قاتل وہیلز، ڈوبتی کشتی اور تاحدِ نگاہ سمندر: بحرالکال میں 38 دن تک پھنسے رہنے والے خاندان کی ناقابلِ یقین کہانی
قاتل وہیلز، ڈوبتی کشتی اور تاحدِ نگاہ سمندر: بحرالکال میں 38 دن تک پھنسے رہنے والے خاندان کی ناقابلِ یقین کہانی
،تصویر کا ذریعہDOUGLAS ROBERTSON
ایک چھوٹی سی کشتی پر ڈگلس رابرٹسن کے اہل خانہ کا سمندری سفر
ڈگلس رابرٹسن بہت زیادہ خوفزدہ تھے۔ ایک طرف ان کے کولہوں تک تیزی سے پانی بڑھ رہا تھا جبکہ دوسری طرف انھیں یہ خیال ستا رہا تھا کہ جو کشتی دو ماہ سے زیادہ عرصے تک ان کے خاندان کے لیے گھر کا کام دیتی رہی ہے وہ ڈوب رہی ہے۔ اس کے علاوہ سمندر میں تیرتی قاتل وہیلز کے خیال بھی آ رہے تھے۔
وہی خطرناک قاتل وہیلز جنھوں نے کچھ ہی لمحے قبل کشتی کو زور دار ٹکر ماری تھی اور انھیں اس خوفناک صورتحال میں ڈال دیا تھا۔
ڈگلس نے 50 سال بعد اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے اب بھی وہ دہشت ناک منظر یاد ہے، ہم نے قاتل وہیلز کو سطح پر اٹھتے دیکھا تھا، ان میں سے ایک کا سر کشتی کو ٹکر مارنے کی وجہ سے پھٹا ہوا تھا اور خون سمندر میں بہہ رہا تھا۔‘
سنہ 1972 میں اس طرح ان کی کشتی تباہ ہوئی تھی جس نے ڈگلس اور ان کے خاندان کو 28 دنوں تک بحرالکاہل میں بے یارو مدد گار کھلے آسمان تلے بہتے چھوڑ دیا تھا۔ وہ اس عرصے میں کچھوؤں کا گوشت کھا کر اور اپنی تباہ شدہ کشتی سے بچا ہوا پانی پی کر زندہ رہے۔
یہ دراصل ڈگلس رابرٹسن کے والد کا خواب تھا اور وہ اس کو پورا کرنے کے لیے نکلے تھے۔ ان کے والد ایک پرانی کشتی کے کپتان تھے اور وہ سنہ 1969 میں دنیا کے گرد چکر مکمل کرنے والے پہلے شخص برطانوی ملاح رابن ناکس جانسٹن کے کارنامے کی نقل کرنا چاہتے تھے۔
تین سال تک اس سفر کی منصوبہ بندی کرنے کے بعد ڈگلس کے والد نے وسطی لندن میں اپنا فارم بیچ کر لیسٹے نامی ایک 13 میٹر لمبی کشتی خریدی تھی جو بالآخر سمندر کی تہہ میں چلی گئی۔
ڈگلس اس کشتی کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’بے شک وہ پرانی تھی لیکن بالکل درست حالت میں تھی۔‘
،تصویر کا ذریعہNATIONAL MARITIME MUSEUM
ڈگلس رابرٹسن اس کشتی کو دکھا رہے ہیں جس پر انھوں نے وہ خطرناک سفر کیا تھا
لیسٹے کا آخری سمندری سفر
سنہ 1970 میں ریٹائرڈ مرچنٹ میرین کپتان ڈگلس رابرٹسن اپنی بیوی لین، 16 سالہ بیٹے ڈگلس، 17 سالہ بیٹی این اور نو سال کے جڑواں بچوں نیل اور سینڈی کے ساتھ لیک کے ایک ڈیری فارم پر رہ رہے تھے۔
ڈگلس یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فارم پر زندگی کبھی بھی آسان نہیں تھی، جس کی وجہ سے خاندان کے ساتھ دنیا بھر کی سیر کرنے کے خیال نے جنم لیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم زندگی کی منجھدار میں تھے، ایک الگ تھلگ زندگی گزار رہے تھے اور میرے والد جنھوں نے ساری زندگی ایک بھرپور کریئر گزارہ تھا اور والدہ جو پیشے سے نرس تھیں کا خیال تھا کہ یہ سفر بچوں کو زندگی کا تجربات سکھانے کا ایک ذریعے بنے گا۔‘
جیسا کہ توقع تھی اس سفر کی منصوبہ بندی میں وقت لگا۔ ڈوگل کو اپنے رشتہ داروں کی تنقید کے باوجود فارم بیچ کر ایک کشتی لینا پڑی جو سمندری سفر کے لیے موزوں تھی۔
