کرکٹ نشریات دکھانے کیلئے پی ٹی وی اور نجی اسپورٹس چینل کے درمیان ہوئے معاہدے پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی بین الصوبائی رابطہ نے سوالات اٹھا دئیے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائےبین الصوبائی رابطہ کا نواب شیر وسیر کی صدارت میں اجلاس ہوا جس میں کمیٹی نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ کی عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کیا۔
حکام پی سی بی نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ وزیر اعلیٰ سندھ کیساتھ ملاقات کے باعث رمیز راجہ کراچی میں ہیں، پی ایس ایل کی تیاریوں کے حوالے سے ملاقات کافی اہم تھی۔
چیئرمین قائمہ کمیٹی نے اس پر کہاکہ وزیر اعلیٰ سندھ محترم ہیں لیکن چیئرمین پی سی بی کو کمیٹی اجلاس میں ہونا چاہئے تھا، مہرین رزاق بھٹو نے کہاکہ رمیز راجہ کی وزیر اعلیٰ سندھ سے گزشتہ روز ملاقات ہو چکی ہے۔
اجلاس میں چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کنسورشیم بنانے پر تشویش کا اظہار کر دیا، کمیٹی نے کرکٹ بورڈ میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات شخصیات کو تنخواہیں دینے کا معاملہ بھی اٹھایا اور کمیٹی ارکان نے چیئرمین، سی ای وی، فنانس، لیگل حکام کی تنخواہوں کی تفصیلات مانگی ۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے اعلیٰ حکام کی تنخواہوں کی تفصیلات قائمہ کمیٹی میں پیش کی گئیں، کمیٹی رکن اقبال محمد علی نے بتایا کہ پی سی بی میں سب سے مہنگے سابق سی ای او تھے، سابق سی ای او ملک میں کرکٹ کا بیڑا غرق کرکے گئے ہیں۔
کمیٹی رکن اقبال محمد علی نے سوال کیا کہ بتایا جائے وسیم خان نے استعفیٰ کیوں دیا؟، وقار یونس اور مصباح الحق بھی کنٹریکٹ پورا کیے بغیر چلے گئے۔
حکام پی سی بی نے بتایا کہ ثقلین مشتاق، سلمان نصیر کو بارہ بارہ لاکھ ماہانہ دیا جاتا ہے،جبکہ کرکٹ بورڈ میں 750سے زائد ملازمین کام کرتے ہیں۔
کمیٹی رکن اقبال محمد علی نے کہاکہ کرکٹ بورڈ پی ایس ایل انڈر 19کروانے کی تیاری کررہا ہے،خدا کے لئے ایسا غلط فیصلہ نہ کیا جائے، پی سی بی کے پہلے ہی فرنچائز کیساتھ فنانشل اختلافات ہیں۔
حکام پی سی بی نے جواب میں کہا کہ آپ کا پیغام چیئرمین پی سی بی کو پہنچا دیں گے۔
واضح رہے کہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 23-2022 کے لیے نشریاتی حقوق کے حصول کے لیے قائم ہونے والی پاکستان ٹیلی ویژن اور نجی اسپورٹس چینل کی شراکت نے پورے معاملے کو متنازع بنادیا، بغیر کسی طریقہ کار کے وجود میں آنے والے اس کنسورشیم پر کئی سوالات اٹھ گئے ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے گزشتہ دنوں اعلان کیا تھا کہ پی ایس ایل کے اگلے دو سال کے لیے نشریاتی حقوق پی ٹی وی اسپورٹس اور اے اسپورٹس کے درمیان کنسورشم کو مل گئے ہیں۔
اس سے قبل اس طرح کے کنسورشم کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی اس کے قیام کے لیے درکار قانونی تقاضوں کو مکمل کیا گیا تھا اور اس سارے عمل نے حکومتی زیر کنٹرول پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگادیا۔
Comments are closed.