قاتلوں کا خفیہ گروہ جو حسن صباح کی ’جنت‘ کے لیے مسلم اور مسیحی رہنماؤں کو قتل کرتا تھا

حشاشین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, ہوان فرانسسکو الونسو
  • عہدہ, بی بی سی منڈو

’جب وہ بزرگ کسی بڑے آقا کو مارنا چاہتا ہے تو وہ اِن نوجوانوں کو چنتا ہے جو سب سے زیادہ بہادر ہوں۔۔۔ وہ انھیں یہ بتا کر بھیجتا ہے کہ اگر وہ مارے گئے تو ان کے لیے جنت ہے۔‘

اٹلی کے مہم جو مارکو پولو نے اپنی کتاب میں ایک مسلم گروہ کا ذکر ان الفاظ میں کیا جو مشرق وسطیٰ میں مسیحیوں اور مسلمانوں میں دہشت پھیلاتا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ دراصل اسی گروہ کے نام حشاشین سے ’اسیسن‘ (assassin) کا انگریزی لفظ نکلا ہے جس سے مراد قاتل ہے۔

اس گروہ کا ذکر اطالوی شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے کونراڈ آف مونفراٹ کے حوالے سے بھی ہوا ہے جو تیسری صلیبی جنگ کے اہم رہنماؤں میں سے ایک تھے۔

28 اپریل 1192 کے دوران وہ صور (موجودہ لبنان کے شہر) میں یروشلم کے بادشاہ بننے کا جشن مانے کی تیاری کر رہے تھے تاہم کوئی جشن نہ ہوسکا۔ اس وقت کی تاریخ کے مطابق دو قاصد ایک خط لے کر ان تک پہنچ گئے۔ جب وہ اسے پڑھ رہے تھے تو انھوں نے خنجر نکال کر ان پر وار کر دیے۔

یہ کبھی واضح نہ ہوسکا کہ حملہ آوروں کو کس نے بھیجا تھا لیکن یہ ثابت ہوگیا کہ وہ قاتل حشاشین کے فدائی تھے۔ اس کہانی نے کئی ناول نگاروں، فلم اور ٹیلی ویژن کے ہدایت کاروں کے ساتھ ساتھ حال ہی میں ویڈیو گیم اسیسنز کریڈ کو بھی متاثر کیا۔

حشاشین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مسلمانوں میں تقسیم

پیغمبر اسلام کے جانے کے بعد مسلمانوں میں اس حوالے سے بحث ہوئی کہ کون خلیفہ بنے گا۔

میڈرڈ کی آٹونومس یونیورسٹی میں عرب اور اسلامک سٹڈیز کے پروفیسر اگناسیو گوتیرس دی تران کے مطابق یہی چیز شیعہ اور سنی فرقوں میں تقسیم کا باعث بنی۔

9ویں صدی تک شیعہ فرقہ کافی پھیل چکا تھا مگر پھر قیادت کے تنازع پر دوبارہ ایک نیا اختلاف پیدا ہوا جس نے اسماعیلی فرقے کی بنیاد رکھی۔ ان کا نام امام اسماعیل ابن جعفر کے اعزاز میں رکھا گیا۔

جب ان میں مزید تفریق ہوئی تو ایک حصہ نزار نامی شہزادے کے گرد جمع ہو گیا جسے اسکندریہ (مصر) میں اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد ان کے چھوٹے بھائی کے حمایتیوں نے قاہرہ میں قتل کر دیا تھا۔

مقتول نزار کے پیروکار نئے حاکم کو قبول کرنے کے بجائے مزید مشرق کی طرف فارس چلے گئے اور وہاں انھوں نے دعوت کی ایسی مہم شروع کی جو دونوں سنی اور شیعہ فرقوں کی تنقید کا باعث بنی۔

نزاریوں نے یونانی فلسفہ اور باطنیت کے عناصر کو اپنے اسلامی عقائد میں شامل کیا۔

ظلم و ستم سے بچنے اور اپنے عقائد کا پرچار کرنے کے لیے گروپ نے دعوت کا ایک نیٹ ورک تشکیل دیا۔ فارس کے ایک نوجوان حسن صباح نے ان عقائد کو قبول کرنے کے بعد قاتلوں کے خفیہ گروہ حشاشین کی بنیاد رکھی۔

سپین میں اسلامک سٹڈیز کے پروفیسر ایمیلیو گونزالیز کہتے ہیں کہ حشاشین نے نزاریوں کو شدت پسند بنایا۔ ’یہ سماجی رویہ تھا جس میں مذہب کو جواز کے طور پر پیش کیا گیا۔‘