ڈگلس یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’لیکن میرے والد نے اصرار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پوری دنیا کا سفر کرنا ہے کیونکہ یہ اس زندگی سے بہت مختلف ہے جو ہم جی رہے تھے۔‘
اس بحری سفر کے پہلے مرحلے میں وہ پرتگال کے شہر لزبن اور پھر کینری جزائر کے علاقے ٹینیرائف پہنچے۔ اس نوجوان کے لیے جو سفر کے وقت صرف 18 سال کا تھا، کینری جزائر کے ڈھلتے سورج نے اسے سمجھا دیا کہ وہ واقعی ’دنیا بھر کا سفر کر رہے ہیں۔‘
پہلا سامنا
،تصویر کا ذریعہTHE LAST VOYAGE OF THE LUCETTE (BOOK BY DOUGLAS ROBERTSON)
بہاماس پہنچنے پر اس وقت 20 سال کی اینا نے ایک شخص سے ملاقات کی اور اس کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔ جبکہ ان کے خاندان نے جمیکا سے گزرتے ہوئے پاناما کینال کے راستے اپنی بحری سفر جاری رکھا۔
ڈگلس کہتے ہیں کہ سفر کے دوران اس مقام پر ان کا ایک 15 فٹ بڑی وھیل سے سامنا ہوا جس سے انھیں اندازہ ہو گیا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ وہ طنزاً کہتے ہیں کہ ’اس نے کشتی کے ساتھ پیار کرنے کی کوشش کی‘ یعنی ٹکر مارنے کی کوشش کی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں یہ کہتا ہو کہ اس نے پیار کرنے کی کوشش کی اور اس پر میرے نہ ہنسنے کی وجہ یہ ہے کہ مجھے یاد ہے کہ اس کے سانس لینے والے وینٹ سے شدید بدبو آ رہی تھی جیسے کوئی گلی سڑی جھاڑیوں ہوں اور اس کی بو نے پورے جہاز کو متاثر کر دیا تھا۔ ‘
یہ حوفناک واقعے تقریباً 15 منٹ تک جاری رہا اور پھر وہ ہیبتناک بڑا جانور انھیں بنا نقصان پہنچائے چلا گیا۔
ان کے سفر میں اگلا پڑاؤ گالاپاگوس تھا اور وہاں سے فرانسیسی پولینیشیا میں واقع جزائر مارکیساس کا 45 دن کا سفر۔
،تصویر کا ذریعہROBERTSON FAMILY ARCHIVE
وھیلز کا حملہ
ڈگلس یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’وہ 15جون 1972 کی رات کے 10 بجے تھے جب ہم نے ’بینگ، بینگ، بینگ‘ سنا۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ ہم سے کیا چیز ٹکرائی ہے۔
وہ اور ان کا بھائی کشتی کے ڈیک پر تھے جب انھوں نے آرکاز کے ایک گروہ کو پانی سے باہر آتے ہیں، ان میں سے ایک کے سر پر کشتی سے ٹکرانے کے بعد زخم سے خون بہہ رہا ہے۔
’اس نے کشتی کو پوری طرح سے پانی کی سطح سے اوپر اٹھا دیا تھا اور اس نے اس بری طرح ہلا کر رکھ دیا۔‘
ڈگلس اپنے والد کو ڈھونڈنے کے لیے بھاگے، جو ڈیک کے نچلے حصے میں تھے اور جن کے ٹخنوں تک پانی بھر آیا تھا۔ انھیں یاد ہے کہ اس سے پہلے کہ ان کے والد انھیں بتاتے کہ جہاز ڈوب رہا ہے، پانی ان کی کمر تک پہنچ چکا تھا۔
ڈگلس کہتے ہیں کہ ’اس وقت ان کے والد نے کہا کشتی سے نکل جاؤ، کشتی چھوڑ دو لیکن میرا سوال تھا کشتی سے نکل کر کہاں جائیں؟‘
آہستہ آہستہ خوف نے نوجوان ڈگلس کو جکڑے جا رہا تھا۔ ’میں نے فوراً سوچنا شروع کیا کہ یہ سب کچھ ایک بھیانک خواب ہے اور جب میں نیند سے بیدار ہوں گا تو سب کچھ ٹھیک ہو گا۔‘
’لیکن سب کچھ ٹھیک نہیں تھا‘
