قتل کے الزام میں 48 برس کی غلط سزا کاٹنے کے بعد رہائی: ’جیل میں ایسے دن بھی آئے، جب میں نے اپنا ہوش کھو دیا‘،تصویر کا ذریعہCRYSTAL CHATMON30 منٹ قبلگلین سمنز نے اپنے ایک دوست کے ساتھ ٹلسا، اوکلاہوما جانے والے فری وے پر گاڑی کی مسافر نشست کی کھڑکی سے دور تک نگاہ ڈالی۔ ان کی نظریں رات کے آسمان پر جمی ہوئی تھیں جو ستاروں سے جگمگا رہا تھا۔ یہ ایک ایسا منظر تھا جسے 70 سالہ سمنز تقریباً نصف صدی سے نہیں دیکھ سکے تھے کیونکہ انھوں نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ ایک ایسے قتل کے الزام میں جیل میں گزارا تھا جو انھوں نے نہیں کیا تھا۔’یہ ایسا ہے جیسے موسموں کو بدلتے ہوئے دیکھنا، سادہ چیزیں جو آپ جیل میں نہیں کر سکتے تھے۔ آپ اس سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے تھے۔‘سمنز نے بی بی سی کو بتایا کہ آپ یہ سب نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ’یہ خوشی کی بات ہے‘۔

سمنز کو جولائی 2023 میں جیل سے رہا کیا گیا تھا۔ دسمبر میں انھیں 1974 میں کیرولین سو راجرز کے قتل میں بے قصور قرار دیا گیا تھا۔ اسے امریکہ میں اب تک کی سب سے لمبی غلط سزا کہا جا رہا ہے۔ان کی سزا اس وقت ختم کی گئی جب ایک ضلعی عدالت نے پایا کہ استغاثہ نے تمام شواہد دفاع کے وکلا کے حوالے نہیں کیے، بشمول ایک گواہ جس نے مشتبہ افراد کی شناخت کی تھی۔ وہ 22 سال کے تھے جب انھیں اور ایک اور شخص ڈان رابرٹس کو 1975 میں مجرم قرار دیا گیا اور سزائے موت سنائی گئی، جسے بعد میں عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔سمنز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اپنی آزادی، اپنی موجودہ جنگ اور اس امید کے بارے میں بات کی جس نے انھیں 48 سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندہ رکھا۔ انھوں نے کہا کہ ’بے قصور ہوتے ہوئے یہ آپ کو اپنے ایمان کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ میں جھوٹ بولوں گا اگر میں نے کہا کہ میں نے کئی بار اپنا اعتماد نہیں کھویا لیکن یہ ایک ربڑ بینڈ کی طرح ہے، آپ پھیلتے ہیں اور آپ واپس آتے ہیں۔‘

’انصاف شعوری طور پر نظر انداز ہوا‘

جنوری 1975 میں سمنز ان متعدد افراد میں سے ایک تھے جنھیں ایک پارٹی میں ’ڈکیتی کے جعلی الزامات‘ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔انھیں ایک پولیس سٹیشن لایا گیا، جہاں افسران نے انھیں ایک ماہ قبل اوکلاہوما سٹی کے مضافاتی علاقے میں ایک شراب کی دکان میں ڈکیتی کے دوران راجرز کے قتل کے سلسلے میں ایک شناخت پریڈ میں حصہ لینے کے لیے کہا۔راجرز جو اس وقت سٹور کلرک کے طور پر کام کر رہے تھے، انھیں سر میں گولی ماری گئی تھی، لیکن ابھی تک یہ کیس حل نہیں ہوا۔’میں ابھی 21 سال کا ہوا تھا۔ مجھے فوجداری انصاف کے نظام کا کوئی سابقہ تجربہ نہیں تھا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ مجھے وکیل کا حق ہے، انکار کرنے کا حق ہے۔ مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا۔‘سمنز نے بتایا کہ واقعے کے دوران ایک گاہک جسے سر میں گولی ماری گئی تھی، اسے صحت یاب ہونے پر قتل کے مشتبہ مجرم کو شناخت کرنے کے لیے کہا گیا۔ انھوں نے کہا کہ اس خاتون نے سمنز کو کبھی شناخت نہیں کیا تھا۔ سمنز کے وکیل، جو نورووڈ کے مطابق، اس کی بجائے، انھوں نے شناخت پریڈ میں موجود کم از کم تین دیگر افراد کی مختلف خصوصیات کی طرف اشارہ کیا۔اس کے باوجود سمنز جن کا کہنا تھا کہ وہ قتل کے وقت لوزیانا میں تھے، کو مجرم قرار دے کر سزائے موت سنائی گئی۔ ’میں اسے انصاف کی خلاف ورزی نہیں کہتا۔ یہ کوئی غلطی نہیں تھی۔ یہ جان بوجھ کر کیا گیا عمل تھا۔‘یہ 1975 کی بات ہے جب اوکلاہوما میں نسل پرستی کا ماحول واضح تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ پولیس کے پاس بہت سارے مقدمات تھے جو حل نہیں ہوئے تھے اور بہت زیادہ دباؤ تھا۔امریکہ کی نیشنل رجسٹری آف ایگزویشنز کے مطابق امریکہ میں سیاہ فام افراد کو غلط طریقے سے قتل کا مجرم قرار دیے جانے کے امکانات سفید فام افراد کے مقابلے میں ساڑھے سات گنا زیادہ ہوتے ہیں۔سمنز نے کہا کہ جیل میں ایسے دن تھے جب انھوں نے ’اپنا ہوش کھو دیا‘۔انھوں نے کہا کہ انھیں اضطراب کا دورہ پڑا اور جیسے جیسے وہ بڑے ہوتے گئے، کبھی کبھی یہ امید رکھنا مشکل ہو جاتا تھا کہ وہ بے گناہ ثابت ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ جب آپ ہر وقت اپنے ارد گرد لڑکوں کو مرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو آپ حساب کتاب کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ سمنز میں رہائی سے صرف ایک سال قبل جگر کے سرطان کی تشخیص ہوئی۔ انھیں علاج کے لیے انتظار کی فہرست میں رکھا گیا تھا لیکن جیل سے باہر آنے سے پہلے ان کی کیموتھراپی نہیں ہو سکتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’رہائی کے لیے میری جدوجہد اس سے کہیں زیادہ تیز ہو گئی جتنی کئی سال پہلے تھی۔ آپ ایمان کھونا شروع کر دیتے ہیں لیکن میرے لیے یہ کیفیت کبھی زیادہ دیر تک نہیں رہتی۔‘ ،تصویر کا ذریعہCRYSTAL CHATMON