حشاشین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پہاڑوں میں رہنے والے

نزاریوں نے اپنی ریاست بنانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ اس کے بعد حسن صباح نے فارس کے پہاڑوں کی طرف قیام کیا اور الموت قلعے پر قبضہ کر لیا جو کہ ایلبرز پہاڑی سلسلے (تہران شہر سے تقریباً 100 کلومیٹر شمال) میں واقع ہے۔

یہ ’ناقابل تسخیر‘ قلعہ اس نیٹ ورک کا مرکز تھا جہاں سے نزاریوں نے خود کو موجودہ شام اور لبنان تک پھیلایا۔ اگناسیو کے مطابق وہاں سے اس فرقے کے بانی نے اسلامی ریاستوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کر دیا۔

اپنے مقاصد کے حصول کے لیے حسن صباح نے ایک اعلیٰ تربیت یافتہ ملیشیا تشکیل دی جو مسلم ریاستوں اور صلیبی علاقوں میں مخصوص اہداف کے حصول کے لیے حملے کرتی تھی۔

ایمیلیو کا کہنا ہے کہ ’چونکہ انھیں اقتدار پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں تھی اور نہ ہی ان میں اتنی قوت تھی کہ قبضے کے بعد اسے کنٹرول کر پاتے لہذا انھوں نے سرجیکل آپریشنز کے ذریعے حملے کیے۔ وہ (بھیس بدل کر) کسی کو بھی مار دیتے تھے، اس بات سے قطع نظر کہ وہ اس سے بچ سکیں گے یا نہیں۔‘

مؤرخ نے وضاحت کی کہ حسن صباح کی قیادت میں چلنے والی تحریک مقبول یا بڑے پیمانے پر نہیں تھی بلکہ ’انتہائی فکری تھی جس کے مذہبی رجحان نے بنیاد پرستی کو جنم دیا۔‘

یہ بھی پڑھیے

حشاشین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

الموت قلعے کے باقیات

اس فوج کے بارے میں بہت سے موقف اور افسانے ہیں۔ مسلم ذرائع نے ان کے ارکان یا فدائیوں کے نظام پر تنقید کی ہے جبکہ بعض کا خیال ہے کہ حسن صباح اور بعد میں آنے والے ان کے جانشین فدائیوں کو حشیش (یعنی چرس) کے نشے میں دھت کروا کر قاتلانہ مہمات پر بھیجا کرتے تھے۔

اگناسیو کا کہنا ہے کہ ’کہا یہ جاتا ہے کہ حسن صباح نے تربیت کے دوران اپنے ملیشیا کو جنت کے بارے میں بتایا اور پھر انھیں نشے کا عادی بنایا۔ وہ ان پتوں کو پیتے یا چبا لیتے تھے۔ پھر وہ انھیں قتل کرنے کا حکم دیتے۔‘

تاہم ایمیلیو کے مطابق یہ موقف غلط ہے جو اس لیے پھیلا کیونکہ اس گروہ کی حکمت عملی کے بارے میں معلومات کا فقدان تھا اور اسے بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ ’جس نے بھی چرس کا نشہ کیا ہو اسے معلوم ہے کہ اسے پینے کے بعد کسی کا قتل کرنا وہ آخری کام ہے جو آپ کرنا چاہیں گے۔‘

’یہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ انھیں نشہ دیا جاتا تھا کیونکہ وہ اپنی قربانی دیتے تھے۔ اگر ایسا کچھ تھا تو یہ نشہ چرس کے بجائے کوئی اور چیز ہوگی۔‘

ان کے خیال میں حشاشین سے مراد بنیاد پرست تھا، نہ کہ وہ لوگ جو حشیش کا استعمال کرتے ہیں۔

معروف تاریخ دان برنارڈ لیوس کے مطابق اس دور کے اسماعیلیوں کے لیے لفظ ’حشاشیہ‘ (حشیش پینے والا) کی اصطلاح دراصل اس لیے استعمال ہوتی تھی کہ دوسروں کو ان کے خیالات بہکے بہکے لگتے تھے، نہ کہ خود حشیش پینے کے باعث۔

حشاشین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ان حملہ آوروں کا پسندیدہ ہتھیار خنجر تھا