ڈگلس کا کہنا ہے کہ انھوں نے فوراً اپنے خیالات کو جھٹکا اور جلدی سے کینری جزیرے سے خریدی گئی ہوا والی کشتیوں کو پھولانے کے لیے بھاگے، اور جو کچھ وہ ان میں لاد سکتے تھے لادنے لگے۔
رابرٹسنز کے پیروں تلے سے کشتی غائب ہونے میں چند منٹ لگے، جبکہ لین اس دوران کچھ ضروری چیزیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی جیسے کہ کشتی کے منٹس، ایک چاقو، 10 مالٹے، چھ لیموں، اور کچھ پینے والے پانی کی بوتلیں۔
وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں ہوا والی کشتی پر سوار آخری شخص تھا، اور میں نے دیکھا کہ جڑواں بہن بھائی رو رہے تھے، لیکن وہ خوف سے نہیں رو رہے تھے بلکہ وہ اس لیے رو رہے تھے کیونکہ ہم نے ابھی لیسیٹے کو کھو دیا تھا۔‘
جبکہ اورکاز دور دور تک غائب ہو چکی تھیں اور یہ خاندان بحرالکاہل کی وسعتوں میں دو چھوٹی رافٹس کشتیوں پر رہ گیا تھا۔
ایک تلخ حقیقت
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ڈگلس کبھی بھی یہ منظر نہیں بھولے
اگر ڈگلس کو اپنے والد کی شخصیت کی کوئی بات یاد ہے تو وہ یہ کہ وہ کس قدر ضدی اور سخت تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کی والدہ لین نے سب کچھ سمندر میں کھو جانے کے بعد اپنے بچوں کو اکٹھا کیا اور دعا کرنا شروع کر دی، وہ ایک مذہبی خاتون تھیں۔ ڈوگلس نے یہ دیکھتے ہوئے کہ ان کے والد نے دعا میں شرکت نہیں کی انھوں نے اپنے والد سے دعا میں شریک ہونے کا کہا لیکن ان کے جواب نے ڈوگلس کو لاجواب کر دیا۔ ان کے والد نے جواب میں کہا تھا کہ ’میں ایک ملحد ہوں اور خدا پر یقین نہیں رکھتا ہوں۔‘
دعا کے بعد، اہل خانہ نے جہاز کے ملبے سے کچھ چیزیں نکالنے کی کوشش کی جو سطح پر تیرتی رہ گئی تھیں، جو بعد میں زندہ رہنے کی کلیدی ثابت ہوئیں جیسا کہ ’میری ماں کی سلائی کی ٹوکری، وہ ڈبہ جس میں ہم نے گیس سلنڈر رکھے تھے، یہ سب چیزیں آخر میں بہت اہم ثابت ہوئیں۔‘
جذباتی اثرات پر قابو پانے کے بعد ڈدگلس کا کہنا ہے کہ خاندان نے ایک سوال کرنا شروع کر دیا کہ ’والد، کیا ہم زندہ بچ جائیں گے؟‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ان کے والد نے ہماری طرف دیکھا اور ہمیں بتایا کہ ایسے وقت میں ان کے خاندان سے جھوٹ بولنا مناسب نہیں اور انھیں ہمیں سچ بتانا تھا، لیکن یہ کہ وہ ہمیں یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ہم خوش قسمت ہیں جو زندہ بچ گئے ہیں لیکن یہ کہ ہم زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکیں گے۔‘
ڈگلس کو یاد ہے کہ ان کے والد نے انھیں سمجھا دیا تھا کہ وہ جتنا کر سکتے تھے، وہ کہاں تھے، اور ان کے حساب کے مطابق، ان کے پاس جو پانی تھا وہ 10 دن تک چلے گا۔ اس کے علاوہ، انھوں نے ایک حکمت عملی مرتب کی تھی۔ ’انھوں نے مجھ سے کہا کہ کسی ایک رافٹ کشتی پر پانی کی کچھ بوتلیں لے کر گالاپاگوس جزائر پر جاؤں، اور انھیں ہماری صورتحال سے آگاہ کرو۔‘
