ماحولیاتی تبدیلی: شدید قحط کے خطرات سے دوچار مڈغاسکر میں لوگ کیڑے مکوڑے کھانے پر مجبور
- اینڈرو ہارڈنگ
- بی بی سی نیوز
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ مڈغاسکر اس وقت ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیش آنے والے دنیا کے پہلے قحط کے دھانے پر پہنچ چکا ہے۔ مڈغاسکر میں گذشتہ چار برسوں سے بارشیں نہیں ہوئیں اور اس وقت بھی اس ملک کی بیشتر آبادی تباہ کن حد تک بھوک اور خوراک کی قلت کا شکار ہے۔
گذشتہ چار دہائیوں پر محیط بدترین قحط نے ملک کے جنوب میں واقع زرعی آبادیوں کو تباہ کر دیا ہے اور وہاں کے رہائشی زندہ رہنے کے لیے کیڑے مکوڑے کھانے پر مجبور ہیں۔
عالمی ادارہ خوراک (ڈبلیو ایف پی) کی شیلی تھرکال کا کہنا ہے کہ ’یہ قحط جیسی صورتحال ہے جو کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہے، جنگ کی وجہ سے نہیں۔‘
اقوام متحدہ کا تخمینہ ہے کہ اس وقت عالمی سطح پر 30 ہزار لوگ شدید ترین سطح کے طور پر تسلیم شدہ لیول 5 فوڈ ’ان سکیورٹی‘ سے دوچار ہیں۔ یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کٹائی کے موسم سے پہلے مشکل حالات کی وجہ سے یہ تعداد کہیں زیادہ بڑھ سکتی ہے۔
شیلی تھرکال کا کہنا ہے کہ ’اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ان لوگوں نے (مڈغاسکر کے رہائشی) ماحولیاتی آلودگی بڑھانے میں کچھ نہیں کیا۔ یہ فوسل فیوئلز (معدیناتی ایندھن) نہیں جلاتے مگر پھر بھی انھیں ماحولیاتی تبدیلی کے بدترین مسائل کا سامنا ہے۔‘
حال ہی میں فندیوا نامی ایک گاؤں میں مقامی لوگوں نے عالمی ادارہ صحت کی ٹیم کو وہ ٹڈیاں دیکھائیں ہیں جو انھیں کھانی پڑ رہی ہیں۔
چار بچوں کی ماں ٹیمارا کا کہنا تھا کہ ’میں کیڑوں کو جتنا صاف کر سکتی ہوں کرتی ہوں، مگر پانی کی شدید قلت ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میں اور میرے بچے گذشتہ آٹھ ماہ سے یہی کھا رہے ہیں کیونکہ ہمارے پاس کھانے کو اور کچھ نہیں ہے اور نہ ہی بارش ہو رہی ہے۔۔۔ ہم وہ کاٹ لیں جو ہم نے بویا ہے۔‘
مٹی کے ڈھیر پر بیٹھی بول نامی ایک اور خاتون کہتی ہیں کہ ’آج ہمارے پاس کھانے کو کیکٹس کے پتوں کے علاقوں کچھ بھی نہیں ہے۔‘ بول کے تین بچے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ حال ہی میں ان کے شوہر کی ہلاکت بھوک سے ہوئی تھی اور ان کے ایک ہمسائے کے ساتھ بھی یہی ہوا۔
وہ کہتی ہیں ’میں کیا کہ سکتی ہوں۔ ہماری زندگی بار بار کیکٹس کے پتے ڈھونڈنے اور زندہ رہنے کی تگ و دو میں بسر ہو رہی ہے۔‘
پانی
اگرچہ مڈغاسکر اکثر قحط سالی کا شکار رہتا ہے مگر ماہرین کا ماننا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کو براہِ راست حالیہ قحط کی صورتحال کے پس منظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
آئی پی سی سی کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق مڈغاسکر میں خشک سالی میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور اگر ماحولیاتی تبدیلی جاری رہی تو اس میں اضافے کا امکان ہے۔
یونیورسٹی آف کیپ ٹاؤن میں مڈغاسکر سے تعلق رکھنے والے سائنسدان ڈاکٹر رونڈر باریملالا کا کہنا ہے کہ ’(موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے) لوگوں کے رویے تبدیل کرنے کے لیے یہ ایک طاقتور ترین وجہ ہے۔‘
مڈغاسکر کے قحط کی حالیہ لہر کے اثرات اب جنوبی شہروں میں بھی نظر آنے لگے ہیں اور اب آپ کو بچے سڑکوں پر بھیک مانگتے بڑی تعداد میں نظر آئیں گے۔
مارکیٹوں میں اجناس کی قیمتیں تین سے چار گنا بڑھ گئی ہیں۔ لوگ کھانا خریدنے کے لیے زمینیں فروخت کر رہے ہیں۔
بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی فصلوں کی حفاظت کے لیے اپنے کھیتوں میں سونے لگے ہیں کیونکہ خدشہ ہے کہ بڑی تعداد میں موجود بھوکے افراد یہاں حملہ کر سکتے ہیں۔
سیڈ نامی تنظیم کے ایک کارکن کا کہنا تھا ’آپ کو اپنی جان خطرے میں ڈالنی پڑتی ہے اور اب یہ مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ مجھے ہر روز اپنی فیملی کو کھانا کھلانے کی فکر ہوتی ہے۔ ہر چیز انتہائی ناقابلِ یقین ہے اور آپ کو نہیں پتہ کہ اگلے دن موسم کیسا ہو گا؟‘
Comments are closed.