قتل کے الزام میں 20 سال جیل میں گزارنے والا ملزم: ’قتل کا اعتراف کرنے کے بجائے جیل میں ہی مرنا پسند کروں گا‘
- بروناغ منرو
- بی بی سی
اگست 2002 میں جب سے انھیں ایک نوجوان خاتون کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، تب سے عمر بینگویٹ اپنی بے گناہی کی دہائی دیتے رہے ہیں۔ پہلی نظر میں ان کے خلاف مقدمہ سیدھا اور صاف نظر آتا ہے کیونکہ بڑی تعداد میں لوگوں نے ان کے خلاف گواہی دی تھی۔
عمر منشیات کے عادی تھے اور 60 مجرمانہ مقدمات میں سزا یافتہ بھی، جن میں ایک شخص پر چاقو سے وار کرنے کا الزام بھی شامل تھا۔
اس مقدمے کی سماعت کے دوران استغاثہ کے مرکزی گواہ نے عدالت کو بتایا کہ جنوبی کوریا کی طالبہ جونگ اوکے شن (جو کہ اوکی کی نام سے معروف تھیں) کے قتل کے بعد انھوں نے خود خون میں لت پت عمر کو ایک کریک ہاؤس (جہاں منشیات فروخت ہوتی ہیں) پہنچایا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ عمر نے برطانیہ کے علاقے بورن متھ میں اس لڑکی کو اس وقت چھرا گھونپا جب وہ تنہا سڑک پر جا رہی تھی اور اس نے عمر کے ساتھ پارٹی میں جانے سے انکار کر دیا تھا۔
لیکن جیسا کہ مجھے 2018 میں پتہ چلا، عمر کے خلاف استغاثہ کے کیس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کیس کی اہم گواہ جس کی شناخت قانونی وجوہات کی بنا پر نہیں ہو سکتی ہے اور ہم اسے بی بی کے نام سے موسوم کریں گے۔ یہ گواہ ایک منشیات کی عادی خاتون ہیں جن کا ماضی جھوٹے الزامات لگانے کے لیے جانا جاتا ہے۔
وہ ہی ایک واحد گواہ تھیں جن کی گواہی کی بنیاد پر عمر پر مقدمہ درج کیا گیا۔ اس میں کوئی سی سی ٹی وی یا فرانزک ثبوت موجود نہیں تھے۔ دوسرا گواہ بھی منشیات کا عادی تھا جس کا کہنا تھا کہ اسے عمر کے خلاف جھوٹی گواہی دینے پر مجبور کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے
توقع ہے کہ عمر کو 2022 میں پیرول مل جائے گی اور اگر اس نے قتل کا اعتراف کیا تو اسے رہا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس نے مجھے بتایا کہ وہ قتل کا اعتراف کرنے کے بجائے جیل میں ہی مرنا پسند کرے گا۔
بی بی سی تھری کے نئے پروگرام ’ان سالووڈ، این ایلیبائی آف عمر‘ (Unsolved: An Alibi for Omar) کے دوران مجھے ایسے نئے شواہد معلوم ہوئے ہیں جو انھیں معافی دلوا سکتے ہیں۔ مجھے استغاثہ کے مزید گواہ بھی ملے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ عدالت میں عمر کے بارے میں جھوٹ بولیں۔
ڈورسیٹ پولیس کا کہنا ہے کہ عمر بینگویٹ پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے کافی شواہد موجود تھے اور یہ کہ انھیں جیوری نے متفقہ طور پر سزا سنائی تھی۔
’میں مجرم تھا لیکن میں سچ بول رہا ہوں‘
جب سے عمر کو سزا سنائی گئی ہے تبھی سے ان کی بہن ایمی بینگویٹ اس سزا کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کے بھائی کو اس قتل کے الزام میں پھنسایا گیا ہے۔
سنہ 2018 میں میری اس وقت ان سے ملاقات ہوئی جب میں نے اس مقدمے کا جائزہ لینا شروع کیا اور آنے والے برسوں میں انھیں اس کے سنگین نتائج بھگتنے پڑے۔