لیکن ڈگلس جانتے تھے کہ یہ وہ ایک آپشن ہے جس پر وہ غور نہیں کرنا چاہتے۔ ’میں نے کہا، میں ایسا نہیں کروں گا والد، میں وہاں اکیلے مرنے کی بجائے یہاں آپ کے ساتھ مرنا پسند کروں گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اور جب میں نے سوچا کہ انکار پر اب وہ مجھے ماریں گے نھوں نے میری طرف دیکھا اور کہا ’مجھے افسوس ہے ڈؤگلس، مجھے آپ سے کبھی ایسا کچھ نہیں کہنا چاہیے تھا۔‘
ڈگلس یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’پہلی مرتبہ اس شخص (والد) نے اپنے بیٹے سے معافی مانگی تھی۔‘
زندہ بچنے کی کوشش
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ہلاکو وھیل کشتیوں کا کم ہی نقصان پہنچاتی ہیں
اس خاندان کو زندہ رہنے کے لیے پانی کی ضرورت تھی اور ان کے پاس صرف 10 دنوں کا پانی تھا اور قریب ترین جگہ گیلاپاگوس جزائر تھے جو تقریباً 20 دن کی مسافت پر تھے۔
اور پھر ان کے لیے بارش کی صورت میں نجات آئی۔
ان کی کشتی کے پاس کھانے کی شکل میں کوئی نہ کوئی متجسس کچھوا آتا رہتا تھا لیکن ان کو پکڑنا اتنا آسان نہیں تھا۔
‘میں اس کے بہت قریب تھا، اور میں نے اس کے سر کو پتوار سے مارا۔ اس کی آنکھیں خون سے بھر گئیں اور وہ تیر کر بھاگ گیا۔ ایک دوسرے کو میں نے پکڑ لیا لیکن میں نے ان کے تیز پنکھوں کا خیال نہیں رکھا، اور وہ میرے ہاتھ سے پھسل گیا۔ بہر حال تیسرے کچھوے کو ہم پکڑنے میں کامیاب ہو گئے اور یہ سمجھ گئے کہ ہم اس کا خون پی سکتے ہیں کیونکہ وہ نمکین نہیں تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ پانی کی جگہ لے سکتا ہے۔’
ان 38 دنوں کے دوران انھوں نے یہ سیکھا کہ گوشت کو دھوپ میں کس طرح سکھایا جا سکتا ہے تاکہ اسے زیادہ دنوں تک برقرار رکھا جا سکے اور یہ بھی سیکھ گئے کہ بارش کے پانی کا کس طرح استعمال کیا جائے۔
ڈگلس کا کہنا ہے کہ جب پانی کی دوبارہ قلت ہو گئی تو ان کی والدہ کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ وہ بارش کے خون اور چکنائی والے گندے پانی کو فرش پر جمع کر سکتے ہیں اور اسے اینیما (سٹرا یا حقنہ) کے ذریعے استعمال کر سکتے ہیں۔
‘لہٰذا ہم اینیما کے ذریعے اس پانی کو استعمال کرنے میں کامیاب ہو گئے، کیونکہ آپ کی آنت پانی کو جذب کر لیتی ہے، لیکن چونکہ یہ پیٹ کے دوسری طرف سے اندر آتا ہے، اس لیے یہ کسی بھی زہریلے مواد کو جذب نہیں کرتا، تقریباً سکی فلٹر کی طرح۔’
،تصویر کا ذریعہDOUGLAS ROBERTSON
ڈگ اپنے والد کو یاد کرتے ہیں کہ وہ کس قسم کے سخت جان انسان رہے ہیں
وہ پہلے ہی یہ مذاقا یہ کہتے کہ واپسی پر وہ ایک ریستوراں کھولیں گے جہاں وہ اپنی سیکھی ہوئی ہر چیز کو استعمال کریں گے۔ لیکن وہ یہ طے کر چکے تھے کہ اگر انھیں کوئی کشتی مل جاتی ہے تو وہ اسے کھیتے ہوئے وسطی امریکہ چلے جائيں گے۔
‘ہم کوسٹا ریکا جا رہے تھے، ہم بچاؤ کا خیال پہلے ہی بھول چکے تھے اور ڈوگل اس ریستوراں کے بارے میں بات کر رہا تھا جسے ہم کھولنے جا رہے تھے کہ اسی دوران وہ کہتا ہے کہ ‘دیکھو وہاں ایک کشتی ہے’، اور پھر و ریستوراں کے بارے میں بات کرنے لگتا ہے۔
یہ تقریباً ایسا ہی تھا جیسے ہم اس بات کو بھول ہی گئے تھے کہ وہ کشتی ہمیں بچانے کے لیے آئی تھی، اس لیے ہم زندہ رہنے اور کوسٹا ریکا پہنچنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے۔’
