی جاری رکھ سکتی ہے اور ’سترنگی جھیل‘ کے طور پر اپنی ساکھ بحال کر سکتی ہے۔
ایبرا کا کہنا ہے کہ ’مسافروں کے لیے ایسا کرنے کے کئی آسان طریقے ہیں۔‘
وہ مشورہ دیتی ہیں کہ ’کبھی بھی لاگون میں سٹرو میٹولائٹس کو ہاتھ نہ لگائیں، ان پر قدم نہ رکھیں ،سیاحوں کو ننگے پاؤں لاگون میں داخل ہونا چاہیے لیکن سن سکرین یا میک اپ لگا کر کبھی نہیں، کیونکہ دونوں ہی سٹرومیٹولائٹس کو بلیچ کر سکتے ہیں۔ ماحول دوست ہوٹلوں میں رہیں اور بہت اہم بات یہ ہے کہ اپنے کچرے کو کم کریں۔‘
ان کا کہنا تھا ’یہ جان کر یہاں آئیں کہ یہ ایک نازک قدرتی پناہ گاہ ہے جس کا علاج احتیاط سے کیا جانا چاہیے۔ تالاب کی حفاظت کرنا اور خاص طور پر علاقے کو اپنانا ضروری ہے، کیونکہ دوسری صورت میں، اس کی خوبصورتی اور قدرتی خدمات ختم ہو جائیں گی۔‘
اس سے پہلے کہ سفری حالات کورونا وبا سے پہلے کی سطح پر لوٹ جائیں ڈیل ویلے کا کہنا ہے کہ یہ مقامی سیاحتی آپریٹرز پر منحصر ہے کہ وہ کرسٹل لائن لاگون کو بچائیں جو جزیرہ نما یوکاٹن میں سب سے بڑا ہے۔
ڈیل ویلے نے جھیل کے آس پاس کے بہت سے آپریٹرز سے رابطہ کیا ہے تاکہ ان کی سیاحت کی پیشکش کو زیادہ بہتر اور ماحول دوست بنایا جا سکے۔
انھوں نے کہا ’مقامی لوگ لاگون میں موجود ان تمام موٹر بوٹس کے مالک ہیں، جو سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ میں نے ان میں سے کئی کے ساتھ کئی بار بات کی ہے تاکہ انھیں قائل کیا جا سکے۔ میں نے انھیں مفت میں پیڈل ٹور کرنے، سیلنگ ٹور کرنے کی تربیت دینے کی پیشکش کی، جو ایسی چیزیں ہیں جو لاگون کو متاثر نہیں کرتیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا ’امید ہے کہ صحیح وقت آنے پر معاشرے میں تبدیلی آئے گی اور سب سے اہم چیز فطرت ہے جو بحال ہونا شروع ہو گی۔‘
ماضی کی شاندار جھیل باکالار کے بارے میں اپنے پہلے تاثرات کے بارے میں سوچتے ہوئے خاص کر اس وقت جب وہ خود صدمے کا شکار تھے ڈیل ویل نے کہا ’اس نے مجھے دوبارہ ٹھیک کرنا شروع کیا۔ آج خطرے سے دوچار اس لاگون نے ان کی بحالی کے عمل کو تیز تر کیا تھا۔‘
’میری بالغ زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے کسی چیز سے تعلق کا احساس ہو رہا تھا۔ امید ہے کہ، تھوڑی مدد سے میکسیکو کی سترنگی جھیل بھی ٹھیک ہو جائے گی۔‘
Comments are closed.