انھوں نے مجھے بتایا کہ ’جب میں اس معاملے کی تحقیقات کے لیے واپس بورن متھ آئی تو مجھے اپنا گھر چھوڑنا پڑا کیونکہ ان کے پڑوسی ایسے لوگوں سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے تھے جن کا نام ایسے معاملے سے جڑا ہو یا وہ کسی قانونی مقدمے میں ملوث ہو۔ مجھے بہت عجیب لگتا تھا اس لیے مجھے وہ گھر چھوڑنا پڑا۔‘
ایمی نے مجھے عمر کے مقدمے سے متعلق شواہد دکھائے۔ یہ دستاویز پہلے ہی کئی وکیل دیکھ چکے ہیں لیکن ایمی کو یقین ہے کہ انھی کاغذات میں عمر کی بے گناہی چھپی ہوئی ہے۔
ایمی کہتی ہیں ’مجھے معلوم ہے ثبوت ان کی نظر سے نہیں گزرا۔‘
عمر بینگویٹ کی بہن ایمی
26 سالہ اوکی، قتل کی رات دوستوں کے ساتھ نائٹ کلب گئی تھیں۔ جب ان پر حملہ ہوا تب وہ اپنے گھر سے محض ایک گلی کے فاصلے پر تھیں۔
اپنی زندگی کے آخری چند گھنٹوں میں انھوں نے پولیس کو وہ سب کچھ بتایا جو انھیں اس حملے کے بارے میں یاد تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ماسک پہنے ایک شخص نے انھیں پیچھے سے چھرا گھونپا اور بھاگ گیا۔ عمر اور ان کی بہن کا اصرار ہے کہ یہ شخص عمر نہیں تھا۔
عمر کی سزا بی بی کی شہادت پر منحصر ہے۔ اس نے پولیس کو بتایا کہ عمر سمیت تین افراد نے انھیں زبردستی لفٹ دینے پر مجبور کیا اور جب ان کی کار اوکی کے پاس سے گذری تو عمر اور دو دیگر افراد نے کار سے باہر چھلانگ لگا کر اوکی کو اپنے ساتھ پارٹی میں آنے کے لیے کہا۔
’جب اوکی نے انکار کیا تو اس نے اسے چھرا مار دیا۔ بی بی نے بتایا کہ یہ لوگ واپس کار میں بیٹھے اور انھیں مجبوراً ایک کریک ہاوس میں ان لوگوں کو چھوڑنا پڑا جہاں عمر نے اپنے جسم پر سے خون کے دھبے صاف کیے۔ ‘
میں اس سے پہلے بی بی سے بات کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی لیکن اس تازہ ترین پروگرام کو بناتے ہوئے میں نے اس کا پتہ لگایا۔ وہ اصرار کرتی ہے کہ وہ سچ کہہ رہی تھی۔
وہ کہتی ہیں ’میں جھوٹ نہیں بول رہی ہوں۔ میں نے کوئی غلطی نہیں کی لیکن وہ اعتراف کرتی ہیں کہ وہ دیکھ سکتی ہے کہ لوگ ان کی گواہی پر شک کرتے ہیں کیونکہ وہ ہیروئن کی عادی تھیں۔‘
’میں نشے کے عادی لوگوں پر اعتبار نہیں کر سکتی، آپ بھی نہیں کریں گے۔ جب آپ نشے کے عادی ہو جاتے ہیں تو آپ اپنی ماں تک کو لوٹ لیتے تھے۔ اس وقت میں ایک مجرم تھی۔‘ وہ کہتی ہیں ’لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں سچ نہیں بول رہی تھی۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ عمر کے اہل خانہ سے کیا کہیں گی، تو وہ سیدھا جواب دیتی ہیں ’مجھے معلوم ہے کہ وہ سو فیصد قصور وار ہے۔‘
’مجھے یہ کہنے پر مجبور کیا گیا‘
ایک جانب بی بی اپنی کہانی پر قائم ہیں لیکن استغاثہ کے بہت سے گواہوں کو اب شبہات ہیں۔ میں نے ان 12 گواہوں سے بات کی ہے جن کے خیال میں پولیس نے عمر کے خلاف غیر منصفانہ ثبوت اکٹھے کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ افسروں کو اس بات کا یقین تھا کہ وہ قصور وار ہے اور انھیں یہ ثابت کرنے کے لیے گواہوں کی ضرورت تھی۔
ان استغاثہ کے پانچ گواہوں نے عدالت میں عمر کے متعلق جھوٹ بولنے کا اعتراف کیا۔
بیورلے میک نیلی کا دعویٰ ہے کہ ان پر پولیس نے دباؤ ڈالا تھا کہ وہ دریائے اسٹوور میں ملنے والے کپڑوں کے تھیلے کے بارے میں غلط بیان دیں۔ پولیس کا خیال تھا کہ وہ قاتل نے پہنے ہوئے تھے لیکن اس پر عمر کے خلاف کوئی فارانزک ثبوت نہیں ملے تھے۔