دوگل اٹھا اور شعلے کو روشن کرنے کے لیے چلا گیا۔ لیکن پہلے کو روشن کرنے کے بعد جہاز اپنے راستے پر گامزن رہا۔
‘اس نے دوسرا فلیئر روشن کیا، اور ہم نے دیکھا کہ جہاز نے اپنا راستہ تبدیل کیا، ہماری سمت میں تقریباً 20 ڈگری لیکن بالکل ہماری طرف نہیں۔ پھر جب اس نے مزید 20 ڈگری رخ ہماری طرف کیا، تو ہم نے سوچا کہ سمندروں پر بحری جہاز بغیر کسی مقصد کے اس طرح رخ تبدیل نہیں کرتے۔ اسی دوران ہارن بجنے لگا۔
‘وہ ہمیں بچانے آ رہے تھے، اور ہم لوگ اسی لمحے کا 38 دنوں سے انتظار کر رہے تھے۔’
،تصویر کا ذریعہDOUGLAS ROBERTSON
بچ جانے کے بعد ڈگلس رابرٹسن کے اہل خانہ
محفوظ
رابرٹسن کے خاندان کو جاپانی ماہی گیری کشتی نے بچایا تھا ڈوگل اس وقت چونک گیا جب اس نے ملاحوں کو سوکھے کچھوے اور شارک کے گوشت کو پھینکتے ہوئے دیکھا جو انھوں نے رافٹ پر جمع کیا وہا تھا۔ وہ اب بھی زندگی بچانے کے موڈ میں تھا۔
‘ہم کسی صورت ان کھانوں کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ وہ ہم سے کہیں جھوٹ تو نہیں بول رہے ہیں۔ شاید ان کے پاس جہاز میں کھانا نہ ہو؟ یہ وہ چیزیں تھیں جو ہمارے ذہن میں دوڑ رہی تھیں۔’
وہ جہاز سے پاناما سٹی پہنچے اور ان کے زندہ بچنے کی کہانی پھیلنے لگی اور بین الاقوامی پریس کی توجہ ان کی جانب مبذول ہوئی۔ انھیں ہوٹل کے ریستوراں میں لے جایا گیا، اور انھوں جی بھر کر اچھی طرح کھانا کھایا۔ وہ خون کی کمی اور پانی کی کمی کا شکار تھے، لیکن خاندان حیرت انگیز طور پر اچھی صحت میں تھا۔
اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ چند دنوں کے بعد وہ کشتی کے ذریعے انگلستان واپس آگئے۔
ڈگلس کا خیال ہے کہ ان کے والدین کبھی بھی اپنے بچوں کو ایسی خطرناک صورتحال میں ڈالنے کے صدمے سے نہیں نکلے اور طلاق لے لی۔ لن فارم پر واپس آیا اور دوگل نے سفر کے بارے میں ایک کتاب لکھی اور بحیرہ روم میں اپنی باقی زندگی ایک کشتی پر گزاری۔
دوسری طرف، ڈگلس نے بحریہ میں شمولیت اختیار کی اور بعد میں اپنی یاٹ بیچ دی۔ اس نے اس سفر کے بارے میں ایک کتاب بھی لکھی جس کا نام ‘دی لاسٹ وائج اور دی لوسیٹ’ رکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے سمندروں میں جو کچھ سیکھا وہ ساری زندگی ان کی رہنمائی کرتا رہا۔
‘اور میں نے بہت ہی مختلف النوع زندگیاں گزاری ہیں۔ لیکن بات یہ ہے کہ اس عظیم واقعے کے مقابلے میں وہ ہمیشہ ماند پڑ جاتے ہیں۔ لیکن میرے بیٹے کا خوفناک حادثہ ہوا۔ کار حادثے میں اس کے دماغ کو نقصان پہنچا لیکن بیڑے پر جو ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا تھا ان سب نے اس کی دیکھ بھال کرنے میں میری مدد کی۔
‘میں چیزوں کو مکمل کرنے میں یقین رکھتا ہوں، بالکل اسی طرح جیسے ڈوگل نے کیا تھا۔ ڈوگل تفصیل پر توجہ مرکوز کرتا تھا اس وقت تک نہیں رکتا جب تک کہ وہ اسے درست نہ کر لیتا۔ میں نے یہی سیکھا اور میں اسے اپنے بچوں کو سکھانا چاہتا ہوں۔’
لیکن آپ تصور کر سکتے ہیں کہ میرے بچے پہلے ہی کہہ رہے ہیں ‘اوہ نہیں، پھر سے 38 دن نہیں۔’
Comments are closed.