خودکش حملہ آور پیدا کرنے والا خفیہ ادارہ

کسانوں کے بچوں کی خریداری یا اغوا کچھ ایسے طریقے تھے جن سے حسن صباح اور ان کے جانشینوں نے ملیشیا کی صفوں کو پروان چڑھایا۔

ایک بار بھرتی ہونے کے بعد نئے فدائی کو نہ صرف ہاتھوں سے لڑنا سکھایا جاتا بلکہ ان شہروں یا قصبوں کی زبان، ثقافت اور رسم و رواج کا بھی علم دیا جاتا تھا جہاں انھیں بھیجا جائے۔

ایمیلیو کے بقول ’وہ کسی ننجا فائٹر کی طرح تھے جنھیں معلوم تھا کہ کیسے بھیس بدل کر لوگوں میں گھلنا ملنا ہے۔‘

اگناسیو نے انھیں ’اچھے اور مہذب لوگوں‘ کے طور پر بیان کیا جو ’روایات اور یہاں تک کہ ان جگہوں کے باشندوں کے بولنے اور برتاؤ کا طریقہ جانتے تھے جہاں وہ اپنے حملوں کو انجام دینے والے تھے۔‘

قاتلوں میں خاص صلاحیت تھی کہ وہ حملے کے مقام میں کسی نہ کسی طرح گھس جاتے تھے۔ وہ اس لیے مشہور ہوئے کیونکہ وہ اہداف کے تعاقب میں باریکی سے کام لیتے تھے اور قتل کی داستان خوفزدہ ہوتی تھی۔

حشاشین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

مہم جو مارکو پولو

برنارڈ لیوس نے 14ویں صدی کے جرمن پادری کی کہانی کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی کتاب میں بتایا کہ ان قاتلوں کو بُرا بھلا کہا جاتا اور ان سے بچنے کی کوشش کی جاتی تھی مگر ’وہ خود کو بیچ دیتے ہیں، وہ انسانی خون کے پیاسے ہیں۔ وہ قیمت کے عوض بے گناہوں کو مارتے ہیں اور انھیں کسی چیز کی پرواہ نہیں، یہاں تک کہ نجات کی بھی نہیں۔‘

’وہ (ہمارے) اشاروں، لباس، زبانوں، رسم و رواج اور مختلف قوموں اور لوگوں کے اعمال کی نقل کرتے ہیں، جیسے بھیڑوں کے لباس میں چھپے ہوئے ہوں۔ پہچانے جانے پر انھیں مار دیا جاتا ہے۔‘

ایمیلیو نے اس گروہ کے فدائین کو ’تاریخ کے پہلے دہشتگرد‘ قرار دیا کیونکہ ان کے بہت سے کام دن کی روشنی میں عوام میں خوف پیدا کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا ’اگر کوئی گورنر اپنے محافظ کے ساتھ بازار سے گزرتا ہے تو ایک قاتل کہیں سے نمودار ہو گا، چاقو نکال کر اس کا گلا کاٹ دے گا، چاہے وہ زندہ واپس آسکے یا نہیں۔‘

اگناسیو کے مطابق یہ بہتر تھا کہ قاتل مارا جائے تاکہ ان آپریشنز کی بنیاد خفیہ ہی رہے۔

حشاشین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

انگلینڈ کے شاہ ایڈورڈ اول پر بھی حسن صباح کے قاتلوں نے حملہ کیا تھا

جنت کی قیمت اپنا خون

اپنے فدائین میں خود کو قربان کرنے کا جذبہ اجاگر کرنے کے لیے حسن صباح انھیں الموت قلعے میں مذہب کی تعلیم دیتے تھے۔ مارکو پولو نے اپنی کتاب میں لکھا کہ قلعے کی تعمیر بھی اسی مقصد سے کی گئی تھی۔

انھوں نے لکھا کہ حسن صباح نے ’دو پہاڑوں اور وادی کے بیچ اس کی تعمیر کی جہاں ایک انتہائی خوبصورت باغ بھی تھا۔ یہاں زمین کے بہترین پھل تھے ۔۔۔ باغ کے بیچ و بیچ ایک چشمہ تھا جہاں سے شراب، دودھ، شہد اور پانی کی ندیاں بہتی تھیں۔‘

’وہ وہاں دنیا کی حسین ترین لڑکیاں لائے تھے جنھیں موسیقی کے تمام آلات بجانے آتے اور وہ پریوں کی طرح گاتیں۔ اس بزرگ نے اپنے فدائین کو یہ یہی تصور دے رکھا تھا کہ یہی جنت ہے۔‘