بیورلے کہتی ہیں کہ ’وہ کہہ رہے تھے کہ میں کہوں کہ ہاں میں نے یہ کپڑے اسے دیے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں وہ سب کہوں جو وہ مجھ سے کہلوانا چاہ رہے تھے۔ مجھے یہ کہنے پر مجبور کیا گیا۔ انھوں نے ایک بیان میں وہ سب کچھ لکھا جو وہ مجھ سے کہلوانا چاہتے تھے۔ مجھے خود سے نفرت ہوتی ہے۔‘
بیورلے میک نیلی کا ایک طویل مجرمانہ ریکارڈ موجود تھا اور ان کا کہنا تھا کہ خدشہ ہے کہ اگر انھوں نے پولیس کے ساتھ تعاون نہ کیا تو انھیں ان کے مجرمانہ ریکارڈ کے سبب پریشان کیا جائے گا۔
ایمی نے اسی اثنا میں سی سی ٹی وی کی ان تصاویر کو بے نقاب کیا جو عمر کے ابتدائی بیان میں مدد فراہم کرسکتی ہیں۔
عمر نے کہا تھا کہ اس رات وہ سلیم نائٹ کلب گیا تھا اور ایمی کو بار کے اندر سے فوٹیج مل گئی۔ اس میں عمر کی شکل والا ایک شخص دیکھا گیا ہے جو رات کے 10 بجے کے بعد بار میں موجود ہے۔
اس سے عمر بے قصور ثابت نہیں ہوتا کیونکہ یہ قتل صبح تقریباً ڈھائی بجے کے قریب ہوا تھا لیکن مجھے جو ملا اس سے یہ ثابت ہو سکتا ہے۔
چارمینسٹر روڈ سے ملنے والی مزید سی سی ٹی وی تصاویر میں قتل کی رات کو صبح 3.15 بجے ایک شخص دکھایا گیا جو عمر سے مشابہت رکھتا ہے اور اگر یہ عمر ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ قتل کے بعد کریک ہاؤس میں خون صاف کرنے کیسے جا سکتا ہے۔
تصاویر کا موازنہ کرنے والے ایک ماہر نے بی بی سی کو بتایا کہ تمام فوٹیج میں دکھائے جانے والے شخص کے درمیان سخت مماثلتیں ہیں۔ ایمی بینگویٹ نے اب ان شواہد کی بنیاد پر تیسری اپیل کے لیے درخواست دائر کی ہے۔
عمر کے وکیل ڈیس جینسن کا کہنا تھا کہ میں نے جن گواہوں کا پتہ لگایا تھا ان میں سے کچھ نے اب اپنے شواہد واپس لے لیے ہیں۔
’یہ بہت اہم ہے کیوں کہ آپ کو اپنے آپ سے پوچھنا ہے کہ ان بیانات میں جو معلومات تھیں وہ کہاں سے آئیں؟ کیونکہ یہ معلومات ان گواہوں کی طرف سے نہیں آئیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب میں نے پہلی بار یہ کیس لیا اور اس کو پڑھا تو میرا ابتدائی تاثر یہ تھا کہ یہ انصاف کی غلط فہمی ہے۔ اس کے بعد سے میں نے جو کچھ بھی پڑھا ہے، جس سے میں نے بات کی ہے اور جو کچھ میں نے دیکھا ہے اس نے مجھے صرف اس بات کا یقین دلایا ہے کہ میرا ابتدائی تاثر صحیح تھا کہ یہ ناانصافی کا کیس ہے۔
ڈورسیٹ پولیس نے اس پروگرام کے لیے انٹرویو دینے سے انکار کر دیا لیکن ڈٹیکٹیو چیف سپرنٹنڈنٹ بین ہارگریوس نے ایک بیان میں کہا کہ جونگ اوکے شن کی موت کی تحقیقات مفصل اور انتہائی پیچیدہ تھیں۔
بینگویٹ نے اپنی سزا کے خلاف اپیل کی تھی لیکن یہ اپیل جولائی 2005 میں کورٹ آف اپیل نے خارج کر دی تھی۔
اس معاملے کا فوجداری مقدمہ جائزہ کمیشن (سی سی آر سی) نے جائزہ لیا تھا جس میں متبادل مشتبہ ملزم کی بات کی گئی تھی لیکن یہ اپیل 2014 میں خارج کر دی گئی تھی۔
یہ معاملہ مختلف جائزوں سے گذر چکا ہے اور اگر متعلقہ حکام یا عدالت اس کی تحقیقات کا حکم دیتی ہیں تو ڈورسیٹ پولیس تحقیقات کرے گی۔ لیکن ہماری دعائیں اوکی کے اہلِ خانہ کے ساتھ ہیں جو ان کی موت سے غمزدہ ہیں۔
Comments are closed.