’تقریباً 50 سال کا غصہ ہے، جسے ٹھیک کرنا ہو گا‘

انھوں نے کہا کہ جیل سے نکلنے اور بے گناہ قرار دیے جانے کے بعد سے سمنز کو جذبات کے طوفان کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس میں سب سے طاقتور شکر گزاری ہے۔انھوں نے کرسمس اپنے بیٹے، تین پوتے پوتیوں اور سات پڑ پوتے پوتیوں کے ساتھ گزارا۔ ’یہ خوبصورت تھا۔ ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ پہلی بار ہے۔‘سمنز نے کہا کہ اپنی بے گناہی کا علم ہونے کی وجہ سے انھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے وقت گزارنے میں مدد ملی۔اس کے باوجود، ان کی زندگی میں تلخی کے احساسات بھی شامل ہیں۔ سمنز نے کہا کہ ریاست اوکلاہوما نے ان سے کوئی معافی نہیں مانگی۔ جیل سے رہائی پر انھیں بنیادی ضروریات اور طبی علاج کے لیے کوئی ذاتی سامان یا پیسے دیے بغیر چھوڑ دیا گیا۔سمنز کا کہنا تھا کہ اوکلاہوما میں غلط سزا پانے والے افراد کو 175,000 ڈالر تک معاوضہ دیا جا سکتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید انھیں برسوں تک کوئی معاوضہ نہ ملے۔دریں اثنا، سمنز کے لیے فنڈ جمع کرنے والی ایک کمپنی نے 326,000 ڈالر جمع کیے ہیں، جن میں 30،000 ڈالر کے گمنام عطیات بھی شامل ہیں۔ سمنز آزادی کی اپنی نئی زندگی اپنی کہانی شیئر کرنے اور فوجداری انصاف کے نظام کی اصلاح کے لیے کام کرنے میں گزارنا چاہتے ہیں جس میں ایک بے گناہ شخص اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ سلاخوں کے پیچھے گزارتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’یہ مستقبل کے لیے میری ترغیب ہے، میں واپس آنے کی کوشش کر رہا ہوں اور ان افراد کی مدد کر رہا ہوں جو اسی پوزیشن پر ہیں جہاں میں تھا۔ ہمیں فوجداری انصاف میں اصلاحات کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں واقعی اس پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم یہ کیسے کرتے ہیں۔‘ وہ اپنے لیے بھی وقت نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ دنیا کا سفر کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے قید کی انتہا دیکھی ہے، اب میں آزادی کی دوسری انتہا پر جانا چاہتا ہوں۔‘وہ اپنی آزادی کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی غلط قید پر ناراضی کو دور کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’تقریباً 50 سال کا غصہ ہے۔۔۔ غصہ اور تلخی لیکن آپ کو اسے ٹھیک کرنا ہوتا ہے ورنہ یہ آپ کو کھا جائے گا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}