ان کے مطابق ’باغ میں قاتلوں کے سوا کوئی داخل نہیں ہوسکتا تھا۔‘

مارکو پولو کے مطابق حسن صباح تربیت یافتہ قاتلوں کو باغ تک محدود رکھتے تھے تاکہ وہ لطف اندوز ہوسکیں۔

تاہم جب ان کے پاس کسی کے لیے کوئی مشن ہوتا تو وہ انھیں نشہ دے کر باہر لاتے۔ جب منتخب کردہ شخص بیدار ہوتا تو وہ انھیں بتاتے کہ اگر اسے جنت واپس جانا ہے تو اسے مطلوبہ کام کرنا ہوگا۔

مارکو پولو لکھتے ہیں کہ وہ اس کام پر راضی ہوجاتے تھے کیونکہ ’کوئی بھی اپنی مرضی سے اس جنت کو چھوڑنا نہ چاہے۔‘

حشاشین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

الموت قلعہ اس وقت تک نزاری کنٹرول میں رہا جب تک اسے منگول فوج نے تباہ نہیں کر دیا

دو دہائیوں تک قتل و غارت

نزاری آرڈر کا دور 166 برس تک جاری رہا۔ پھر ان کے دشمن منگولوں نے ان کا صفایا کردیا۔

اگسناسیو بتاتے ہیں کہ ’منگول بڑا حظرہ تھے۔ وہ زیادہ ظالم تھے اور مغرب کے بجائے قریبی مقام سے آئے تھے۔ لہذا نزاریوں نے ان کے ساتھ کسی طرح کا معاہدہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔‘

چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کی فوج نے ان کے ناقابل تسخیر قلعے کو زمین بوس کر دیا۔ بعض تاریخ دان سمجھتے ہیں کہ ہلاکو خان کا خیال تھا کہ قاتلوں نے ان کے ایک انکل کا قتل کیا ہے۔

مگر اس سے قبل ان قاتلوں کے ہاتھوں کئی مسلم اور مسیحی رہنماؤں کی جانیں گئیں۔

اگسناسیو کے مطابق سلطان صلاح الدین ایوبی ان مسلم رہنماؤں میں سے تھے جنھیں ان قاتلوں نے ہلاک کرنے کی کوشش کی مگر وہ خوش قسمتی سے اپنی جان بچانے میں کامیاب رہے اور بعد ازاں اسلامی تاریخ کی اہم شخصیات میں سے ایک کے طور پر مانے گئے۔ انھوں نے 12ویں صدی کو یروشلم دوبارہ مسلمانوں کو دلایا تھا۔

حشاشین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

اسی گروہ سے متاثرہ ویڈیو گیم ’اسیسینز کریڈ‘ (Assasin’s Creed)

اگسناسیو کہتے ہیں کہ ’صلاح الدین نے صلیبیوں کو نکالنے کے لیے کئی مہمات کیں لیکن انھیں احساس ہوا کہ ایسا کرنے کے لیے انھیں کئی مسلم ریاستوں اور بادشاہتوں کو ختم کرنا ہوگا جو ان کا ساتھ دیتی تھیں۔ اپنی ایک مہم کے دوران انھوں نے مصیاف (موجودہ شام) میں نزاریوں کے ایک قلعے کو نشانہ بنایا۔

نزاریوں نے فوراً ردعمل دیا اور انھیں ہلاک کرنے کے لیے قاتل بھیجے۔

اگسناسیو کے مطابق قاتل صلاح الدین کے خیمے میں ان کے فوجی بن کر داخل ہوئے اور انھیں خیمے میں ہی قتل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ایسا نہ کرسکے۔ اس لیے کیونکہ انھوں نے باڈی آرمر پہن رکھا تھا اور ان کی ٹوپی کے نیچے سٹیل کی ہیلمٹ تھی۔

صلیبی جنگ میں حصہ لینے والے انگلینڈ کے شاہ ایڈورڈ اول بھی 1272 میں فدائین کی تلوار سے بال بال بچے تھے۔

یہ خفیہ طرز کے آپریشن کی سروس مسلمانوں اور مسیحیوں دونوں کے لیے دستیاب تھی اور وہ بھی بھاری رقم کے بدلے۔ اس طرح کئی صدیوں تک ان کی ہٹمین کی ساکھ برقرار رہی جو اب بھی قائم ہے۔

حشاشین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

یروشلم کے فاتح صلاح الدین نزاری حملے میں بچ گئے تھے

BBCUrdu.com بشکریہ