سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے کڈنی ہل پارک میں مسجد کی تعمیر کا دیا گیا لائسنس منسوخ کردیا، ریمارکس دیئے کہ قبضہ کرنا ہوتو قبر بنا لیتے ہیں، جھنڈے لگا دیتے ہیں، گدھا گاڑی کھڑی کردیتے ہیں، کڈنی ہل پارک پر پختہ تعمیرات نہیں کی جاسکتیں۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ہل پارک کی زمین پر تجاوزات کے خاتمے سے متعلق کیس کی سماعت کی، کمشنر کراچی سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے سماعت میں استفسار کیا کہ کتنے گھر ابھی تک گرادئیے گئے ہیں، انور منصور خان نے بتایا کہ ابھی تک صرف تین گھر گرائے ہیں اور ابھی باقی ہیں، چیف جسٹس بولے کمشنر کراچی کہاں ہے؟ اب تک عدالتی احکامات پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوا۔
انور منصور نے بتایا کہ 13 گھر اور ایک مسجد سے متعلق حکم دیا تھا، صرف 4 گرائے گئے ہیں، باقی لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے کمشنر کراچی سے استفسار کیا کہ جی بتائیں ہم آپ سے پوچھ رہے ہیں، کمشنر کراچی نے بتایا کہ کمشنر کراچی کے دفتر نےرپورٹ جمع کرائی گھر گرا دیئے ہیں، میں دیکھتا ہوں جو ذمہ دار ہیں ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔
کمشنر کراچی نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ مجھے سابق کمشنر کی گھر گرانے کی رپورٹ کا بالکل اندازہ نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ہل پارک کی زمین پر 13 گھر اور ایک مسجد بنائی گئی تھی، کمشنر کراچی اور کمشنر کے ایم سی کو ہل پارک کی زمین سے تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا تھااور ابھی 13 میں سے صرف 4 گھر گرائے گئے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ باقی رہ جانے والے 8 گھر اور مسجد کے خلاف کمشنر کراچی، کے ایم سی نے کارروائی نہیں کی۔
اس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم اس کیس کو اسلام آباد میں 4جنوری کو سنیں گے۔
Comments are closed.